اقبال خورشید کا فن انٹرویو اور فکشن سے مکالمہ


”وہ بوڑھا ہو گیا تھا۔ چند دانت گر گئے۔ بہت سے بال سفید ہو گئے۔ مجھے وہ توقع سے زیادہ پراسرار اور تروتازہ محسوس ہوا۔ تو میں نے اسے دیکھا (گو میں اسے پہلے بھی دیکھ چکا تھا) ، اور اسے سنا، (گو پہلے بھی سن چکا تھا) ، اور اس آواز کو اتنا ہی جوان پایا، جتنی وہ پہلے تھی۔“

یہ کتاب محض مکالموں کا بیان نہیں، سپاٹ سوال و جواب کی تکرار نہیں، انٹرویو جب ہونے والی گفتگو کے بعد صفحات کے قرطاس پر اترنے کے بعد اپنا اور ہی رنگ روپ دکھانے لگ جائے تو اسے محض انٹرویو ہی کیوں کہا جائے۔ ادب کی کوئی نئی فارم بھی جنم لے سکتی ہے۔

اقبال خورشید صرف صحافی ہوتے تو یہ کتاب اور ڈھنگ کی ہوتی، اور شکر ہے کہ وہ صرف صحافی نہیں ہیں۔ فکشن نگار ہیں، جناب کا اپنا طرز تحریر اور انداز قصہ گوئی ہے۔

پڑھتے ہوئے اس کتاب کا ذائقہ فکشن کا سا ہے، آپ بیتی کی حلاوت بھی ہے اور معلومات قاموسی ہیں۔ ہر شخصیت کا باب ایک جملے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ جملہ صرف جملہ نہیں ہے۔ فکشن نگار اور اس کے ناول کی پہچان ہے۔ اقبال خورشید فکشن کے جملوں سے اپنے اور فکشن نگار تک پہنچنے کے تجربات کو ایک پیراگراف میں بیان کرتے ہوئے پڑھنے والے کو اس باغ میں لا کھڑا کریں گے جو فکشن نگار کے گھر سے ملحق ہے۔

فقط ڈیڑھ صفحے میں فکشن نگار کی جیون کتھا، اس کے کارنامے اور احوال سنا کر قاری کو اس کمرے میں جہاں فکشن نگار اور اقبال خورشید موجود ہیں ایک تیسری نشست پر براجمان کر دیں گے تاکہ وہ فکشن نگار کی زندگی، اس کے فکشن میں جھانک سکے۔

ابتدائی چند ایک صفحات پڑھ کر دا پیرس ریویو کے وہ انٹرویوز ذہن میں آنے لگے جنھیں عمر میمن صاحب نے ترجمہ کر کے فن فکشن نگاری کے نام سے شائع کیا تھا۔ آدھی کتاب پڑھ لینے کے بعد اندازہ ہوا کہ نہیں صاحب یہ تو مختلف اجزائے ترکیبی سے بنے ہیں، کہیں کہیں خاکہ نگاری ہے، خود نوشت کا اسلوب ہے، گو کہ اقبال خورشید کا اپنا ہی رنگ ہے۔

کتاب میں سولہ شخصیات ہیں، سولہ فکشن کی سر زمینیں ہیں۔ کتاب سنگ میل نے شائع کی ہے۔ کتاب کے سرورق پر اپنے چھ پسندیدہ فکشن نگاروں کی تصاویر دیکھی تو پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اردو کے تین حسین (تارڑ، انتظار، عبداللہ) ، اسد محمد خان اور مرزا اطہر بیگ اور حمید شاہد شامل ہیں۔

پہلے آٹھ انٹرویوز طویل ہیں، کتاب کے نصف حصے سے زائد پر محیط، آخری آٹھ انٹرویوز مختصر نہ سہی مگر پہلے آٹھ کے مقابلے میں طویل نہیں، گو کہ اس میں ان شخصیات کے قد کاٹھ کے عنصر کو بھی دخل ہو۔ اور اقبال خورشید کی اپنی ذاتی وابستگی، پڑھت، پسندیدگی بھی شامل حال رہی ہو۔ پھر اقبال خورشید نے فہرست جس لحاظ سے مرتب کی ہے اسے آپ مقام اور مرتبے کے لحاظ سے دیکھیں یا پھر ادب میں سینیارٹی۔ انتظار حسین، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ اور پھر اسد محمد خان۔ آخری مکالمہ آمنہ مفتی صاحبہ سے ہے۔

سب سے زیادہ تفصیلی جوابات جناب محمد حمید شاہد کے ہیں، گو وہ فکشن نگار کے ساتھ تنقید نگار بھی ہیں تو انہوں نے فکشن کے بہت سے زاویوں پر تفصیلی بات کی۔ اس کتاب میں ہر مکالمہ فکشن پڑھنے والے کو لکھنے والے کا ایک لینڈ اسکیپ مہیا کرتا ہے۔ مرزا اطہر بیگ اور آصف فرخی کے مکالموں میں تشنگی کا حساس باقی رہا۔ وہ طویل ہونے چاہئیں تھے۔

اس کتاب کے آغاز میں چند شخصیات کے تاثرات ہیں۔ تارڑ صاحب، اقبال خورشید کے بارے میں لکھتے ہیں ”ایک نثر نگار کی پرکھ تبھی ممکن ہے، اگر آپ نے اسے مکمل وابستگی سے پڑھ رکھا ہو۔“ اس کتاب میں اقبال خورشید نے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ سامنے والے سے سوال اسے پڑھے بنا کر رہے ہیں، گو کہ کسی ایک فکشن نگار خاص کر تارڑ صاحب کے تمام فکشن کو پڑھنا ناممکن کام ہے۔ اقبال خورشید نے جن ناولوں کو گہرائی سے پڑھ رکھا تھا انہی سے متعلق سوالات کیے ۔ جیسے تارڑ صاحب سے زیادہ سوالات بہاؤ، انتظار حسین سے بستی، اور مرزا اطہر بیگ سے غلام باغ بارے کیے ۔

تارڑ صاحب نے ٹھیک کہا تھا کہ عینی آپا حیات ہوتیں وہ اقبال خورشید سے کہہ دیتی تم نے مجھے پڑھا ہوا ہے تم مجھ سے سوال کر سکتے ہو، ہو سکتا ہے کہیں کہیں یہ خواہش اقبال خورشید کے دل میں بھی ہو کہ کاش وہ قرۃ العین حیدر، منٹو اور عصمت چغتائی کا بھی انٹرویو کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments