الجھن (افسانہ)
انٹرنیشنل گرامر اسکول میں او لیول کی طالبہ علیزے نے یوں تو ’ٹو نیشن تھیوری‘ کے نام سے ایک نظریے کے بارے میں سرسری سا پڑھ رکھا تھا مگر آج جس سلیس زبان سے میم صائمہ بتول نے ہسٹری کی کلاس میں اس کی وضاحت کی۔ یہ نظریہ اس کی سمجھ میں کافی حد تک آ گیا تھا۔ ٹیچر نے بتایا تھا کہ :
” نو دہائی قبل جنم لینے والا دو قومی نظریہ مذہبی قومیت کے اصول پر بنایا گیا تھا۔ جس کو سب سے پہلے حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے 1930 ء میں پیش کیا۔ اس کے مطابق ہندوستانی ہندؤ اور ہندوستانی مسلمان واضح طور پر دو الگ اقوام ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اپنی مخصوص ثقافت اور مذہبی تفاوت کی بنیاد پر اپنی الگ الگ پہچان رکھتی ہیں۔ دونوں قومیں زندگی گزارنے کے الگ الگ اطوار، رسوم اور رواج رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ ایک ملک میں رہتے ہوئے جب اپنی اپنی ثقافت اجاگر کریں گے تو یہ امن اور بقائے باہمی کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔
1947 ء میں ہندوستان کے تقسیم ہونے کی بنیادی وجہ بھی دو قومی نظریہ ہی بنا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس نظریے کی حمایت کی اور یہی نظریہ آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ تحریک پاکستان کا بنیادی مطالبہ بھی یہی تھا کہ ہندو اکثریتی علاقے سے باہر ایک الگ ملک ہونا چاہیے جہاں پر ہندوستان کے مسلمان دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ 1940 ء کی دہائی میں اکثر ہندؤوں نے اور کچھ مسلمانوں نے اس نظریے کی مخالفت کی تھی مگر مسلم لیگ نے انتخابات میں اس نظریے کی بنیاد پر اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی۔ ہندوستانی سیاسی قیادت نے دو قومی نظریے کی مخالفت کی اور ہندوستان کو سیکولر (غیر مذہبی) رکھنے کا اعلان کیا جس کے اندر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے باشندے ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے باہم یکجا رہ سکتے تھے۔ اس موقف کی بنیاد پر ہندوستانی آئین مذہبی تکثیریت کے ساتھ قومیت کا پرچار کرتا ہے۔ “
یہاں پہنچنے تک علیزے کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہو چکے تھے کہ جو مسلمان تقسیم کے زمانے میں ہندوستان رہ گئے تھے ان کی قوم کون سی ہے؟ اور یہ کہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا تعلق کس قوم سے ہے؟ اس پر میم صائمہ بتول نے یہ جواب دیا کہ اگرچہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی قوم مسلمان ہی ہے مگر ہندوستان نے ان کو زبر دستی ہندوستانی بنا رکھا ہے۔ وہ آج بھی غلام ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ بھی ہندوستان کے اندر ایک اور مسلمان ملک کا مطالبہ کریں یا پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آزاد ملک پاکستان میں ہجرت کر جائیں۔
جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق یہ ملک بھی 1971 ءسے قبل مشرقی پاکستان ہی تھا مگر ہندوستان کی سازش اور مداخلت سے بنگلہ دیش بن گیا۔ علیزے مطمئن تو نہ ہوئی مگر مزید بحث نہ کی کیونکہ اس کے تصور میں آج شام کو منعقد ہونے والی تقریب کے دلفریب مناظر گھوم رہے تھے۔
علیزے بہت خوش تھی کیونکہ آج شام کو اس کی بڑی بہن کی رسم حنا تھی۔ بہن کا رشتہ ایک امیر کبیر خانوادے میں طے پایا تھا۔ دانیال ناصر پنجاب اسمبلی کے ممبر جمال ناصر کے واحد چشم و چراغ تھے جو حال ہی میں انگلستان سے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کر کے لوٹے تھے۔ علیزے کا خاندان بھی ان کا ہم پلہ تھا۔ علیزے کے والد سردار قربان علی خان تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن سردار مہربان علی خان کے پوتے اور پاکستان میں درآمدات و برآمدات کی اہم کاروباری شخصیت تھے۔ سردار خاندان کے بحریہ ٹاؤن لاہور اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں دو محل نما مکانات کے علاوہ شہر کے مضافات میں دس ایکڑ کا ایک فارم ہاؤس ہے جو نہایت نجی محافل اور ”خاص پارٹیوں“ کے لیے مخصوص ہے۔
شادی کی تقریب میں ملکی اور غیر ملکی سیاسی اور کاروباری شخصیات کی اچھی خاصی تعداد مدعو تھی۔ جن میں وزیر اعلیٰ، ، گورنر، اعلٰی عدلیہ کے ججز، جرنیل اور سول افسر شاہی کے علاوہ بھنڈارا فیملی کے سہراب بھنڈارا، سہگل فیملی کے مردان سہگل حبیب فیملی کے محبوب علی خان، سرحد پار سے مشہور کاروباری شخصیات جن میں شو کمار شرما، اندر پال گجرال، جیون سنگھ مہتا اور ڈھاکہ سے قاضی صدرالدین جیسی شخصیات اپنے اہل و عیال سمیت شرکت کر رہی تھیں۔ اس تناظر میں ناؤ نوش اور طعام میں پارسی، عیسائی، ہندو سکھ اور مسلمانوں کی ترجیحات کو مد نظر رکھا گیا تھا۔
بہن کی شادی کو چار چاند لگانے کے لیے پارٹی ڈانس اور موسیقی کی مختلف دھنوں پر جڑواں رقص کی ریہرسل گزشتہ دس روز سے جاری تھی۔ رقاص جوڑوں میں شہر یار اور اس کی گرل فرینڈ علیشاہ، علیزے اور اس کا ہم جماعت کاشف، علیزہ کی سہیلیاں اپنی اپنی پسند کا لڑکا لے کر آئی تھیں۔ غرض کہ مختلف دوستوں نے رقص کے لیے اپنے اپنے جوڑے بنا کر متعدد بار اس پنجابی، اردو اور انگریزی دھنوں پر ریاض کر رکھا تھا۔ علیزے کی ہم جماعت لڑکیوں اور ان کے ہم جماعت لڑکوں نے ساتھ مل کر پنجابی، اردو اور انگریزی پاپ میوزک پر بہت محنت سے آئٹم تیار کیے تھے۔ اپنی ثقافت کے مطابق مہندی، مایوں، بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ ملبوسات ڈیزائنرز سے سلوائے گئے تھے۔
جمعرات کو رسم حنا جمعے کو دعا، ہفتے کو بارات اور اتوار کو ولیمہ رکھا گیا تھا۔ سردار قربان علی نے اپنی صاحب زادی کی رسم حنا کے لیے عام شادیوں سے بڑھ کر انتظام کر رکھا تھا۔ انھوں نے حکومت کی شادی ہال رات دس بجے بند کردینے والی پابندی کے احترام میں رسم حنا کا اہتمام شہر سے باہر اپنے وسیع و عریض فارم ہاؤس میں کر رکھا تھا۔ نامور کاروباری اور سیاسی شخصیات کو ملا کر خواتین و حضرات کی تعداد پانچ سو سے اوپر تھی۔ مہمانان گرامی کی تواضع کے لیے درآمد شدہ مے ناب کے، چھوٹے بڑے گوشت کی انواع و اقسام کی ڈشوں کے علاوہ بلوچی سجی اور سندھی بریانی تیار کرائی گئی تھی۔ سبزی، دال، بار بی کیو، مچھلی اور طرح طرح کے میٹھے سمیت طعام کی تعداد دو درجن رہی ہوگی۔
مہمانوں کا استقبال پنجابی ڈھول کی تھاپ پر ڈانسنگ گرلز کے رقص سے کیا گیا۔ جو مہمانوں کی آمد پر پھول نچھاور کر رہی تھیں۔ مے نوشی اور طعام کے بعد پنڈال رقص و سرود کی محفل سے سج گیا۔ لڑکے اور لڑکیوں کے مشترکہ گروہ نے مشہور پنجابی گانے ”نچ پنجابن نچ، نچ پنجابن نچ، نچ پنجابن نچ۔“ پر محفل کو حرارت دی۔ اس کے بعد انگریزی اردو اور ہندوستانی پنجابی گانوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ہندوستان کے ہو نہار باہم شیر و شکر ہو کر پاکستانی و ہندوستانی موسیقی پر یوں ناچ رہے تھے جیسے بچپن سے یہی کرتے آئے ہوں۔ اس محفل میں مہمانوں کے رسم و رواج اور عقائد یکساں معلوم ہوتے تھے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت اور پارسی افراد اس محفل میں ایک ہی خاندان کے افراد محسوس ہو رہے تھے۔
مہندی کی تقریب نصف شب تک جاری رہی۔ رات گئے گھر پہنچ کر علیزے سونے سے قبل اس الجھن کا شکار تھی کہ صبح میم صائمہ بتول نے ہسٹری کی کلاس میں جن دو قوموں کا ذکر کیا تھا وہ کہاں پائی جاتی ہیں؟
- عبدالغفار خان ایک امن پسند پٹھان - 25/11/2023
- بنوں میں عورت، علم اور استاد کی تذلیل - 31/10/2023
- الجھن (افسانہ) - 21/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).