بنت داہر: ایک نئی سمت


Loading

جنت مکانی قاضی عابد صاحب کہا کرتے تھے : ”مطالعہ پاکستان ایک ایسا مضمون ہے جس میں نا تو مطالعہ ہے اور نہ ہی پاکستان۔“ خیر، اسی مطالعہ پاکستان میں محمد بن قاسم کی جو کہانی سنائی گئی وہ اس قدر دلچسپ اور سحر انگیز تھی کہ وہ لا محالہ ہیرو ہی لگتا تھا۔ کوئی ناہید نامی لڑکی تھی جس کو سندھ میں راجہ داہر نے کال کوٹھڑی میں بند کر رکھا تھا۔ اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے وہیں سے پکارا ”“ حجاج۔ اے حجاج۔ میری مدد کو پہنچ ”اس کی یہ پکار ڈائریکٹ حجاج بن یوسف تک خواب کے راستے پہنچی اور وہ لبیک لبیک کرتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ حجاج بن یوسف ایک قابل منتظم اور جرنیل تھا۔ اس نے بنی امیہ کے دشمنوں کا چن چن کے صفایا کیا تھا۔ قوم کی بیٹی کے عصمت و قار کے لئے اس نے اسی وقت اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو حکم دیا کہ جاؤ اور ناہید کو واپس لاؤ۔ اور سندھ کے حکمران کو اس کے کیے کی سزا دو۔ اس نوعمر سپہ سالار نے سندھ پر حملہ کیا۔

راجہ کو مار گرایا۔ ناہید کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں غلام اور عورتیں بھی لے آیا جو مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیں۔ یہ عورتیں ناہید سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھیں مگر فرق صرف یہ تھا کہ یہ کافر سندھیوں کی بہن بیٹیاں تھیں۔ خیر اس سے ملتے جلتے کئی قصے پڑھنے کو مل جاتے ہیں جو محمد بن قاسم کی عظمت و شجاعت کے باب میں سندھی حیثیت رکھتے ہیں۔

کچھ روز قبل مجھے ایک تاریخی یا دستاویزی نوعیت کا ناول بعنوان : ”بنت داہر“ پڑھنے کا موقع ملا۔ ناول صفدر زیدی نے لکھا ہے۔ صفدر زیدی تاریخ کے ساتھ چھیڑ خانی کے حوالے سے کافی مشہور ہیں۔ تاریخی ناولوں کے لئے مشہور ہے کہ یہ دو دھاری تلوار جیسے ہوتے ہیں۔ یہ ناول تاریخ کو مسخ بھی کر سکتے ہیں اور اس کی تار تار ہوتی ہوئی چادر میں پیوند کاری بھی کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ نسیم حجازی جیسے ناول نگاروں کے ناول پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی خاص آئیڈیالوجی کے نمائندہ ہیں۔ اور کچھ صفدر زیدی جیسے ناول نگار بھی ہیں جن کو پڑھ کر لگتا ہے یہ کسی نظریہ، روایت یا تاریخ کی نفی کر رہے ہیں اور کچھ نئے نتائج سامنے لانا چاہتے ہیں۔

بنت داہر ایک ایسا ناول ہے جس نے بالخصوص سندھ میں نئے مباحث کو جنم دیا ہے۔ زیدی نے تاریخ کے گرد آلود پنوں کو جھاڑا پھونکا اور پھر اس کو اجلا کر کے اس کی خالی جگہوں کو پر کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے 712ء سے پہلے کے سندھ کی تہذیب، ثقافت، تجارت، زبان اور مذہب سمیت کئی سماجی پہلوؤں کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ پیش کیا۔ ان میں دو فریقین ہیں۔ ایک طرف قوم پرست سندھی تو دوسری طرف اسلام پسند سیاسی گروہ۔

بنت دہر میں زیدی نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ بن قاسم کے حملے سے پہلے سندھ کی ثقافتی روح کیا تھی؟ اس کے علاوہ انھوں نے ایک تاریخی مغالطے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ سندھ میں نوآبادیاتی تسلط سے قبل الور (سکھر) سے لے کر ملتان تک بدھ اور جین کی اکثریت تھی۔ ان علاقوں میں ہندو اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ اور دیبل شہر، جین تاجروں کا شہر تھا۔ زیدی نے سیاسی اسلام پسندوں اور سندھی قوم پرستوں کے منافقانہ رویے پر ضرب کاری لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ”چچ نامہ“ کو بنیاد بنا کر سندھ کو جین اور بدھ سماج تسلیم کرنے کے بجائے ہندو سماج مان لیا۔

زیدی چچ، راجہ چندر اور راجا داہر کے خلاف اینٹی بدھ اور اینٹی جین ہونے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ اور آٹھویں صدی کے سندھ کو آزاد اور مذہبی تنوع کے حامل قرار دیتے ہیں۔ اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جینیوں کی اکثریت ہرگز غریب اور بے بس نہ تھی بلکہ ان میں سے اکثر تو تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ اور وہ اس دور کا ایلیٹ کلاس طبقہ تھے۔ وہ اپنے ان دعوؤں کے ثبوت کے لئے ناول میں ایسی تصوراتی فضا قائم کرتے ہیں کہ ہر کردار ان کے انہی نظریات کی تشریح کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس کے علاوہ زیدی نے ان اسلام پسند سیاست دانوں کو موضوع بنایا جو محض مال غنیمت کی آڑ میں پر امن خطوں پر حملہ کرتے اور پھر تلوار کے زور پر اسلام پھیلاتے۔ ہندوستان اس لحاظ سے ایک بدقسمت خطہ جہاں آریاؤں سے لے کر عربوں اور تاتاریوں تک سبھی نے زر، زن اور دھن کے لئے حملے کیے۔ بنت داہر درحقیقت تہذیب و تمدن اور مقامیت کا ایسا موقف ہے جسے کئی ادیب دینے سے گھبراتے ہیں۔ زیدی نے عرب حکمرانوں کا سفاکانہ اور سندھ واسیوں کا پر امن اور حقیقی چہرہ دکھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔

زیدی نے ماندہ ادیبوں کی طرح حملہ آوروں کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ہیرو بنا دینے کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تاریخ کو اس کی اصل صورت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی۔ اور اپنے بیانیوں سے واضح کیا کہ مذہب کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لئے یہ ہیرو نما دہشت گرد کچھ بھی کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments