چینل نہیں میڈیا بدلیں
آپ عوام میں پاکستانی اداروں کی بات کر کے دیکھیں۔ لوگ فوج، پولیس، عدلیہ، تعلیم، صحت، روزگار، تجارت، بینکاری، سیاست دان، اور صحافت وغیرہ سب کے بارے میں منفی رائے ہی رکھتے ہیں۔ یہ نا امیدی اور مایوسی چھوت چھات کی مانند ایک متعدی وبا ہے۔ کبھی وقت نکالیں اور اس وبا کی جانچ پرکھ کریں۔ بچے سے لے کر بوڑھے اور سرکاری ملازم سے لے کر عام ٹھیلے والے تک ہر شخص آپ کو حالات سے مایوس نظر آئے گا۔ اپنے موٹیویشنل اسپیکرز بھائیوں کی باتوں پر نہ جائیں، مایوسی اور نا امیدی کا تیار شدہ پھندا ہماری گردن کے بالکل عین مطابق ہے۔ جب سب ہی کرپٹ ہیں تو اب اصلاح کی امید کس سے رکھی جائے؟
او آئی سی کے حوالے سے بھی ایسی ہی سوچ عام ہے۔ جب او آئی سی کا ادارہ ہی استعمار کا پٹھو ہے تو پھر اس سے کوئی اچھی امید کیسے باندھی جائے؟ پھر میرے اور آپ کے ہاتھ پاؤں مارنے کا اہل غزہ کو کیا فائدہ ہو گا؟
آپ اسے مایوسی کی دلدل، نا امیدی کا پھندا یا تاریکی کی غار کہہ لیں۔ ہمیں چار و ناچار اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہو گئی۔ او آئی سی یا پاکستان کے ملکی نظام سے مایوس اور نا امید ہو جانا کوئی بے جا یا غلط بات بھی نہیں لیکن یہ مایوسی اور نا امیدی کس حد تک ہونی چاہیے؟ کیا اس نا امیدی کی بھی کوئی مقدار مقرر کی جانی چاہیے یا نہیں؟ کیا ہمارے ہاں یہ بیکراں مایوسی اور یہ بے حد نا امیدی ویسے ہی پھیل گئی ہے؟
در حقیقت اس کے لئے باقاعدہ کاکروچ تھیوری استعمال کی گئی۔ کوئی راہ حل بتائے بغیر روزانہ کی بنیاد پر مختلف ملکی اداروں اور شخصیات کی منفی اور بری خبروں کا الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا نیز منبر و محراب سے مسلسل تکرار کیا گیا۔ تجزیہ و تحلیل کے بغیر بری خبروں کا تکرار اتنی کثرت سے ہوا کہ لوگوں میں اچھائی کے لئے قیام کرنے کا جذبہ ہی مر گیا۔ برائیوں کی اتنی زیادہ تشہیر کی گئی ہے کہ گویا معاشرے میں اچھائیاں درگور ہو گئیں۔
ہمارے سیانوں نے صرف دو چیزوں پر توجہ کی: ایک منفی اور بری خبروں کی تشہیر و کھوکھلی تنقید پر اور دوسرے اصلاح و تعمیر کے بجائے صرف بلند و بانگ دعووں و کھوکھلے نعروں پر۔ حالانکہ یہی پاکستان جس سے ہماری قوم کو مایوس کیا گیا ہے اس میں آج بھی معدنی ذخائر، اصول پرست اور ہمدرد انسانوں، ہنر مند شخصیات، باصلاحیت جوانوں اور مخلص و باشعور افراد کی کسی بھی شعبے میں ہر گز کمی نہیں۔
بطور مثال او آئی سی پر بھی ایک غیرجانبدارانہ نگاہ ڈالئے۔ او آئی سی کی تمام تر خامیوں کے باوجود ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی نے غزہ کے حوالے سے سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں پرجوش شرکت کی۔ یہ کسی بھی ایرانی صدر کا گیارہ سال کے بعد سعودی عرب کا پہلا سفر تھا۔ ایک طرف تعلقات میں اتنی کشیدگی کہ سات سال سے سفارتخانے بھی معطل نیز سفارتی امور میں سردمہری اور کھٹائی جبکہ دوسری طرف اتنی امید کہ اس کانفرنس میں ایرانی صدر نے شرکت کے ساتھ ساتھ دور اندیشی پر مبنی خطاب بھی کیا۔
یعنی ملکی اختلافات اپنی جگہ لیکن بہتری کی کوشش اپنی جگہ۔ صدر رئیسی کے سعودی عرب کے اس دورے سے سوائے اسرائیل کے باقی سب کو خوشی ہوئی اور نئی امید ملی۔ اس اجلاس میں سب سے زیادہ قابل توجہ، محبوب ترین اور پر کشش شخصیت آیت اللہ رئیسی ہی کی تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ عرب بادشاہوں اور ایران، دونوں کی طرف سے یہ بھرپور کوشش کی گئی کہ ماضی کے اختلافات کو بالکل ایک طرف رکھ کر امت اسلامی کے نام پر غزہ کے لئے متحد ہوا جائے۔
اس وقت ساری دنیا، ایرانی صدر کو سننے کی منتظر اور مشتاق تھی۔ یہ واضح ہے کہ صدر رئیسی کو ہم سے زیادہ پتہ تھا کہ عرب بادشاہوں نے ان کا ساتھ نہیں دینا۔ اس کے باوجود انہوں نے اس پلیٹ فورم سے گفتگو کر کے دنیا کو قابض و جارح اسرائیل کے مظالم سے مزید آگاہ کیا۔ یہی وہ مناسب وقت تھا کہ پوری دنیا کو صہیونی سوچ اور مستقبل کے اسرائیلی خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ اسی کانفرنس میں اسلامی ممالک کو ہوش میں لانے اور اسرائیل کو خطے کے استحکام کو خراب کرنے کی اجازت نہ دینے کی بات کرنے کا فائدہ تھا۔
اسی طرح مسلمانوں اور خصوصاً فلسطینیوں کو مایوسی اور نا امیدی سے نکالنے کے لئے نیز اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور تجارتی تعلقات کے خاتمے کی خاطر موثر ترین آواز اٹھانے کا یہی موقع تھا۔ اس سے انکار نہیں کہ سعودی عرب اور اس کے چند حلیف ممالک نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ قطع روابط و تجارت کی بات کرنے سے انکار کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی میزبانی میں ستاون ممالک صرف اور صرف اسرائیل کی مخالفت کے لئے ریاض میں جمع ہوئے، یہ جمع آوری خود صہیونیوں کے لئے ایک ڈراونی حقیقت ہے۔
آج روزانہ مختلف ممالک اور براعظموں میں اسرائیل کے خلاف نفرت جنگل کی آگ کی مانند پھیل رہی ہے۔ لندن، ترکی، تیونس، آسٹریلیا، انڈونیشیا کے شہر بیکاسی اور جکارتہ، عراق، شام، ایران، سٹاک ہوم، پاکستان، سویڈن اور امریکہ الغرض جگہ جگہ لوگ اسرائیل کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ یہ عوامی اجتماعات اور مظاہرے اسرائیل کے سیاسی، اقتصادی، جمہوری، قانونی اور بین الاقوامی اسٹرکچر کو زلزلے کے جھٹکوں کی مانند ہلا رہے ہیں، خود تل ابیب میں صہیونی حضرات بھی نیتن یاہو سے استعفے کے مطالبے کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں برازیل کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی ”غزہ“ میں اسرائیلی مظالم کی حمایت کرنے پر اپنے ایک انتہا پسند نمائندے کو پارلیمنٹ کے اجلاس سے نکال باہر کیا۔ بلاشبہ اس وقت ساری دنیا میں اسرائیل ایک درندے اور جنگی مجرم کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔
تل ابیب کو یہ جھٹکے اس وقت لگ رہے ہیں کہ جب اسے بلا وقفہ عراقی، یمنی، لبنانی و فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے حملوں اور تباہی کا سامنا ہے۔ اب تک اسرائیل اپنے اوپر ہونے والے مزاحمتی و دفاعی اور مقاومتی حملوں کا فوجی نکتہ نظر سے کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اب جب جنگ بندی ہو گی تو اسرائیل کا عسکری غرور، ٹیکنالوجی کا تکبر، سفارتی اثر و رسوخ، سیاسی رابطہ اور علاقائی جغرافیہ پہلے کی مانند نہیں ہو گا۔ اب معاہدے کی شرائط اور نئی سرحدوں کا تعین امریکہ و اسرائیل کے بجائے مقاومتی گروہ کریں گے۔
آج حالات و واقعات ویسے نہیں ہیں کہ جیسے کاکروچ تھیوری دکھا رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک بری خبر اور پھر بری و مایوس کن خبروں سے ہی میڈیا کا بھر جانا۔ ہر طرف کاکروچ ہی کاکروچ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ صرف استعماری میڈیا کی سرخیوں پر نہ جائیں بلکہ مقاومتی میڈیا کو بھی دیکھیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد اپنے ٹی وی کا چینل بدلنے کے بجائے میڈیا تبدیل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے حالات ویسے آگے نہیں بڑھ رہے جیسے استعماری طاقتیں دکھا رہی ہیں۔
- ایرانی رہبر اور زیرِ سوال انقلابیت - 29/11/2023
- چینل نہیں میڈیا بدلیں - 18/11/2023
- مقاومتی اسٹیبلشمنٹ کا جدید نقطہ ظہور - 09/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).