آرگیزم گیپ کیا ہے اور خواتین میں ہیجانِ شہوت کی شرح کم کیوں ہے؟

لاری منٹز - دی کنورسیشن کے لیے


سیکس ایجوکیشن
تصور کریں کہ کسی ٹی وی شو یا فلم میں مرد اور خاتون کے درمیان شہوت انگیز سین چل رہا ہے۔ ان دونوں کے ہیجانِ شہوت (آرگیزم) کا امکان ہے لیکن یہ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔

اسے ’آرگیزم گیپ‘ (orgasm gap) کہا جاتا ہے، یعنی خواتین میں مردوں کے مقابلے آرگیزم کی شرح کم ہوتی ہے جسے 20 سال سے زیادہ عرصے کے دوران سائنسی ادب میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔

50 ہزار سے زائد افراد پر کی گئی ایک تحقیق میں 95 فیصد مردوں نے کہا کہ وہ سیکس کے دوران عموماً یا ہمیشہ ہیجانِ شہوت کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ صرف 65 فیصد خواتین نے اپنے تجربات میں اس سے اتفاق کیا۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فرق اس لیے ہے کیونکہ خواتین کا آرگیزم حیاتیاتی طور پر پیچیدہ ہوتا ہے تاہم اگر یہ سچ ہوتا تو آرگیزم کی شرح کا تعلق خواتین کو درپیش حالات سے نہ ہوتا۔

بہت سے مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر خواتین پارٹنر کے ساتھ ہونے کے بجائے تنہائی میں اس کیفیت تک پہنچتی ہیں۔ کم از کم 92 فیصد خواتین کو اس وقت آرگیزم ہوتا ہے جب وہ خود لذتی کرتی ہیں۔

خواتین میں ہیجانِ شہوت کا رجحان اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ جذبات سے عاری سیکس کی بجائے اپنے رومانوی پارٹنر کے ساتھ سیکس کرتی ہیں۔

12 ہزار سے زیادہ طالب علموں کے مطالعے میں صرف 10 فیصد خواتین نے کہا کہ انھیں پہلی ملاقات کے دوران ہیجانِ شہوت کا احساس ہوا جبکہ 68 فیصد نے کہا کہ ایسا صرف رومانوی تعلق میں سیکس کے دوران ہوا۔

جب خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتی ہیں تب بھی ان میں ہیجانِ شہوت کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ایک تحقیق میں 64 فیصد بائیسیکشول خواتین (مردوں اور خواتین دونوں کی جانب جنسی کشش رکھنے والی خواتین) نے کہا کہ جب وہ خواتین کے ساتھ سیکس کرتی ہیں تو انھیں عام طور پر یا ہمیشہ ہی آرگیزم ہوتا ہے۔

سیکس ایجوکیشن

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

خواتین کے آرگیزم میں کلائیٹورل سٹیمولیشن کا بڑا کردار ہوتا ہے، یعنی اکثر خواتین میں ہیجانِ شہوت کی کیفیت کا تعلق جنسی اعضا کے ایک حساس حصے کلائیٹورس سے ہوتا ہے۔

عضو تناسل اور کلائیٹورس دونوں ایک ہی طرح کے ایستادگی کے احساس والے ٹشو سے بنے ہوتے ہیں اور دونوں میں اعصابی حس کے سرے ہوتے ہیں۔

میں نے اپنے کام کے دوران ہزاروں خواتین سے پوچھا کہ ’آرگیزم کے لیے آپ کا سب سے قابل اعتماد راستہ کون سا ہے؟‘ صرف چار فیصد خواتین نے دخول کا ذکر کیا جبکہ دیگر 96 فیصد خواتین نے صرف کلائیٹورل سٹیمولیشن یا پھر اس کے ساتھ دخول کا جواب دیا۔

آرگیزم گیپ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو وہ کلائیٹورل سٹیمولیشن نہیں ملتا، جس کی انھیں آرگیزم کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔

درحقیقت لاتعداد فلمیں، ٹی وی شوز، کتابیں اور ڈرامے ایسی خواتین کی تصویر کشی کرتے ہیں جنھیں صرف انٹرکورس سے ہی آرگیزم ہوتا ہے۔

مردوں کے مشہور رسالے بھی خواتین کے آرگیزم کے لیے جنسی پوزیشنز کے بارے میں مشورے دیتے ہیں۔ اگرچہ ان میں کلائیٹورل سٹیمولیشن کا بھی کہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ انٹرکورس مرکزی اور سب سے اہم جنسی عمل ہے۔

ہم لفظ ’سیکس‘ اور ’انٹرکورس‘ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے وہ ایک ہی چیز ہوں۔ ہم انٹرکورس سے پہلے آنے والے کلائیٹورل سٹیمولیشن کو مسترد کر دیتے ہیں اور اسے سیکس کا کم اہم مرحلہ سمجھتے ہیں، جو کہ درست نہیں۔

متعدد مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کے پیغامات یہ تجویز دیتے ہیں کہ سیکس کو مندرجہ ذیل طریقہ سے آگے بڑھانا چاہیے: فور پلے (عورت کو انٹرکورس کے لیے تیار کرنا)، انٹرکورس، مردانہ ہیجانِ شہوت اور پھر سیکس ختم۔

سیکس ایجوکیشن

مگر یہ ضروری ہے کہ مرد خواتین کے آرگیزم کی راہ ہموار کریں۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں اور تحقیق سے بھی پتا چلتا ہے کہ جب کسی عورت کو انٹرکورس کے دوران ہیجانِ شہوت ہوتا ہے تو مرد خود کو زیادہ مردانہ محسوس کرتے ہیں۔

اور یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں کہ خواتین اپنے پارٹنر کی انا کی تسکین کے لیے انٹرکورس کے دوران ہیجانِ شہوت کا بہانہ بھی کرتی ہیں۔

مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ 53 سے 85 فیصد کے درمیان خواتین نے اپنے ہیجانِ شہوت کے جعلی ہونے کا اعتراف کیا۔

کچھ تحقیقات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر خواتین نے اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جعلی آرگیزم ظاہر کیا۔

’آرگیزم گیپ‘ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

اگرچہ ثقافتی عوامل بھی آرگیزم گیپ کے ذمہ دار ہیں تاہم خواتین کے جنسی تجربات کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سیکس اور انٹرکورس کو دیکھنے کے اپنے طریقہ کار کو تبدیل کریں۔

لوگوں کو اس حقیقت کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے کہ خواتین میں ہیجانِ شہوت کے لیے محدود حیاتیاتی صلاحیت نہیں۔ اسی طرح مردوں اور عورتوں کو کلائیٹورل سٹیمولیشن سے متعلق تعلیم بھی گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

پھر بھی صرف اس طرح کا علم ذاتی سطح پر آرگیزم گیپ کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

سیکس تھراپی کی نصابی کتاب کے ایک باب کے مطابق خواتین کو اس علم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مہارت کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو میسٹربیشن (خود لذتی) کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ وہ جنسی طور پر اپنے لیے کیا چاہتی ہیں اور اس کے ساتھ کمیونیکیشن کی تربیت بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ ان معلومات کو اپنے پارٹنر کے ساتھ شیئر کر سکیں۔

خواتین کو بھی خوشی اور بااختیار محسوس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اکیلے بھی اس قسم کی جنسی لذت حاصل کر سکیں جو وہ اپنے پارٹنر سے چاہتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہیٹروسیکشول جوڑوں (مخالف جنس میں دلچسپی رکھنے والوں) کو پرانے سکرپٹ کو ختم کرنا ہو گا، جو فور پلے سے شروع ہو کر انٹرکورس پر ختم ہوتا ہے۔

اس کی بجائے وہ مختلف طریقوں سے باری باری ہیجان شہوت کی کیفیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین انٹرکورس کے دوران اپنے ہاتھوں سے یا وائبریٹر سے خود کو چھو سکتی ہیں۔

تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جو خواتین وائبریٹر استعمال کرتی ہیں ان میں ہیجانِ شہوت کی شرح زیادہ رہتی ہے اور چونکہ بہت سی خواتین کو اس بات کی فکر ہوتی کہ وہ جنسی تعلقات کے دوران کیسی نظر آتی ہیں یا وہ اپنے ساتھی کو خوش کر رہی ہیں یا نہیں، تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس بارے میں ذہن سازی بھی مدد کر سکتی ہے۔

سیکس ایجوکیشن

لیکن آرگیزم گیپ میں کمی کے فوائد صرف معیاری جنسی تعلقات تک محدود نہیں۔ کئی خواتین نے مجھے بتایا کہ ایک بار جب انھوں نے بیڈ روم میں بااختیار محسوس کیا تو وہ اپنی باقی زندگی میں بھی زیادہ پُراعتماد بن گئیں۔

ایک تحقیق کے مطابق خواتین جب خود کو لذت کی حقدار محسوس کرتی ہیں تو ان میں اپنے پارٹنر کو یہ بتانے کی صلاحیت بڑھتی ہے کہ وہ جنسی طور پر کیا چاہتی ہیں۔

تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ جنسی لذت کے حقدار ہونے کے احساس سے خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنسی عمل سے انکار بھی کر سکتی ہیں اور جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن اور حمل سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر لینے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہیں۔

امریکہ میں صحت کے دو محققین کے سیکس ایجوکیشن اور جنسی لذت پر ایک مضمون کے مطابق جب نوجوان یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سیکس کو خوشگوار ہونا چاہیے تو وہ اسے نقصان دہ طریقوں سے استعمال نہیں کرتے۔

لہذا یہ بتانا کہ سیکس سے دونوں فریقین جنسی تسکین حاصل کر سکتے ہیں اور یوں جنسی تشدد کی سطح کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

اور خواتین کو جنسی لذت کے بارے میں سیکھا کر ہیجانِ شہوت کی شرح میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

– لاری منٹز یونیورسٹی آف فلوریڈا میں سائیکالوجی کی ایمیرٹس پروفیسر ہیں۔ یہ تحریر اس سے قبل دی کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 30508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments