جنگ سے متاثر بچے اور ان کا نسلی المیہ
سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینیوں کی حامی جماعت حماس کے حملے نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اسرائیل کے دعوی کے مطابق اس میں چودہ سو اسرائیلی افراد مارے اور 240 افراد یرغمال بنا لیے گئے۔ اس حملہ کو اسرائیل نے دوسرے ”نائین الیون“ حملہ سے تعبیر کیا۔ اور اپنے دفاع کے نام پہ جو اباً فلسطین کے شہر غزہ پٹی پہ شدید جارحانہ فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ ہسپتال ہویا کوئی اور مقام ہر جگہ راکٹوں اور بموں کی نہ رکنے والی بارش جاری ہے۔ اس وقت اسرائیل حماس سے بدلے اور اس کے خلاف غیض کے جذبے سے چور بپھرے شیر کی طرح گرج رہا ہے۔ اس کے مسلسل حملے کے نتیجہ میں ہونے والی اموات کی تعداد انیس نومبر 2023ء تک تیرہ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جن میں ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کی حالیہ جنگی صورتحال کے متعلق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیٹرس نے اپنے تقریر میں غزہ ”کو بچوں کا قبرستان“ قراردیا۔ غزہ کی شہری آبادی پہ ہونے والا یہ اکیسویں صدی کا سب سے شدید حملہ ہے۔ جہاں ڈیفنس فار چلڈرن انٹر نیشنل کے مطابق ہر پندرہ منٹ پہ ایک بچہ مر رہا ہے۔ یہ علاقہ اب موت کا اڈہ بن چکا ہے۔ اور یہاں مرنے والے بچوں کی تعداد کل اموات کی دو تہائی ہے۔
اس وقت غزہ پٹی کے ہسپتال مسیحائی نہیں بلکہ موت کی ہولناکی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ فضا میں انسانی خون اور بارود کی بو، سفید کفن میں لپٹے چھوٹے بڑے لاشے، بم کی آگ سے جھلسے، کٹے پٹے زخمی اجسام اور محفوظ مقام کی تلاش میں جنوبی غزہ کی جانب بھاگتے پناہ گزین ہولناکی کا کربناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح اکیسویں صدی انسانیت کی فلاح کی نہیں ہماری اگلی نسل کی تباہی کی صدی قرار پائے گی۔
اسرائیل کی شہری آبادی پہ بمباری اور زمینی حملے کی جنگی قوانین کی خلاف ورزی پہ پوری دنیا جنگ بندی اور امن کی حمایت میں احتجاجی جلوس اور جنگ کے خلاف فلک شگاف نعرے لگا رہی ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ کے کان، دل اور ذہن سب بند ہیں۔ کیونکہ دونوں ممالک کے مفادات امن سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مفاد سے وابستہ ہیں۔
فلسطین کی غزہ پٹی کا سب سے بڑا ہسپتال ”الشفاء“ تاحال مسلسل شدید حملے کی زد میں ہے، کیونکہ اسرائیلی حکومت کے نمائندے کے مطابق حماس کا ہیڈ کواٹر الشفاء ہسپتال کے تہہ خانے میں ہے۔ ان کے ہتھیار وہیں ہیں۔ لہٰذا ان ”دہشت گردوں“ کو کیفرکردار تک پہچانے کے لیے اس ہسپتال پہ ہوائی حملے اور بم گرانا ان کی مجبوری ٹھہرا ہے۔
حملے کے اس جواز کے متعلق تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یو ایس کے انسانی حقوق کی ایجنسی کی نمائندہ جینس لیرکی کے مطابق
”اگر اس وقت دنیا میں کوئی جہنم ہے تو اس کا نام شمالی غزہ ہے۔“ جہاں ہر پندرہ منٹ پہ ایک بچہ مر رہا ہے۔ اور جنگ کے محض ابتدائی چھ دن میں چھ ہزار بم گرائے گئے۔ غزہ پٹی میں وہ پناہ گزین فلسطینی ہیں جنہیں 1948ء سے تاریخی فلسطین کے علاقوں سے یہاں بھیجا گیا۔ اسرائیل کے کنٹرول میں یہاں فلسطینی کھلی جیل کے قیدیوں کی طرح رہتے ہیں جنہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ آزادی سے جینے کی مراعات سے محروم ہیں۔
آج دنیا میں انسانی حقوق کی علمبرداروں کو پریشانی ہے کہ کھانے، بجلی، گیس، پانی اور علاج و معالجے سے محروم شہری اس جنگ کے نتیجہ میں کتنے شدید ٹراما سے دوچار ہوں گے ۔ مرنے والے تو سپرد خاک ہوئے، لیکن بچے کھچے زخم خوردہ متاثرین بالخصوص بچے اپنے حال اور کل کے مستقبل میں کس ذہنی ابتلا کا شکار ہوں گے ۔ بلاشبہ غزہ اور اسرائیل تنازعہ میں پھنسے بچے وہ ٹراما جھیل رہے ہیں۔ جس کے دوررس اثرات ان کی نسلوں پہ پڑیں گے۔
بطور ٹراما تھراپسٹ میری دلچسپی اس جنگ سے مرتب ٹراما کے فوری اور دور رس اثرات کی نشاندہی کرنا ہے۔
ٹراما ایک یونانی اصطلاح ہے جس کا مطلب نفسیاتی زخم ہے۔ وہ زخم جو کسی تکلیف دہ واقعہ سے گزرنے کی صورت میں ذہن پہ شدید جذباتی نتائج کی صورت مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً اولاد کی موت، قدرتی آفت زلزلہ، سیلاب، ہجرت، جنگ یا تشدد کا ٹراما وغیرہ۔
شدید ٹراما کا ایک نتیجہ پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹرس ڈس آرڈر ) ہے۔ جو انسان میں ذہنی دباؤ، اداسی، بے تحفظی، خوف، بے بسی، اور ہیجانی کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ اس قسم کی جنگوں میں بچ جانے والے بچوں نے بم دھماکے، گولی اور بارود کی بو، جسموں سے بہتا خون، تشدد اور قتل و غارت گری کے علاوہ مردہ بچوں کے اجسام سے چمٹے والدین کی آہ و بکا سنی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ڈراؤنے خواب کی صورت سوتے وقت بار بار تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس قسم کی حالت کا شکار بچے نیند نہ آنے، خوف، دوسروں سے دوری، بے تعلقی، عدم اعتماد اور سن (numb) کیفیت میں رہتے ہیں۔
https://www.cdc.gov/childrensmentalhealth/ptsd.html
جنگ کے منفی سیاسی، معاشی اور نفسیاتی اثرات کے علاوہ ان بچوں میں اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کا جذبہ ہمیشہ رہتا ہے۔ اپنی جذباتی ناآسودگی کا اثر بچوں کی تعلیمی کارکردگی، ذہانت، رویہ (غصہ، چڑچڑاہٹ، زود حسی، جارحانہ رویہ) ، اور توجہ کے دورانیہ پہ پڑتا ہے۔
تیس سالہ ابو غازہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس کے دو سے آٹھ سال کی عمر کے بچے فضائی حملوں کے بعد الٹی اور خوف کے عالم میں بستر پہ پیشاب کرنے لگے ہیں۔ فلسطین کے 95 فی صد بچوں کا یہ ہی حال ہے۔
جنگ جھیلنے والے یہ کمسن بچے کم عمری میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اکثر نے اپنے خاندان کے کئی افراد کو بوسے دے کر دنیا سے رخصت کیا ہوتا ہے۔ مثلاً غزہ کی حالیہ جنگ میں نو سالہ خالد نے اپنے بارہ سالہ بھائی خلیل کے کفن کا کنارہ اٹھا کے اسے آخری بار پیار کیا۔ پھر آٹھ ماہ کی بہن کو آخری بوسہ دیا۔ اور پھر باری باری اپنے ماں، باپ، بڑی بہن اور بھائی کو آخری دفعہ پیار کیا۔ سوچیے خالد کے بچپن میں اب کیا باقی رہ گیا ہو گا؟
Epigenetic یعنی ماحول کی وجہ سے جینز میں تبدیلی کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پہ کسی گروپ میں ٹراما کے اثرات موروثی ہوتے ہیں یعنی سیاسی تشدد، جنگ، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا فوری اثر ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ متاثرہ افراد میں بیماری کے خلاف مدافعت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اور جذباتی ناآسودگی اور دل کی بیماریوں کے علاوہ بھی بہت سے بیماریوں کے احتمال کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
https://www.cdc.gov/violenceprevention/aces/index.html
بدقسمتی سے اس وقت دنیا کے ایک ارب بچے اسی قسم کے پرتشدد جنگی اور تنازعات سے بھرپور حالات کی ذد میں ہیں۔ ان میں سے بہت سے بے نام و نشان مر جائیں گے یا بچ گئے تو ان کے نام بتانے والے والدین مرجانے کی صورت میں نہ ہوں گے ۔ غزہ میں ایسے بچے بھی ملے ہیں کہ جن کے مردہ جسم پہ ان کے نام کندہ تھے۔ جو ان کے والدین نے اس لیے لکھ دیے ہوں گے کہ وہ بچھڑ جانے کی صورت میں بے نام نہ رہ جائیں۔
الشفاء ہسپتال کی ایمرجنسی کمرہ میں شال کے عالم ایسے اکیلے بچے بھی ہیں جن کو اپنا نام اور پتہ نہیں معلوم انہیں نہیں معلوم وہ کون ہیں۔ اکثر بچوں کا پورا گھرانا مر چکا ہے۔ ان بچوں کو ”ٹراما کے نامعلوم بچے“ کا نام دیا ہے۔ جنگ کے پہلے دو ہفتے میں ایسے پندرہ سو بچے تھے جو نام و نشان کے بغیر تھے۔
جنگیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ صرف ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی حد تک نہیں بلکہ اس کی اصل قیمت انسان زندگی بھر نفسیاتی، اعصابی اور جسمانی ٹراما کی صورت چکاتا ہی رہتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ہر لمحہ چوکنا رہیں اور اپنی ذات سے بالا تر ہو کر دنیا میں پھیلی نا انصافی پہ آواز اٹھائیں۔ حق کے بول بالا کے لیے احتجاج مشکل ہے۔ مگر سچ کے لیے اٹھنے والی ہماری آواز ہی دنیا کو ٹراما سے نبرد آزما بہت سے بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کرسکے گی۔ یاد رکھیے حق کی آواز رنگ، نسل، مذہب اور جنس کی پابندیوں سے بالاتر ہوتی ہے۔
- مخالفین میں گھری بہادر شیرنی: شیما کرمانی - 05/12/2023
- جنگ سے متاثر بچے اور ان کا نسلی المیہ - 21/11/2023
- ناروے پہ نادرہ مہر نواز کی نادر کتاب ”ناروے پگڈنڈیوں سے شاہراہوں تک“ - 10/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).