لوسی لیٹبی: ایک سال میں سات نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی ’سیریل کلر نرس‘ کون ہے؟

لارن ہرسٹ، جوڈتھ مورٹز، جوناتھن کافی، مائیکل بکینن - بی بی سی نیوز


برطانیہ کی ایک نرس لوسی لیٹبی کو بچوں کی ’سیریل کلر‘ قرار دیتے ہوئے سات نومولود بچوں کے قتل اور چھ بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔

مانچسٹر کی عدالت میں بتایا گیا کہ لوسی نے جون 2015 سے جون 2016 کے درمیان 17 بچوں کو نشانہ بنایا۔

لوسی پر 22 الزامات تھے جن میں سات نومولود بچوں کے قتل کا الزام بھی شامل تھا۔

لوسی کا پہلا نشانہ ایک ایسا بچہ تھا جو جون 2015 میں پیدا ہو کر مر گیا تھا۔ اس کی پیدائش قبل از وقت آپریشن کے ذریعے 31 ہفتوں کی عمر میں ہوئی تھی اور اسے ہسپتال میں نومولود بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔

یہ بچہ پیدائش کے بعد آٹھ جون کو مصنوعی آکسیجن کے بغیر سانس لے رہا تھا جب لوسی نے ایک دوسری نرس کی جگہ لینے کے ایک گھنٹے بعد ڈاکٹروں کو بلایا کہ بچے کی طعبیعت خراب ہو رہی ہے۔

تمام تر کوششوں کے باوجود بچہ جانبر نہیں ہو سکا۔ عدالت میں جیوری کے مطابق اس بچے کی خون کی شریانوں میں جان بوجھ کر ہوا کا انجیکشن لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔

بی بی سی کو نومولود بچوں کے یونٹ میں کام کرنے والے ایک ماہر ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے لوسی کے خلاف الزامات پر تفتیش نہیں کی اور ڈاکٹروں کو خاموش کروانے کی کوشش کی۔

بی بی سی کی تفتیش کے مطابق ہسپتال نے لوسی کے خلاف الزامات سامنے آنے کے بعد بھی کئی ماہ تک پولیس کو مطلع نہیں کیا جبکہ انتہائی نگہداشت کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن بریری نے اکتوبر 2015 میں ہی ان کو لوسی کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔

اس کے باوجود لوسی کو کام کرنے دیا گیا اور اس دوران لوسی نے پانچ مذید بچوں کا قتل کیا۔

بی بی سی پینوراما اور بی بی سی نیوز نے اس معاملے پر تحقیق کی کہ لوسی کیسے بچوں کو قتل کرتی رہیں۔ ہم نے انتہائی نگہداشت یونٹ کے سربراہ سے بات کی جنھوں نے سب سے پہلے لوسی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

ڈاکٹر بریری نے بتایا کہ انھوں نے جون 2016 میں آخری دو بچوں کی ہلاکت کے بعد مطالبہ کیا کہ لوسی کو کام سے ہٹایا جائے تاہم ہسپتال کی انتظامیہ نے شروع میں انکار کیا۔

بی بی سی کی تفتیش میں یہ بھی علم ہوا کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک موقع پر ڈاکٹروں کو کہا کہ وہ لوسی سے معافی مانگیں اور اس کے خلاف الزامات عائد کرنا بند کر دیں۔

بی بی سی کو علم ہوا کہ جب لوسی کو انتہائی نگہداشت وارڈ سے منتقل کر دیا گیا تب بھی ان کو وارڈ کی حساس دستاویزات تک رسائی حاصل تھی اور وہ سینیئر مینیجرز کے قریب تھیں جن کا کام ان کی تفتیش کرنا تھا۔

ڈاکٹر سٹیفن بریری

ڈاکٹر سٹیفن بریری نے اکتوبر 2015 میں لوسی کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔

جولائی 2018 کی ایک صبح لوسی لیٹبی کو ان کے گھر سے پہلی بار گرفتار کیا گیا اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لے جایا گیا۔

اس وقت وہ 28 سال کی تھیں اور پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں جن کی ذمہ داری پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھا۔

ان سے ایسے مبینہ جرائم کے بارے میں سوالات ہونے تھے جن کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا۔ اگر ان کو سزا ہوتی تو وہ دور جدید میں برطانیہ میں کم عمر بچوں کی سیریل کلر یعنی قاتل ثابت ہو جاتیں۔

ان کی گرفتاری سے قبل برطانیہ میں چیشائر پولیس نے دو سال تک تفتیش کی جس میں 70 سے زیادہ افسران اور سول حکام نے حصہ لیا۔

آپریشن ’ہمنگ برڈ‘ نامی اس خفیہ تفتیش کا مقصد برطانیہ کے کاؤنٹس آف چیسٹر ہسپتال میں نومولود بچوں کی ناقابل فہم ہلاکتوں کا سراغ لگانا تھا۔

گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں کے اندر لوسی لیٹبی دنیا بھر میں اخباروں کی شہ سرخیوں میں موجود تھیں۔

لوسی کی پہلی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان کو ضمانت پر رہا کر دیا لیکن اس کے بعد انھیں دو بار گرفتار کیا گیا اور پھر آخرکار نومبر 2020 میں ان پر فرد جرم عائد ہوئی۔

گزشتہ سال اکتوبر سے 33 سالہ نرس کے خلاف مقدمہ چلا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے جون 2015 سے جون 2016 تک ایک سال میں سات نومولود بچوں کو ہلاک کیا اور 10 بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔

لوسی نے تمام الزامات کی تردید کی لیکن انھیں سات بچوں کے قتل میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔

نو ماہ کے مقدمے کے بعد، جس کے دوران ہوشربا انکشافات سامنے آئے، سات خواتین اور چار مردوں پر مشتمل جیوری نے 110 گھنٹے تک سوچ بچار کی اور پھر سزا سنائی۔

جیوری نے لوسی پر چھ نومولود بچوں سمیت سات بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کے الزام میں بھی ان کو سزا سنائی۔

لیکن ہم اس خاتون کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس نے ایسے نومولود بچوں کو قتل کیا جن کا خیال رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔

لوسی لیٹبی چار جون 1990 کو پیدا ہوئیں اور ہیئر فورڈ میں پلی بڑھیں۔ ان کے والد جون اور والدہ سوزن مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کی گیلری میں موجود رہے۔

لوسی نے مقامی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جیوری کو بتایا کہ ’میں ہمیشہ سے بچوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی۔‘

لوسی اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والی پہلی فرد تھیں۔ انھوں نے چیسٹر یونیورسٹی میں تین سال نرسنگ کی تعلیم حاصل کی۔

پڑھائی کے دوران بھی انھوں نے کاؤنٹس آف چیسٹر ہسپتال کے نومولود بچوں کے وارڈ میں کام کیا۔

ستمبر 2011 میں پڑھائی مکمل ہونے کے بعد انھوں نے جنوری 2012 میں اسی ہسپتال میں نوکری حاصل کر لی۔

2015 میں انھیں نومولود بچوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت مل گئی۔

لوسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا زیادہ تر وقت بیمار بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا۔

لوسی لیٹبی

لوسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا زیادہ تر وقت بیمار بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا۔

انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس دوران انھوں نے پانچ سے چھ نرسنگ طلبا کی تربیت کی اور 2015 سے 2016 کے درمیان سینکڑوں نومولود بچوں کا خیال رکھا۔

تاہم ستمبر 2016 میں لوسی کو رائل کالج آف نرسنگ کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ وہ بچوں کی اموات کے معاملے پر زیرتفتیش ہیں۔

اس سال کے آغاز میں ان کو نومولود بچوں کی نگہداشت سے ہٹا دیا گیا تھا اور ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ان کو ایک اور کام سونپ دیا گیا تھا جس میں مریضوں سے ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔

اس وقت لوسی کو لگا کہ ان کو یہ کام اس لیے سونپا گیا ہے کہ وہ یہ جانچ کر سکیں کہ ہسپتال کا عملہ اپنا کام بہتر طریقے سے کرنے کا اہل ہے یا نہیں اور انھیں امید تھی کہ وہ واپس اسی کام پر جا سکیں گی جس سے ان کو محبت تھی۔

چھ سال بعد لوسی ایک شیشے کی سکرین کے پیچھے عدالت میں استغاثہ کے الزامات سن رہی تھیں جن میں عدالت کو بتایا گیا کہ لوسی ایک ’موقع پرست‘ تھیں جنھوں نے اپنے ’قاتلانہ حملے چھپانے کے لیے‘ اپنے ’ساتھیوں کی نفسیات سے کھیل رچایا۔‘

اس سے پہلے لوسی کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔

ان کی دفاعی ٹیم نے عدالت میں موقف اپنایا کہ بچوں کی اموات ’ہسپتال میں موجود یونٹ کی ناکامیوں کی وجہ سے ہوئی اور وہ ایک ایسے نظام کا شکار ہوئی ہیں جو اپنی ناکامی کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنا چاہتا تھا۔‘

مقدمے کے دوران جیوری کو لوسی کی زندگی کے بارے میں بھی بتایا گیا اور ان کی نجی واٹس ایپ چیٹ اور سوشل میڈیا پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔

لوسی نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’باقاعدگی سے سالسا کلاس لیتی تھیں، دوستوں کے ساتھ باہر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ چھٹیاں مناتی تھیں، جم جاتی تھیں۔‘

جب ان کی گھر سے گرفتاری کی تصاویر عدالت میں دکھائی گئیں تو وہ رو پڑیں۔

لوسی ہسپتال کے سٹاف کے لیے مختص ایش ہاؤس میں رہائش پذیر رہنے کے بعد چھ ماہ تک چیسٹر میں ہی ایک فلیٹ میں منتقل ہو گئی تھیں۔

تاہم جون 2015 میں میں وہ ایش ہاؤس واپس آ گئیں لیکن اپریل 2016 میں انھوں نے ویسٹ بورن روڈ پر ایک گھر خرید لیا اور وہاں منتقل ہو گئیں۔

ان کے بستر پر ’ونی دی پو‘ اور دیگر کھلونے موجود تھے جبکہ گھر کی ایک دراز میں مختلف دستاویزات اور ان کی دو بلیوں، ’ٹگر اور سمج‘، کے طبی نوٹ موجود تھے۔

لوسی نومبر 2020 سے حراست میں ہیں اور انھوں نے چار مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے۔

ان کا مقدمہ دنیا بھر میں مشہور ہوا ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے بات ناقابل فہم ہے کہ نومولود بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی نرس کیسے اتنے بہیمانہ جرائم کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32612 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments