ایمانداری سے زندہ رہنا دشوار ہو رہا ہے


ماں ایک کہانی سناتی تھیں :

اندھیری رات میں ایک ڈاکو پہاڑ کی چوٹی پر گھوڑا لیے کھڑا اپنے بیٹے کو فخریہ بتا رہا تھا کہ وہ دور جنگل میں جو روشنی ہو رہی ہے وہ ایک کسان کا گھر ہے جیسے میں نے پانچ بار لوٹا ہے۔
بیٹے نے کہا ابا پانچ بار لٹنے کے باوجود اُس گھر میں آج بھی اجالا ہے جبکہ اتنے ڈاکے مارنے کے باوجود ہمارے گھر میں آج بھی اندھیرا ہی ہے۔

لیکن اب دور بدل چکا۔ میرا سرکاری فلیٹ دو سو گز پر ہو گا۔ تین کمرے ایک ڈرائنگ روم کچن ٹی وہ لاونج۔ تین بیٹے باہر پوسٹ ہیں۔ گھر میں، میں وائف اور ایک چھوٹا بیٹا ہوتے ہیں۔ وائف اور میں جاب کرتے ہیں بیٹا کالج جاتا ہے تو صبح اٹھ بجے سے دو بجے تک گھر بند رہتا ہے گھر سے نکلتے وقت خاص چیک کیا جاتا ہے کہ کسی واش روم تک کا انرجی سیور جلتا نہ رہ جائے۔ ایک فریج ہے۔ وائف کی جاب کی وجہ سے واشنگ مشین بھی ہفتے میں ایک بار لگتی ہے۔ استری بھی روز نہیں ہوتی۔ پانی سرکاری ٹیوب ویل کا اوپر تک چڑھتا ہے کوئی موٹر نہیں۔ اے سی نہیں۔ زندگی بھر کی کمائی بچوں کی تعلیم پر لگائی اس لیے باقی کچن میں عام جوسر کے علاوہ کوئی ایسی مشین نہیں۔ وائف کو سانس کا مسئلہ ہے ان کے۔ کمرے میں پنکھا چلے تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ میں اور بیٹا ایک روم میں سوتے ہیں ایک پنکھا چلتا ہے۔ غیر ضروری بلب نہیں جلاتے۔ وائف چند گھنٹے ایل ای ڈی پر ڈرامہ وغیرہ دیکھتی ہیں۔ ہمارا بجلی کا بل ساڑھے سات ہزار آیا۔ ایک وقت میں ایک جگہ کی لائٹ جلانے کی وجہ سے باقی گھر میں اندھیرا رہتا ہے۔ ماں نے ایسی کہانیاں سنا سنا کر ہمیں آج اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ کبھی بجلی چوری کا نہیں سوچا۔ چوری کی بجلی میں قرآن و نماز پڑھنا اُس سے کپڑے استری کرنا بالکل ناجائز لگتا ہے۔ ایمانداری کی دی گھٹی اب تکلیف کا باعث بن رہی ہے۔ ماں کی سنائی کہانیاں بھولنا مشکل تو ایمانداری سے زندہ رہنا دشوار ہو رہا ہے۔

ہمارے پڑوسی کا بالکل ایسا ہی گھر ہے۔ لیکن زمین پر۔ تو لان وغیرہ بھی ہے۔ پانی کی موٹر چلتی ہے۔ بچے شادی شدہ ہیں۔ صحن میں بھی ایک کمرہ اور کچن بنا رکھا ہے۔ ہر کمرے میں فریج کچن میں ڈیپ فریز ہے۔ ٹی وی ہیں۔ چار بیٹے سروس کرتے ہیں۔ گھر میں دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔ دو بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں ان کے سسرال میں پانی کا مسئلہ ہے تو وہ بھی کپڑے یہیں آ کر دھوتی ہیں۔ والد والدہ بیمار رہتے ہیں تو ان کے کمرے میں ونڈو اے سی لگا رکھا ہے۔ دو الگ الگ ٹرانسفارمرز سے بجلی لے رکھی ہے۔ ایک پر میٹر ہے دوسرا ویسے ہی۔ بل چونکہ سب کے ایک جگہ رکھے جاتے ہیں تو ان کا بل کبھی سات سو سے زیادہ آتے نہیں دیکھا۔ کبھی ان کے گھر اندھیرا نہیں ہوتا کیونکہ ایک طرف کی بجلی جائے تو دوسرے طرف کی آ رہی ہوتی ہے۔

کاش ماں تو آج زندہ ہوتی تو دیکھتی کہ ڈاکو کے گھر اجالا ہے اور ایماندار کے گھر اندھیرا۔ ماں تیری کہانی جھوٹی تھی۔ اس نے تیرے بچوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments