نینا عادل کی کتاب: مقدس گناہ
مصنفہ: صاحبہ
تبصرہ: عرفان علی جناح (ڈنور)
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں!
رنگ تھے چار۔ رنگوں سے بھرا ہوا یہ ناول میرا ایک طلسمی تجربہ ٹھہرا۔ یا پھر مصنفہ کی محنت اتنی باریکیوں تک کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہاں آپ کو رنگوں کی دنیا ملے گی۔ شبدوں میں جو رنگ ہوتے ہیں وہ ہر ورق کر نظر آئیں۔ مجھے تحریر، الفاظ اور خیالات کی بہتی ہوئی روانیوں نے بے حد لطف پہنچایا۔ میں نے تبصرہ لکھتے لکھتے اپنے زعم ایک چھوٹا افسانہ سا لکھ ڈالا ہے۔ باتیں ختم ہوں تو اینڈ کروں لکھنا۔ ہوتا یوں ہے کہ ہر پڑھنے والے کا ایک مزاج ہوتا ہے، اور سب سے بہتر اور زیادہ جو بات کہہ لیں یا چیز مجھے متاثر کرتی ہے وہ بات ہوتی ہے کسی بھی تحریر میں شبدوں کی روانی۔ وہ سحر طاری کر دیتی ہے بات۔
الفاظ اور سطروں میں جو flow یا بہاؤ تھا اس کو میں نے ہائی لائٹ کیا ہے۔ کچھ جگہ جگہ پہ جھلکیاں نظر آئیں گی۔ باقی باتیں ابھی بتاتا ہوں!
ہر انسان، (شاید) اپنی اپنی زندگی میں یا اپنی اپنی کانٹیٹیونسی میں، ایک اسپیس کا خواہاں ہوتا ہے یا رہتا ہے۔ میری کانسٹیٹیوئنسی میری کتابیں ہیں۔ اور یہ کمرہ اور میرے کچھ خواب۔ کچھ ادھورے سپنے۔ پاکستان آرمی میں شمولیت میری اولین خواہش اور ترجیح۔ میری چاہت میرا عشق یا پھر جنون تھا، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں فائن آرٹس میں ڈگری۔ رنگوں اور اسکیچز کے درمیان گزرتی زندگی کا اپنا ایک حسن تھا، کیسی نہ بھلی لگتی وہ زندگی کی پینسلوں اور رنگوں کے گرد گھومتی صبحیں اور شامیں۔
یا دیگر اوقات کار میں کتاب پڑھنے کو اب عادت تو نہیں کہوں گا۔ میں اتنا پڑھاکو نہیں۔ پڑھاکو سے میری مراد مطالعہ کرنے والا، اوپر یہاں روایات کچھ ایسی پھیلی ہوئی ہیں، کہ لوگ ہاتھ میں کتاب اور شیلف میں ایک ڈھیر کتابوں کا دیکھ کر ویسے ہی بندے کو ادیب اور پڑھاکو یا مطالعہ کرنے والے کا لقب دے ڈالتے ہیں۔ جیسے کسی کو شعر کہتے سن یا دیکھ کر شاعر کا لقب دیتے ہیں اور کسی کو اخبار پڑھتا دیکھ کر، یا ٹاک شوز سنتا دیکھ کر حالات حاضرہ پر مبصر مان لیتے ہیں۔ یہ ہمارے لوگ ہیں ہی ایسے جو نیم حکیم، نیم ملاں اور کمپاؤنڈر کو ڈاکٹر مان کر زندگیاں گزار دیتے ہیں۔
میں بھی آج کے دنوں میں پہلے سے کچھ زیادہ مصروف تھا، پھر بھی جب دل اوب سا جاتا تو اس مصروفیت میں بھی رات کو وقت مل جاتا تھا۔ تو پڑھ لیتا تھا، کنسنٹریشن منتشر ہوئی ہوئی تھی، پھر بھی محترم عرفان جاوید صاحب کی رکمینڈیشن پر ”سعادت حسن منٹو“ کے افسانے جو انتخاب تھے جناب آصف فرخی صاحب کا اور شایع کیے تھے آکسفورڈ پریش نے، پڑھ ڈالے۔ اور ہمیشہ سے زیادہ منٹو کی لکھائی، اور تحریر کا قائل ہو گیا۔
سنبھلتے سنبھلتے توجہ بھٹک رہی تھی۔ کچھ بجلی کے مسائل تھے۔ اب بیس گھنٹے بجلی نا ہو تو بندہ کیا پڑھے اور کیسے پڑھے؟ اور اگر 24 گھنٹے ہی بجلی نہ ہو تو ذہن منتشر ہو گا ارتکاز ٹوٹے گا۔ توجہ کچھ اور بھٹکے گی۔
سنگ میل پبلشرز، وہ ادارہ ہے۔ جہاں ادب چھپتا ہے۔ میرے پسند کی کئی ایک کتابیں سنگ میل کے ہاں موجود تھیں۔ میں نے خرید لیں۔ کئی ایک موجود ہیں اور ارادہ ہے انشاء اللہ خرید لوں گا۔ آن لائن ویب سائیٹ نے تو آسانیاں پیدا کر ڈالی ہیں۔ لیکن میں ہمیشہ شکر گزار رہتا ہوں افضال احمد صاحب کی شفقت کا ان کی طرف سے ایک خاص قسم کی شفقت کو بدرجہ اتم موجود پایا ہے ہمیشہ۔ سنگ میل پبلشرز کے ویب پیج پر میں دیکھ رہا تھا ایک نیا ”ناول“ نظر آ رہا تھا۔ بالکل پہلے پہلے پیج پر۔ قیمت 2500 روپے مقرر تھی۔ میں نے کئی ایک بار اس کتاب کو کارٹ میں رکھا۔ پھر ڈیلیٹ کر دیا۔ یہ نہیں تھا کہ کتاب کوئی مہنگی تھی۔ بس وہ ٹیون ان نہیں ہو پا رہا تھا دماغ۔ نیا نام تھا، مصنفہ صاحبہ کا، نینا عادل؛ نینا عادل، صاحبہ کا نام نہیں سنا تھا نہ ان کو میں جانتا تھا۔ جو حقیقت ہے۔ پھر کچھ گوگل پر دیکھا کچھ ان کے تعارف میں تو کچھ معلوم ہوا کہ پہلے تو وہ دراصل ایک شاعرہ ہیں۔ انہوں نے فارسی میں حافظ اور دیگر شعراء کا کلام مناسب مواقع پر استعمال کیا ہے۔ جو کہ ایک ہنر لاجواب ہے۔
لیکن، ہوتا یوں کہ جب بھی سنگ میل کا پیج وزٹ کرتا، اس ناول پر کلک کرتا اور آخر میں پھر سے ڈیلیٹ کر دیتا۔ میں یہ مانتا ہوں ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ویسے ہی ہر کتاب پڑھنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے جب آپ ٹیون ان ہوتے ہیں، آرٹ کے ساتھ، یہی اصول فلم دیکھنے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ تو انہی اصولوں پر کتاب یا مصنف کے ساتھ ٹیون ان ہونا ضروری امر ہے۔ ایسے ہی اصولوں پر، میں نے کافی ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ کئی ایک مصنفین سے متعارف ہوا ہوں۔ شاید یہ میرا ایک پیٹرن ہے مطالعے کا یا کچھ بھی کہیے۔ بس ایسے ہی میں سوچ کر مسکرا دیتا تھا
پھر کچھ دن پہلے میں نے یہ کتاب منگوا لی اور کتاب آفس میں ہی موجود تھی ابھی گھر نہیں لایا تھا۔ اور وجہ، کچھ کام یا رش تھی۔
اسی دوران میرے ایک محسن ہیں۔ بے حد شفیق انسان ہیں۔ مجھ پر ان کی کافی شفقت رہتی ہے۔ اپنے کام کے کسی سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے درویش صفت صوفی منش اور بھلے مانس۔ وہ ڈرائینگ ٹیچر ہوا کرتے تھے، خطاطی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے خطاطی کا بہترین نمونہ چاول کے دانے پر کلمہ طیبہ لکھ کر پیش کیا۔ وہ آرٹ اور رنگوں یا اسکیچز وغیرہ سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ پھر انہوں نے جوگی رنگ اپنا لیا۔ تصوف اور درویشی صفت ایسی کہ۔
بال کندھوں تک آ گئے، اور پاؤں میں چپل نہیں پہنتے۔ سر پر رومال رہتا ہے۔ نظریں جھکی ہوئی۔ دھیمی اور نرم آواز میں گفتگو کرتے ہیں۔ اور یہ ملاقات بھی سائن جان محمد منگریو صاحب کی معرفت ہوئی تھی ان کے ہاؤس پر۔ ان کی نظر اس کتاب پر گھوم رہی تھی جو میری ٹیبل پر موجود تھا، اور پھر انہوں نے مجھے جیسے یک دم متوجہ کر ڈالا۔ آرٹسٹ کی نظر اپنی ہوتی ہے۔ مجھے معلوم رہتا ہے۔ تو
جب اس دن کلیم اللہ سہتو صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ آفس آئے تو شام کے چار بج رہے تھے۔ سلام دعا کے بعد خیر و عافیت دریافت کی اور بس ایسے ہی اچانک ان کی نگاہ اس کتاب پر پڑی۔ ایک دم کہا واہ۔ کیا خوبصورت ٹائیٹل ہے۔ مقدس گناہ۔ حالاں کہ میری نظر ابھی سر ورق پر اتنے دنوں میں بھی پوری طرح نہیں پڑی تھی۔ پھر مجھے ہاتھ میں لے کر دکھایا کہ سر دیکھیں سر ورق کتنا خوبصورت ہے۔ عورت کا پیکر/شبیہ بنا ہوا مجھے نظر آیا۔ پھر کہنے لگے اتنا گہرائی سے دیا گیا ٹائیٹل اور مصنفہ دیکھیے۔ بیک کور پر مصنفہ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ نوجوان مصنفہ اور تحریر اور سوچ کی گہرائی۔ وہ اپنی حیرت اور تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کہ بے حد خوبصورت کمبینیشن ہے۔
میں نے وقت کو گزرنے دیا۔ کل صبح سے میں نے ناول اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ پھر کیا تھا کہ میں محو سا ہو گیا۔ خوبصورت تحریروں کا منبع یا مجموعہ تھا۔ میں جیسے ایک مدت کے بعد کتاب کے ساتھ ٹیون ان ہوا تھا
میں نے مزاح، فلسفہ اور انسانی نفسیات کے بیانیے کا امتزاج دیکھا۔ میری اپنی فیلنگز کئی بار فلکچوئیٹ ہوئیں۔ مسحور کن انداز تحریر اور تسلسل جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے۔ میں نے کوئی تیزی نہیں دکھائی پڑھنے میں۔ جیسے چائے یا کافی کے سپ لیتے ہیں۔ ایسے ہی میں نے سطر در سطر کتاب پڑھنا شروع کی۔ ناول کا بہاؤ مجھے اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے جب میں نے اس میں فائن آرٹس کا جابجا تذکرہ دیکھا۔ فائن آرٹس تو مجھ میں موجود ہے، بلکہ خود ہوں بس۔
ہمارے وطن کی سیاست اور طاقتور ٹولے کی باتیں ہوں یا گھر اور خاندان کی محبت میں الجھی لپٹی باتیں۔ عورت کی نفسیات اس کے احساسات یا محسوسات ہوں۔ بڑی بات۔ یہاں ایک بات شامل کرتا جاؤں کہ ایک مدت تک مکڑیوں کے ہیلیوسینیشنز مجھے بھی ہوا کرتے تھے۔ چارپائی کے پائے پر بڑا سا مکڑا دکھائی دیتا اور میں چیختا چلاتا ہوا اٹھ بیٹھتا تھا۔ یہ تو حال ہی کی باتیں ہیں۔ دو چار برس پہلے کی، یا پھر چادر پر گھومتی مکڑیاں، یہ illusions یا dillusion یا hallucinations تھے۔
میرے ساتھ ہوتا تھا ایسا۔ میرے ذہن میں کئی ایک تصورات رہتے تھے۔ لیکن پھر فائن آرٹس پر مہارت بھی تو ہونی چاہیے۔ پینسل، پین، اور دیگر اسٹیشنری آج بھی میری ٹیبل پر موجود رہتی ہے استعمال نہیں ہوتیں، خیر ہے، کئی آئٹمز کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اٹھا کر کباڑ میں نہیں پھینک دیتا، کہیں رکھ دیتا ہوں۔ اور کئی رنگ پڑے پڑے خشک ہو گئے۔
تو میں جیسے جیسے ناول ”مقدس گناہ“ پڑھتا جا رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے اندر سے کوئی اکنالج کرتا جا رہا ہے تحریروں کو۔ جیسے خود کلامی کی کسی کیفیت ہی نہ؟ کلک کرتے ہیں الفاظ اندر ہی اندر
میں نے ”آخر شب کے ہمسفر“ بھی پڑھا۔ ایک بہترین تجربہ رہا میری زندگی کا۔ وہ تحریر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
باتیں کتنی ہیں۔ ابھی لکھنے بیٹھا تھا میں اس ناول ”مقدس گناہ: پر تبصرہ اور تبصرہ تو کہیں شروع ہوا یا نہیں دو صفحات بھر دیے۔
خیر! آئیے میں آپ کو اس ناول میں تحریر کی گئی کچھ باتوں سے متعارف کرواؤں۔ جو کہ خود بول اٹھتی ہیں۔ میں صفحہ پلٹتا ہوں تو آواز ابھرتی ہے کہ
” دنیا کا ہر چور دروازہ عورت کے دل و دماغ سے ہو کر گزرتا ہے“
پھر کہیں سے ایک تحریر پھوٹتی ہے کہ
”
کہتے ہیں، شکم میں جنم لینے والی نئی زندگی عورت کو روح و بدن میں پنپنے والی کئی پرانی بیماریوں اور الجھنوں سے چھٹکارا دلاتی ہے ”۔
بے حد مختلف اسلوب لیے یہ ناول مجھے اپنی گرفت میں لیتا چلا جا رہا تھا۔ محبت، تعلقات کی سچائیاں، رشتے، سیاست، کراچی کی سیاسی منظر کشی، لیکن ایک جگہ چونکہ میں جب جماعت اسلامی کا نام لیا جا سکتا ہے تو ایم کیو ایم کا کیوں نہیں!
ہمارے وطن عزیز کی اتنی تلخ حقیقتیں ہیں۔ کراچی کی باتیں محض خبریں یا خبرنامہ ہوتی ہیں ملک کے لیے لیکن ان خبروں کی ہولناکیاں انہوں نے محسوس کیں جن پر یہ سب کچھ گزرا۔
میں اس نہج پر پہنچا کہ مطالعہ میں وسعت ہے۔ گہرائی ہے۔ تخیل کی باتیں ہیں اور تخیل تو کسی بھی پابندی میں نہیں آتا۔ مصنفہ صاحبہ نے نہایت باریکیوں کو تحریر کیا ہے۔ مرد عورت کی نفسیات، تعلقات کی پیچیدگیاں اور احساسات گھٹن زدہ۔ اور خوف۔ اندیشے وغیرہ۔ مائیکرو اسکوپک ویو رکھنے والی مصنفہ نے لکھا ہے۔
ان کی تحریروں اور استعاروں میں کراچی بے حد خوبصورت نظر آتا ہے۔ ہنستا بستا کراچی جہاں پاکستان کے حکمرانوں اور متعصب لوگوں کی وجہ سے کافی حد تک ڈسٹربنس رہی۔ ان کی تحریر کتنی سادہ ہے نہ! مجھے پڑھنے میں ایسا لگا جیسے یہی الفاظ اور انداز بیاں ہمارا گھروں میں ہے۔ یہی روایتیں، یہی انداز اور باتیں، رکھ رکھاؤ۔
میں کئی ایک جگہ haunt ہوا۔ میرا دماغ کھنچاؤ کا شکار ہوا، اتنا اعصابی تناؤ۔ شاید میری حساسیت باتوں کی گہرائیوں کو محسوس کر رہی تھی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اتنا وقت دے کر ایک شاہکار ناول سے ڈیبیو کیا ہے انہوں نے۔ ان کی باتوں اور ناول کے مختلف حصوں پورا نوسٹیلجیا محسوس اور مہکتا نظر آتا ہے۔ گناہ کی لذت اور گناہ کے بعد پچھتاؤ کی کیفیات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کاٹتی ہوئی۔ بس اسی وجہ سے تین دن میں ناول مکمل کر لیا۔ رہ نہیں پایا نہ۔ لکھنے والوں یہی کاوشیں، محنتیں ہمیں تحریروں میں کھینچ کر ڈبو دیتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے انسانی دماغ کس نہج پر جا کر سوچتا ہے! محسوس کرتا ہے اور اس کی حدود ہیں بھی یا نہیں یا پھر ہر آن ایک نئی جست و جہت، نئی اڑان نیا آسمان۔
چشم تصور سے لکھا گیا یہ ناول میرے سامنے وڈیو کی طرح چلا جا رہا تھا یہ سارے کردار میرے سامنے باتیں کرتے گھومتے دکھائی دے رہا میں ان کرداروں اور جگہوں کے ساتھ وہاں گھوم رہا تھا یہ بات مجھے چند برس پہلے جھوٹ اور فلمی تکنیک محسوس ہوتی تھی لیکن چشم تصور کا وا ہونا ایک حقیقت ہے ہم پھر بیتی ہوئی باتیں یا کہانیوں اور قصوں میں بیان شدہ حقائق دیکھنے لگتے ہیں ؛میں سوچ رہا تھا اگر فارسی اشعار یا سطروں کا بریکٹ میں ترجمہ لکھا جاتا تو ناول کا حسن مزید بڑھ جاتا یا پھر یہی اس ناول کی خوبصورتی تھی کہ فارسی تحریروں کو ایسے ہی رہنے دیا جاتا یہی ناول کا حسن تھا۔
میں نینا عادل صاحبہ کے مطالعے کی وسعت، ان کی حساسیت اور سوچ کی عمیق گہرائیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آوازیں سنائی دیں گی آپ کو ناول سے۔ نانا جب کہتے ہیں دوستوں سے مہاتما بدھ سدھارتھ صاحب کے لیے کہ ”اگر صندوق سے باہر رکھ دیا گیا تو فوراً نو دو گیارہ ہو جائیں گے، انسانی آبادیوں میں ان کا جی نہیں لگتا موکش۔
یا پھر کسی جگہ حافظ بولتے سنائی دیں گے آپ کو۔
در پس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند
آنچہ استاد ازل گفت بگو می گویم
یا پھر
بارہا گفتہ ام و بار دگر می گویم
کہ من دلشدہ این رہ نہ بھ بخود می پویم
ایک جگہ آواز سنائی دے گی کہ
جس تہذیب کی تعمیر میں حاکم، اور رعایا، صوفی سنتوں، درویشوں اور دنیا داروں نے خانقاہوں، درباروں، اور بازاروں نے برابر حصہ لیا ہو، اس کا مجموعی مزاج یہ کچھ ہوتا ہے ”۔
پھر کہیں کسی جگہ ایک سرسراہٹ سی سنائی دے گی
ہوا کا ارتعاش بھی بدن کی روئیں روئیں کو وحشت زدہ ہرنی کئی طرح چوکنا اور خبردار کر دیتا ہے۔
اور ایک بوڑھی سی سادہ آواز سنائی دے گی
”یہ مسلمان جن کوئی کٹر کم ہیں؟ ان کے آس پاس پھٹک نہیں سکتی دوسرے مذہب کی مخلوق، البتہ مال میوے اور عورت ذات کے معاملے میں کیا ہندو کیا مسلمان سارے عشق پیشہ ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں“ ۔
آگے کسی ورق پر کوئی نوجوان وجود بات کرتے بولے گا کہ
مکڑیاں اطراف میں جال بن کر اپنے جسم سے خاص قسم کی خوشبو خارج کرتی ہیں، اس خوشبو پر ہوا میں اڑتے پتنگوں کو محبت کا گمان ہوتا ہے اور وہ دعوت عشق اڑانے کی خواہش میں جال کے تاروں میں آ پھنستے ہیں،
ایسی کئی خوبصورت باتیں، جو اپنے اندر ایک حسین دلکش احساس سموئے ہوئے ہیں آپ کو ہر ورق میں پڑھنے کو ملیں گی۔
نینا عادل صاحبہ کو میں بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اس ناول کو تحریر کرنے پر۔
اور توقع ہے کہ دوسرا ناول ایک نئی دنیا اور نیا سنگ میل ثابت ہو گا انشاء اللہ!
- کتاب: پھرتا ہے فلک برسوں۔ 2 (خاکے ) - 25/05/2024
- "چار آدمی” اور ڈاکٹر امجد ثاقب - 22/05/2024
- کتاب : ”چار آدمی“ - 15/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).