فرانز کافکا کا اپنے والد کے نام خط


عزیزی والد صاحب!
آپ نے چند دن پیشتر مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کیوں ایسا کہتا ہوں کہ میں آپ سے خوف زدہ رہتا ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میں آپ کے سوال کا کیسے جواب دوں۔ میرے جواب نہ دینے کی کئی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو یہی ہے کہ میں آپ سے خوف کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے خوفزدہ رہنے کی اتنی زیادہ وجوہات ہیں کہ میں آپ کے سامنے وہ سب بیان نہیں کر سکتا۔

اب جبکہ میں وہ وجوہات لکھنے بیٹھا ہوں پھر بھی میں یہ جانتا ہوں کہ میری ان وجوہات کی فہرست نامکمل رہے گی کیونکہ لکھتے وقت بھی میں نہیں جانتا کہ اس خط کے نتائج کیا ہوں گے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میرے خوف کی جڑیں میرے لاشعور میں اتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ تو میں انہیں اچھی طرح یاد کر سکتا ہوں اور نہ ہی انہیں پوری طرح سمجھ سکتا ہوں۔ وہ میری شعوری رسائی سے بہت دور ہیں۔

آپ میرے خوف کو ایک سادہ سا مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ میرے لیے وہ ایک پیچیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ آپ نے کئی بار اپنے دوستوں کو یہ بتایا ہے کہ آپ نے ساری عمر بہت محنت اور مشقت کی ہے اور اپنے بچوں کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں خاص طور پر میرے لیے تا کہ میں زندگی میں کامیاب ہو سکوں۔

آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ نے مجھے پوری آزادی دی ہے کہ میں زندگی میں جو راستہ چاہوں اپناؤں۔ آپ نے اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کیا تھا تا کہ ہم اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔

آپ کہتے ہیں کہ آپ مجھ سے شکریے کے خواستگار تو نہیں لیکن کم از کم یہ امید رکھتے ہیں کہ میں آپ کے بارے میں ایک ہمدردانہ رویہ رکھوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں آپ سے دور رہتا ہوں۔ میں آپ سے کتراتا ہوں اور اپنے دوستوں اور کتابوں کے پیچھے چھپا رہتا ہوں۔ آپ کو شکایت ہے کہ میں نہ ہی عبادت کے لیے آپ کے ساتھ سناگاگ جاتا ہوں اور نہ ہی آپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہوں۔

آپ کو یہ بھی شکایت ہے کہ میں اپنے دوستوں کا تو بہت خیال رکھتا ہوں لیکن آپ کو نظرانداز کرتا ہوں اور اپنی چھوٹی بہن اوٹلا کی ہٹ دھرمی میں اس کا ساتھ دیتا ہوں۔ آپ کی مجھ سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ میں ناشکرگزار ہوں اور آپ سے سردمہری سے پیش آتا ہوں۔

آپ کے خیال میں ہمارے رشتے کی خرابی میں سارا قصور میرا ہے۔ آپ کا کوئی قصور ہے تو بس اتنا ہے کہ آپ مجھ سے حد سے زیادہ مہربانی سے پیش آتے رہے ہیں۔

میں اگر آپ کو قصور وار نہیں ٹھہراتا تو خود کو بھی قصور وار نہیں ٹھہراتا۔

اگر آپ مان جائیں کہ ہم دونوں بے قصور ہیں تو ممکن ہے ہمارے رشتے میں کوئی مثبت تبدیلی اور آپ کی مجھ سے شکایتوں کی طویل فہرست میں کوئی کمی آ سکے۔

چند دن پیشتر آپ نے مجھ سے کہا تھا ’میں تمہیں پسند کرتا ہوں اگرچہ میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ میں دوسرے باپوں کی طرح نہیں ہوں جو محبت کا دکھاوا کرتے ہیں کیونکہ میں دکھاوا نہیں کر سکتا۔‘

میں جانتا ہوں کہ آپ دکھاوا نہیں کر سکتے لیکن آپ کا دوسرے باپوں پر یوں تنقید کرنا بھی مناسب نہیں۔ اس سے آپ کے احساس تفاخر کا اظہار ہوتا ہے۔

اگر آپ مان جائیں کہ ہمارے رشتے میں کچھ کجی ہے اور ہم دونوں نے مل کر وہ کجی پیدا کی ہے تو ہو سکتا ہے ہم کوئی بامعنی مکالمہ کر سکیں۔

یہ کہنا تو مبالغہ آمیزی ہوگی کہ میں جو کچھ ہوں وہ صرف آپ کی وجہ سے ہوں کیونکہ کسی بھی انسان کی شخصیت بنانے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ میرے دوست ہوتے یا چچا ہوتے یا دادا ہوتے تو میں آپ کی شخصیت سے اتنا متاثر نہ ہوتا لیکن آپ میرے باپ ہیں اور آپ سے باپ بیٹے کا رشتہ نبھانا مرے لیے ہمیشہ بہت مشکل رہا ہے۔

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری شخصیت میں بہت فرق ہے۔ میں شروع سے ایک کمزور اور شرمیلا بچہ رہا ہوں اور آپ ایک بھاری بھرکم شخصیت کے مالک ہیں۔ میں بچپن سے اس خوف سے لرزتا تھا کہ کہیں آپ مجھے اپنی طاقت سے روند نہ ڈالیں۔

میں زندگی کے آغاز سے ہی آپ سے خوفزدہ رہتا تھا یہ علیحدہ بات تھی کہ میری والدہ نے مجھے بہت لاڈ پیار سے پالا۔ ہو سکتا ہے اس لاڈ پیار نے مجھے بگاڑ بھی دیا ہو اور میں ایک ہٹ دھرم بچہ بن گیا تھا۔ اپنی ہٹ دھرمی کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آپ مجھ سے پیار ’محبت اور شفقت سے پیش آتے تو میں موم ہو جاتا لیکن آپ ایک سخت گیر اور غصیلے انسان تھے۔ اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے ہیں اور نانا بن گئے ہیں آپ کے مزاج میں کچھ نرمی آئی ہے۔

اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ آپ کی سخت گیری کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ مجھے ایک پراعتماد نوجوان بنانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ نتیجہ الٹ نکلا۔ آپ کی سخت طبیعت نے میری خود اعمادی کو بری طرح مجروح کیا اور میرے دل میں ہمیشہ کے لیے خوف بٹھا دیا۔

میرے بچپن کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جن سے آپ کی سخت گیر شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ میں یہاں صرف ایک واقعہ رقم کرتا ہوں ہو سکتا ہے آپ کو بھی یاد آ جائے۔

ایک رات میں پانی مانگ رہا تھا۔ عین ممکن ہے میں پیاسا نہ ہوں اور صرف آپ کو تنگ کر رہا ہوں۔ پہلے آپ نے مجھے جھڑکا۔ پھر مجھے اٹھا کر بالکونی میں چھوڑ کر دروازہ بند کر دیا اور خود کمرے میں آ کر سو گئے۔ آپ نے جس طرح مجھے سبق سکھانا چاہا وہ ایک ظالمانہ عمل تھا کیونکہ اس واقعہ نے مجھے جذباتی طور پر زخمی کر دیا تھا۔ اس سزا کے اثرات مجھ پر آج تک موجود ہیں۔ اس واقعہ سے مجھے یوں لگا جیسے میری آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔

اس واقعہ کے بعد آپ نے کئی بار مجھے اہمیت دینے کی کوشش بھی کی لیکن میرے اس احساس کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، میں کوئی کمی نہ آئی۔

اسی لیے اب جب آپ میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک کرنا چاہتے ہیں تو اس کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا کیونکہ میرا بچپن میں ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ بچپن میں جب آپ کو میری حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی اس وقت آپ نے وہ حوصلہ افزائی نہیں کی۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب بچپن میں ہم دونوں ایک ہی کیبن میں کپڑے بدل رہے تھے۔ میں نے دیکھا آپ کا جسم بہت بھاری اور طاقتور اور میرا جسم نہایت نحیف و ناتواں تھا۔ جہاں مجھے آپ کے طاقتور ہونے پر فخر تھا وہیں مجھے اپنے کمزور ہونے پر ندامت تھی اور اس ندامت کے اثرات آج تک میری شخصیت کو منفی انداز میں متاثر کر رہے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ آپ میں خود اعتمادی کی زیادتی ہے اور مجھ میں کمی۔

آج بھی آپ کی رائے میں ایک تیقن ہوتا ہے مبالغہ آمیزی ہوتی ہے آپ کی رائے دوسروں کی رائے پر چھا جاتی ہے۔ کبھی کبھار آپ اپنی رائے کو بدل بھی لیتے ہیں اور پھر دوسری رائے کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی کہ پہلی رائے کو۔ یہ علیحدہ بات کہ دوسری رائے پہلی رائے کے الٹ اور متضاد ہوتی ہے۔ میری نگاہ میں آپ کی شخصیت میں ایک آمرانہ پہلو ہے جو مجھے احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے۔

آپ نہیں جانتے کہ آپ کی شخصیت کے آمرانہ اور جابرانہ پہلو نے میری ناتواں شخصیت کو مسخ کر دیا ہے۔ آپ نے شروع سے میری رائے کا احترام نہیں کیا بلکہ سب کے سامنے میری رائے کو توہین و تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا۔

آپ یہ سب کچھ کرتے بھی رہے اور پھر اس سے مکرتے بھی رہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ ساری عمر ایک تجاہل عارفانہ سے کام لیتے رہے۔ آپ شروع سے سخت الفاظ سے ایسے حملہ آور ہوتے کہ میں نہتا محسوس کرتا اور آپ کے رعب کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا۔ امید ہے اس گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آپ نے کس طرح میری تربیت کی ہے اور میری شخصیت کو کس طرح مسخ کیا ہے۔

جب میں ایک بچہ تھا تو آپ کی رائے میرے لیے ایک حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کی ایک مثال ہمارا مل کر کھانا کھانا تھا۔ آپ خود تو جلدی جلدی بڑے بڑے لقمے لے کر جلد کھانا ختم کر لیتے تھے اور ہمیں بھی جلدی جلدی کھانے کو کہتے تھے۔ اگر ہم کھانے کے دوران کچھ باتیں بھی کرنا چاہتے تھے تو آپ کا حکم آتا تھا

پہلے کھانا کھاؤ پھر بات کرنا

آپ ہمیں ہمیشہ کھانا کھانے کے آداب سکھاتے رہتے۔ میرے لیے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ ہمیں جو حکم دیتے خود اس پر عمل نہ کرتے تھے۔

شروع سے ہی آپ کا رویہ حاکمانہ اور جارحانہ ’آمرانہ اور جابرانہ تھا لیکن آپ نے کبھی اپنے اس رویے کو تسلیم نہیں کیا۔ شاید اسی لیے مجھے یہ محسوس ہوتا کہ میں آپ کا بیٹا نہیں غلام ہوں۔ اگر میں آپ کے حکم کی تعمیل کرتا تو خجالت محسوس کرتا اور اگر حکم عدولی کرتا تب بھی ندامت محسوس کرتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے بیٹے ہونے کی نسبت سے میری قسمت میں ندامت اور خجالت ہی لکھے ہوئے ہیں۔

چونکہ آپ نے مجھے اختلاف کرنے کا کوئی حق نہیں دیا اس لیے میں خاموش ہو گیا یا خاموش کر دیا گیا۔ اسی لیے میری گفتگو کرنے کی اور بولنے کی صلاحیت صلب ہو گئی اور میں جسمانی اور جذباتی طور پر تھتھلانے لگا۔

دھیرے دھیرے میری خامشی آپ کے خلاف میری مضاہمت بن گئی اور داخلی طور پر ایک باغی انسان بن گیا۔ میں دل ہی دل میں آپ کی حکم عدولی کرنے لگا۔ بظاہر میں آپ کی تابع داری کر رہا ہوتا لیکن دل میں بغاوت کا سوچ رہا ہوتا۔ آپ جب مجھے حکم دے کر میرا مذاق اڑاتے تب میں دل ہی دل میں آپ کا تمسخر اڑا رہا ہوتا۔

برسوں آپ نہ صرف میرا مذاق اڑاتے اور مجھے طعنے دیتے رہے بلکہ سب کے سامنے میری توہین و تحقیر بھی کرتے رہے اور میں یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتا رہا اور آپ کے بے جا جبر کو سہتا رہا۔ یہ علیحدہ بات کہ میری والدہ مجھ سے پیار کرتی رہیں اور مجھے آپ کے جبر سے بچاتی رہیں۔

ماضی کے ان سب واقعات کے باوجود آپ حیران ہوتے ہیں کہ میں آپ سے بات کیوں نہیں کرتا اور آپ سے خوفزدہ کیوں رہتا ہوں اور میں سوچتا ہوں کہ اب تک آپ کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ چونکہ میں آپ سے خوفزدہ ہوں اس لیے آپ کے سامنے خاموش رہتا ہوں۔

آپ میری تخلیقات کو پسند نہیں کرتے۔ آپ میری بطور لکھاری عزت نہیں کرتے۔ آپ میری کہانیاں نہیں پڑھتے۔ برسوں پیشتر جب میں نے پہلی دفعہ آپ کو اپنی کہانی دی تو آپ نے تاش کھیلتے ہوئے کہا۔

اسے میز پر رکھ دو۔

میں جانتا ہوں کہ آپ نے میری کوئی کہانی نہیں پڑھی۔ پہلے تو میں دکھی ہوا لیکن پھر میں یہ سوچ کر سکھی ہوا کہ آپ انہیں کبھی نہیں پڑھیں گے۔

اسی لیے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی کہانیوں میں آپ سے چھپ سکتا ہوں۔ اب میرا لکھاری ہونا بھی میری جذباتی و تخلیقی آزادی کا آئینہ دار بن گیا ہے۔

اب میں شعوری اور ارادی طور پر آپ سے ایک جذباتی فاصلہ رکھتا ہوں تا کہ اپنی جذباتی حفاظت کر سکوں اور آپ کی شخصیت کی شدت اور جارحیت سے بچ سکوں۔

میں یہ خط تو لکھ رہا ہوں لیکن میں یہ خط آپ کو کبھی بھی پڑھنے کے لیے نہیں دوں گا کیونکہ آپ میرے سچ کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اپنی شکایتوں میں اور اضافہ کریں گے۔

میں کوشش کے باوجود دل کی سب باتیں نہیں لکھ سکتا اس لیے اپنے خط کو یہیں ختم کرتا ہوں
فرانز
۔ ۔ ۔
نوٹ: فرانز کافکا کے اپنے والد کے نام خط کے چند اقتباسات کی تلخیص و ترجمہ۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 668 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail