سال کی آخری نظم
سانتا
وہ کرسمس کی رات
عید میلاد عیسٰی مسیح
وہ مسیحا کہ جس نے
محبت کا پیغام ہم کو دیا
جس نے روتی بلکتی ہوئی
آدمیت کے زخموں پہ مرہم رکھا
تم اسی کے نمائندے کہلاتے ہو
سانتا!
اتنے سارے کھلونے اٹھائے ہوئے
گھومتے ہو جو تم
چمنیوں چمنیوں آسماں آسماں
تو یہ تقسیم کرتے ہو آخر کہاں
ان بھرے پیٹ بچوں کی چمنی میں؟
جن کے لئے
تم کسی فلم کا ایک کردار ہو
یا کہ ان کے لئے جو کہ
سچ مچ تمہارے کھلونوں کے حقدار ہیں
سانتا میں نے یہ بھی سنا
رتھ تمہارا بہت اونچی پرواز کر سکتا ہے
اتنی اونچی کہ دنیا کھلونا لگے
سانتا سچ کہو اتنی اونچائی سے اس دفعہ
کیا تمہیں ایسے بچے دکھائی دیے
جو کہ تھے بوند پانی کو اور
ایک روٹی کے ٹکڑے کو ترسے ہوئے
آنکھ سے اور بازو سے محروم سہمے ہوئے
جن کے ماں باپ کے جسم تو
جنگ کی آگ میں خاکستر ہوئے
اور اب وہ کھلے آسماں کے تلے
آگ روشن کیے
منتظر ہیں کہ کوئی مسیحا نفس
اس طرف دیکھ لے
وہ کھلونے نہیں مانگتے سانتا!
کانچ کی آنکھ لکڑی کے بازو بھی ان کے لئے
خواب کی بات ہے
پر تمہارے مرصع چمکتے ہوئے رتھ میں کیا
درد کش گولیاں بھی نہ تھیں
جو تم ان کی طرف پھینکتے سانتا
صرف یہ سوچ کر
اس مٹھائی سے شاید
غزہ کے یہ بچے بہل جائیں گے
اور کچھ دیر کو درد تھم جائے گا
(31 دسمبر 2023)
- یوم عاشورہ پر جنگ کی ڈائری - 17/07/2024
- سال کی آخری نظم - 04/01/2024
- جنگ کی ڈائری (چوتھا حصہ) - 03/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).