شیراز راج کی شاعری میں ہجرت، محبت اور معرفت کے راز
نوٹ۔ یہ مضمون شیراز راج کی کتاب ”عرش کی مٹی“ کی تقریب رونمائی کے موقع پر فیمیلی آف دی ہارٹ کینیڈا کے 20 اگست 2023 کے پروگرام میں پڑھا گیا۔
میری شیراز راج سے کینیڈا میں پہلی بار ملاقات ہوئی تو مجھے ان کے مزاج کی شگفتگی اور شخصیت کی شائستگی نے بہت متاثر کیا۔ ان کی پرسنیلٹی میں ٹھہراؤ تھا ’بردباری تھی اور سب سے بڑھ کر منکسرالمزاجی تھی۔ وہ اردو کے ان ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں سے بہت مختلف تھے جنہیں ہمارے دوست رفیق سلطان “میں علیہ السلام” کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی عاجزی و انکساری دیکھ کر محسوس ہوا کہ ان سے دوستی ہو سکتی ہے کیونکہ درخت کی پھلدار شاخ جھکی ہوتی ہے۔
میں نے جب ان کی شاعری سنی اور بے تکلفی بڑھی تو میں نے پوچھا کہ آپ اپنا مجموعہ کلام کب چھپوا رہے ہیں؟ فرمانے لگے
’میں اور میری شاعری ابھی چھپنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘
ان کا یہ جواب سن کر میں سوچنے لگا کہ کیا دیوان چھپوانے کا بھی کوئی خاص موسم ہوتا ہے۔ خاص وقت ہوتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ اردو شاعری کی بدقسمتی یہ ہے کہ جن شاعروں کو اپنا دیوان چھپوا لینا چاہیے تھا وہ تو بے نیاز ہیں اور جو چھپوا چکے ہیں انہیں ابھی انتظار کرنا چاہیے تھا۔
مجھے خدشہ تھا کہ کہیں شیراز راج بھی کینیڈا کے دو مقبول شاعروں امیر حسین جعفری اور رشید ندیم کی طرح دیوان چھپوانے سے بالکل بے نیاز نہ ہو جائیں اور ان کے دوست اور مداح ان کی شاعری کے سنجیدہ مطالعے سے محروم رہ جائیں لیکن جب امیر حسین جعفری نے مجھ سے میرا پتہ مانگا تا کہ شیراز راج بذریعہ ڈاک مجھے اپنا دیوان بھیج سکیں تو مجھے بے انتہا مسرت ہوئی۔ آخر انتظار بسیار کے بعد مجھے “عرش کی مٹی” کا تحفہ مل گیا اور میں سوچنے لگا کہ مجھ جیسا پاپی اور یہ قیمتی تحفہ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔
جو لوگ شیراز راج کی زندگی کے نشیب و فراز سے امتحانوں اور آزمائشوں سے ناواقف ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے اور ہجرت کر کے یورپ میں جا بسے۔ انہوں نے نوجوانی میں کچھ خواب دیکھے اور پھر گھر سے ان خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈنے نکل پڑے۔ شیراز راج کا سفر دھرتی ماں کی مٹی سے عرش کی مٹی تک کا سفر ہے۔ وہ اپنی دھرتی ماں کی مٹی ’جس کی کوکھ سے ان کے خوابوں نے جنم لیا‘ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں
’ میں نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں شاعری اور موسیقی اوڑھنا بچھونا تھیں۔ یہ کوئی علمی گھرانا نہیں بلکہ رچا ہوا، سادہ سا، ایک غریب گھرانا تھا جہاں کن رس ہونا، سریلا ہونا اور باذوق ہونا باعث افتخار تھا۔ میں نے ایک ایسے شہر میں پرورش پائی جو باغوں اور پھولوں کا شہر تھا۔ جہاں آسمان سچا نیلا اور زمین ہری بھری تھی۔ پیڑ گھنے اور بہت سے تھے۔ سڑکیں کم تھیں اور بہت جلد کہیں ایک دوجے سے مل جاتی تھیں۔ لوگ وضع دار تھے، مہذب تھے اور صابر تھے۔ ایک ایسا شہر جسے اپنے فنکاروں پر مان تھا۔
میں نے ایک ایسے ملک میں آنکھ کھولی جو خواب دیکھ رہا تھا۔ ایک ایسا ملک جو ٹوٹ رہا تھا اور بن رہا تھا۔
یہ کتاب ایسے ہی کچھ خوابوں کی زنبیل ہے ’
میں نے شیراز راج کے خوابوں کی زنبیل کھولی اور ان کی شاعری پڑھی تو مجھے ان کی غزلوں اور نظموں میں ہجرت، محبت اور معرفت کے کچھ راز اور تحفے ملے۔ شیراز راج کے ٹوٹنے اور بننے کے عکس ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔
جب کسی شاعر پر اپنے ہی دیس میں دائرہ حیات تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو وہ ایک عجیب و غریب شکست و ریخت کے عمل سے گزرتا ہے۔ اس عمل میں وہ بکھرتا بھی ہے اور سنورتا بھی ہے۔ وہ اپنی دھرتی ماں سے جغرافیائی طور پر بہت دور بھی ہوتا ہے اور جذباتی حوالے سے بہت قریب بھی ہو جاتا ہے۔
شیراز راج اپنا گھر اپنا شہر اپنا ملک اور اپنی دھرتی ماں سے جدائی کے لمحے کے بارے میں لکھتے ہیں
طوفاں بھی، تیرگی بھی، ہوا بھی، چٹان بھی
مجھ سے لپٹ گیا تھا مرا بادبان بھی
وقت سفر زمین مجھے روکتی رہی
پیروں پہ گر پڑا تھا مرے آسمان بھی
میں نے کئی سال پیشتر ہجرت کے خوابوں اور عذابوں اور مہاجروں کی دشواریوں اور آزمائشوں کے بارے میں لکھا تھا
“ایک گھر کو چھوڑ کر دوسرا گھر بنانے والوں پر جو بیتتی ہے وہ ان کے دل ہی جانتے ہیں۔ جب انسان ایک ماحول میں پلا بڑھا ہو اور دوسرے معاشرے میں جا بسے تو اکثر اوقات اپنی ذات کو دو کشتیوں میں سوار محسوس کرتا ہے۔ جب بچپن کی سوچ، انداز فکر اور روایات میزبان تہذیب کے طرز زندگی اور اقدار سے ٹکراتے ہیں تو کتنے لوگ اپنے آپ کو دو راہوں پر کھڑا پاتے ہیں۔”
ہر شخص اور خاندان ان بدلتے حالات سے اپنے مخصوص اور جداگانہ انداز میں سمجھوتا کرتا ہے۔ بعض ماضی کا اتنا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں کہ حال اور مستقبل سے آنکھیں دو چار نہیں کر سکتے۔ بعض نئے ماحول سے اتنی تیزی سے بڑھ کر بغلگیر ہوتے ہیں کہ ماضی کو بہت پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔ بعض دونوں تہذیبوں کے درمیان بے یقینی کے خلا میں معلق ہو جاتے ہیں اور بعض مختلف روایات کے ساتوں رنگ اپنے اندر اس خوبصورتی سے جذب کرتے ہیں کہ ایک نئی روشنی، نئی صبح اور نئی منزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔”
شیراز راج نے جب ہجرت کے دشت میں قدم رکھا تو پہلے تو وہ کھو گئے اپنے آپ سے ٹوٹ کر بکھر گئے۔ فرماتے ہیں
شاخ زرد نے اپنا پتہ توڑ دیا ہے
پتے نے تالاب کا سکتہ توڑ دیا ہے
کوئی ملے تو مجھ سے میرا حال نہ پوچھے
میں نے اپنے آپ سے رشتہ توڑ دیا ہے
اس ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں وہ اس دور سے بھی گزرے جب وہ اپنی ذات سے برسرپیکار تھے۔ وہ اپنے سچ کی تلاش میں تھے۔ لکھتے ہیں
اک پیہم پیکار ہے مجھ میں
مجھ سے کوئی بیزار ہے مجھ میں
فقر و غنا کی کذب و ریا کی
دو دھاری تلوار ہے مجھ میں
اپنے سچ کے مد مقابل
یہ کیسا انکار ہے مجھ میں
شیراز راج خوش قسمت ہیں کہ وہ ہجرت کے اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے جب دو تہذیبوں اور دو ثقافتوں کو اپنے اندر جذب کیا تو ان کے اندر کی تیسری آنکھ کھل گئی جس نے ان پر محبت اور معرفت کے راز منکشف کر دیے۔ اس داخلی اور خارجی سفر نے انہیں زندگی کی تاریکیوں اور روشنیوں کو قبول کرنے کی ایک ہمت اور ایک حوصلہ عطا کیا اسی لیے وہ رقم طراز ہیں
بے جہت مسافت ہے، دائرہ بھی میرا ہے
اور اس میں رہنے کا حوصلہ بھی میرا ہے
تیرگی بھی میری ہے، راستہ بھی میرا ہے
مشعلیں بھی میری ہیں، قافلہ بھی میرا ہے
شیراز راج پر جو چاہت کے عشق و محبت کے راز منکشف ہوئے ان کا اظہار ان کی نظم۔ اپنی بیٹی سے۔ میں ہوا ہے
اپنی بیٹی سے
تمہیں جب عشق ہو گا
تب تمہیں معلوم ہو گا
کسی خانہ دل میں
جب یہ چنگاری بھڑکتی ہے
تو کیسے استخواں جلتے ہیں
کیسے دل پگھلتا ہے
رسیلے لب گھنی زلفیں نشیلے عارض رنگیں
چمکتا جگمگاتا آئینہ خانہ چٹختا ہے
تو کیسے کنج ویراں میں بدلتا ہے
تمہیں معلوم ہو گا
کس طرح روشن رگوں میں
سنسناتا دوڑتا تازہ لہو لاوے میں ڈھلتا ہے
نفس شعلہ پکڑتا ہے
وہ شعلہ
جس کی لپٹوں میں شب محشر کی گرمی ہو
تمہیں معلوم ہے؟
تم خود اسی برزخ سے جنمی ہو
تمہیں معلوم ہے؟
تم خود بھی دو نخوت زدہ ’وحشت زدہ‘ چاہت زدہ
روحوں کا نوحہ ہو؟
اسی لاوے اسی شعلے کا ٹکڑا ہو
تمہیں معلوم ہے لیکن
تمہیں جب عشق ہو گا
تب تمہیں معلوم ہو گا
شیراز راج جانتے ہیں کہ سچی محبت ایک خیال اور تصور نہیں بلکہ ایک تجربہ اور واردات ہے جو صرف خاص لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
شیراز راج نے معرفت کے راز اپنی نظم، “وقت سے کچھ باتیں” میں یوں بیان کیے ہیں
تمہیں یاد ہے؟
ایک دن مجھ سے گوتم نے
بے گیان ہونے کا دکھڑا کہا تھا
تو میں کتنا رویا تھا
تم نے کہا تھا سنو!
اپنی آنکھوں کو پونچھو
کہ یہ بے یقینی کا موسم تو جانے کہاں سے چلا ہے
کہاں تک چلے گا
مجھے یاد ہے تم نے گوتم کے پیروں کو چوما تھا
مجھ سے کہا تھا کہ شیراز!
بے گیان ہونے کا ادراک ہی گیان ہے
(اس کے بعد آج تک میں نہیں سو سکا)
شیراز راج کی طرح جو مرد و عورت گیانی ہو جاتے ہیں ان کی اندر کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ عمر بھر کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں
امن کے خواب
آشتی کے خواب
انسان دوستی کے خواب
اور پھر ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اسی لیے انہوں نے اپنے دیوان “عرش کی مٹی” کے دیباچے “دل کی بات” میں لکھا ہے۔ یہ کتاب ایسے ہی کچھ خوابوں کی زنبیل ہے۔
میں شیراز راج کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے خوابوں کی زنبیل کا ادبی تحفہ بھیجا۔ اس تحفے میں ہجرت کے محبت کے اور معرفت کے راز پوشیدہ ہیں۔ تیسری آنکھ سے دیکھے خوابوں اور ان کی تعبیروں کے راز۔ شیراز راج رقم طراز ہیں
میرے ہاتھوں میں میرا چہرہ ہے۔
میرے چہرے پر تین آنکھیں ہیں
تیسری آنکھ میرے ماتھے پر جگمگاتی ہوئی دھڑکتی ہوئی نیلگوں روشنی اگلتی ہوئی۔
نیلگوں روشنی دھندلکا ہے
اس دھندلکے میں کوئی جنگل ہے
گھنے دیودار گھنی جھاڑیاں، گھنے برگد
سرسراتے ہوئے پگھلتے ہوئے
ک عجب شعلگی میں جلتے ہوئے
شیراز راج کے یہ جملے پڑھتے ہوئے مجھے اپنی ایک غزل کے چند اشعار یاد آ گئے
شاخ تنہائی پہ ڈر ڈر کے کھلے ہیں چپ ہیں
ہم کہ حالات کے دھاگے سے بندھے ہیں چپ ہیں
ہم نے شیشے کا مکاں مل کے بنایا لیکن
جب سے جانا ہے کہ پتھر کے بنے ہیں چپ ہیں
زیست کی آگ میں جل جل کے فغاں کرتے رہے
اور اس آگ میں کندن جو بنے ہیں چپ ہیں
شیراز راج کی شاعری زیست کی آگ میں جلنے اور پھر اس آگ میں کندن بننے کی شاعری ہے۔ ایسی شاعری جس میں تیسری آنکھ رکھنے والوں کے لیے ہجرت محبت اور معرفت کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔
- ایک باضمیر امریکی فوجی کی کہانی - 01/12/2023
- کیا آپ جنگ میں دشمن کو قتل کرنے کی بھاری قیمت سے واقف ہیں - 28/11/2023
- فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج - 24/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).