ناول انکشاف قسط 7
” آنسہ کیا کبھی ہمارے دن بھی پھریں گے اور ہم بھی اس محلے سے نکل کر ، کسی صاف ستھری جگہ پہ اپنا گھر بنا پائیں گے؟”عبدالشکور ، جمائی لیتے اور انگڑائی کرتے ہوئے ، بیوی سے مخاطب تھا جو چپ چاپ تارے گن رہی تھی۔” او آمنہ کی ماں! میں تم سے بات کررہا ہوں”۔ عبدالشکور نے اُسے اونچی آواز میں مخاطب کیا۔” مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ جب ہونا ہوگا تو ہوجائے گا۔ ابھی چپ کرکے سوجاؤ، مجھے صبح اٹھ کر بہتیرے دھندے کرنے ہیں۔”۔ آنسہ نے لیٹے لیٹے ناگوار انداز میں بات کی اور پھر پہلو بدل لیا۔” ہاں جی میں تو جیسے نکما ہوں۔ سارا دن گھر میں سویا پڑا رہتا ہوں۔پورے گھر کا بوجھ تو تم نے اٹھا رکھا ہے۔ ایک میں ہی نکما ہوں بس۔ ہوں”۔ عبدالشکور نے غصے سے اپنے اوپر چادر کو دراز کیا اور پھر رخ موڑ کر آنکھیں میچ لیں۔
آنسہ ابھی کچی نیند میں ہی تھی کہ اُسے کھانسی شروع ہوگئی اور وہ چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ کھانسی کی شکایت اُسے کافی عرصے سے تھی، مگر استطاعت نہ ہونے کے سبب وہ کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکتی تھی۔ بس لے دے کے محلے کا ایک عطائی ڈاکٹر محمد بخش ہی بچتا تھا، جو زائدالمعیاد ادویات اُسے نصف قیمت پر دے کر، اُسے یہ احساس دلائے رکھتا تھا کہ وہ کس قدر نیک دل اور اچھا انسان ہے۔ عموما وہ ہر بار یہ زائدالمعیاد ادویات دیتے وقت ، یہ وصیت آنسہ کو کرنا نہ بھولتا تھا کہ دوا دینا میرا کام ہے مگر شفا من جانب اللہ ہے۔ اگرچہ محلے کی کئی خواتین اُسے شہر کے بڑے ہسپتال جانے کا مشورہ دیتی تھیں، مگر وہ حیلے بہانے سے ٹال دیتی تھی۔ اب رات کے اس پہر جو کھانسی کا حملہ ہوا تو اُس کی کھانسی کی آواز سے عبدالشکور کے ساتھ ساتھ بچے بھی جاگ گئے اور امی کے پاس آکر روہانسی شکل بنا کر ، اُسے بے بسی سے دیکھنے لگ پڑے۔
"یا اللہ! تو رحم کردے میرے مالک”۔ آنسہ کھانستے ہوئے خدا سے دعا مانگ رہی تھی۔” بیٹا! جا مجھے تھوڑا سا پانی تو لادے”۔ آنسہ نے بیٹی کو کھانستے ہوئے کہا تو آمنہ فورا دوڑتی ہوئی پانی لانے چلی گئی۔ عبدالشکور چارپائی پہ بیٹھ کر، آنسہ کو کھانستے ہوئے دیکھ رہا تھا اور ساتھ میں بے بسی کے عالم میں کڑھتا جا رہا تھا۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا اور آنسہ تھی کہ کھانسے چلی جارہی تھی۔ اب وہ را ت کے اس پہر کس کے پاس جاتا۔ شہر کے سبھی میڈیکل سٹورز اور ہسپتال تو بند ہوچکے تھے، اور پھر ہسپتال جانے کیلئے بھی تو پیسے چاہیے تھے وہ کہاں سے میسر آتے۔ایک بے بسی کا عالم تھا، کہ خاوند کے سامنے ، اُس کی عزیز از جان بیوی کھانسی سے ہلکان ہوئے جارہی تھی اور وہ سوائے افسوس اور بے بسی کے ساتھ اُسے دیکھنے کے سوا کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔
آنسہ کی شادی عبدالشکور کے ساتھ جب ہوئی تو اُس وقت آنسہ کی عمر یہی کوئی پندرہ سولہ برس ہوگی۔ وہ بھی عبدالشکور کی طرح ایک مفلوک الحال گھرانے کی چشم و چراغ تھی، جہاں اُس کے ساتھ گھر میں چار اور بہنیں بھی موجود تھیں۔آنسہ کے والد موچی تھے اور شہر کی جامع مسجد کے محراب کے سائے تلے بیٹھ کر، جوتیاں گانٹھا کرتے تھے۔آنسہ کی ماں اور باپ دونوں کو بیٹے کی از حد خواہش تھی اور بیٹے کی آس میں آنسہ کی ماں گھر میں پانچ بیٹیاں پیدا کرکے، اب دارِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف ہجرت کرچکی تھی۔ باپ نے بچیوں کا بوجھ اتارنے اور اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے، جیسے جیسے رشتے آتے گئے، وہیں اپنی بیٹیوں کو بیاہتا چلا گیا تاکہ اس فرض سے سبکدوش ہوکر پاک صاف خدا کے حضور پیش ہوسکے۔ آنسہ کا باپ تو اپنا فرض نبھا کے خدا کے ہاں شاید سرخرو ہوچکا ہوگا، مگر بیٹیوں کو شوہر اور سسرال کیسا ملا یہ بیٹیاں جانیں اور اُن کا خدا جانے۔
عبدالشکور اُسی مسجد میں مزدوری کرتا تھا، کہ ایک دن وہ آنسہ کے باپ کے پاس نماز پڑھ کے بیٹھ گیا۔باتوں ہی باتوں میں آنسہ کے باپ کو عبدالشکور ایک معقول انسان محسوس ہوا تو اُس نے خود ہی عبدالشکور کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی پیشکش کردی۔ عبدالشکور بھی جانتا تھا کہ اُسے کون رشتہ دے گا، سو اُس نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے جھٹ میں ہاں کردی اور ہفتے بعد آنسہ کی عبدالشکور سے شادی ہوگئی۔
آنسہ شادی کے وقت اگرچہ کم سن تھی۔تاہم غربت کی چکی میں پستے پستے وہ اس قدر پختہ ہوچکی تھی، کہ اُسے عبدالشکور کے گھر میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں ذرا بھی دقت نہ ہوئی۔ آنسہ کیلئے شادی کے بعد بھی زندگی ویسی ہی تھی، جس میں اب باپ اور بہنوں کی خدمت کی جگہ شوہر نے لے لی تھی۔ وہی کچے مکان، وہی ٹھنڈا چولہا، وہی شوربے سے بھرپور مسور کی دال، وہی خالی منہ چڑاتی ٹوکریاں، وہی تحقیر آمیز رویے اور نگاہیں، وہی صبح وہی شام ، الغرض بس مکان کی تبدیلی کے سوا کوئی ایسی چیز نہ تھی، جس سے آنسہ کو عبدالشکور کے ہاں تبدیلی کا احساس ہوتا۔
عبدالشکور کی زندگی میں آنسہ کے آنے سے البتہ ایک فائدہ یہ ہوا کہ اُسے شہر میں ایک جوتیاں بنانے والے کارخانے میں ملازمت مل گئی اور یوں اُس کی اب لگی بندھی تنخواہ گھر میں آنے لگ پڑی۔ عبدالشکور کا گھرانہ ہجرت کے وقت جالندھر سے اس شہر میں آیا تھا، جس کے کل افراد کی تعداد نو تھی۔ عبدالشکور کے ماں باپ جالندھر سے پوری کامیابی کے ساتھ بخیر و عافیت لاہور آئے تھے، مگر والٹن کیمپ میں ہیضے کی وبا نے دونوں کی جان لے لی اور یوں عبدالشکور اپنے دو چچاؤں کے سہارے رہ گیا۔ خاندان کے دیگر افراد میں اُس کی دو چچیاں اور اُن کے بچے تھے جو عبدالشکور کی طرح اُس وقت چھوٹے تھے۔ان تمام افراد کو کچھ دن بعد والٹن کیمپ سے سرگودھا منتقل کیا گیا، جہاں انہیں ایک خستہ حال حویلی محکمہ اوقاف کی طرف سے دی گئی اور یوں ایک بے گھر خاندان کو اسلامی مملکت میں دکھائے گئے "سہانےخوابوں ” کی اس طرح شاندار تعبیر مل گئی۔
- محبت کی ایک کہانی - 20/09/2023
- اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ - 14/09/2023
- بھول - 09/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).