کیا عورت کو حقیقی آزادی حاصل ہے؟


خواتین کی آزادی سے مراد خواتین کی سماجی، ثقافتی یا سیاسی اصولوں کی پابندی کے بغیر فیصلے کرنے اور اقدامات کرنے کی صلاحیت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق صنفی مساوات ایک بنیادی انسانی حق ہے اور ایک پر امن و خوشحال اور پائیدار دنیا کے لیے ضروری بنیاد ہے۔ خواتین اور لڑکیاں دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں اور اس کی نصف صلاحیت بھی ہیں۔ عورت کے نقطہ نگاہ کو سمجھنا اور اسے قبول کرنا، تعلیم، بیداری، خواندگی اور تربیت کے ذریعے خواتین کی حیثیت کو بلند کرنا اور انھیں با اختیار بنانا، انھیں زندگی کے فیصلے کرنے کی اجازت دینا اور اظہار رائے کی آزادی ہی میرے خیال میں عورت کی حقیقی آزادی ہے۔

یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں پچھلی صدی عیسوی تک عورت ایک جنس کی حیثیت رکھتی تھی جس کی معاشرے میں کوئی عزت و مقام نہیں تھا۔ پچھلی صدی میں مغرب میں عورت کو آزادی دی تو گئی لیکن اب بھی مغرب میں عورت کو حقیقی معنوں میں آزادی حاصل نہیں ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق وہاں خواتین کو اب بھی کام کی جگہ پر مردوں کے مقابلہ میں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کرنا، بھرتی کے غیر منصفانہ طریقے، کیریئر میں ترقی اور مردوں کے مقابلے میں غیر مساوی تنخواہ جیسے مسائل سے مغرب کی عورت شکار ہے۔

ایسی بہت سی مشکلات کا سامنا تیسری دنیا کی عورت کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کے مقابلہ میں عورتیں بغیر معاوضہ گھریلو اور دیکھ بھال کے کاموں میں تقریباً تین گناہ زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔ انھیں بلا معاوضہ دیکھ بھال اور گھریلو کام کی غیر مساوی تقسیم اور عوامی دفاتر میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب میں عورت کو آزادی حاصل تو ہے لیکن مشرقی عورت کی طرح مغرب کی عورت بھی عام زندگی میں کولھو کا بیل بنی ہوئی ہے۔

” کیتھرین ایک ماں ہے، برمنگھم کے نواحی قصبے ٹپٹن میں اپنی پانچ سال کی بیٹی اور دو سال کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ صبح پانچ بجے اٹھتی ہے۔ اپنے اور بچوں کے کپڑے استری کرتی ہے۔ بچوں کو اٹھا کر انہیں نہلا دھلا کر سکول کے لیے تیار کرتی ہے اور اس دوران خود بھی تیار ہوتی ہے۔ بچوں کو ناشتہ کراتے ہوئے ساتھ خود بھی ناشتہ کر لیتی ہے۔ آٹھ بجے دونوں بچوں کو لے کر گھر سے نکلتی ہے۔ پہلے بیٹے کو ایک نرسری ہوم میں چھوڑتی ہے پھر بیٹی کو اس کے سکول چھوڑتے ہوئے نو بجے سے پہلے وہ اپنے کام پر پہنچ جاتی ہے۔

وہ ایک وکیل کے دفتر میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ آٹھ سال پہلے یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے اس کی اپنے کلاس فیلو سے دوستی ہوئی۔ دوستی سے بات آگے بڑھی تو انہوں نے ایک فلیٹ کرایہ پر لے کر اکٹھے رہنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران دو بچے ہو گئے۔ ایک دن دونوں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا تو اس کا پارٹنر اسے اور بچوں کو چھوڑ کر اپنا سوٹ کیس اٹھا کر کہیں چلا گیا تھا۔ برطانیہ میں نئی نسل زیادہ تر اب شادی کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے پارٹنرشپ اختیار کرتی ہے۔

جب تک ساتھ نبھا اس کو نبھایا اور جب جی بھر گیا تو ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ایسی صورت حال میں بچے ہمیشہ عورت کے پاس رہ جاتے ہیں۔ اس وقت بھی برطانیہ میں ہزاروں اکیلی مائیں بچوں کو پال رہی ہیں، کیتھی بھی ان میں سے ایک ہے۔ تین بجے وہ دفتر سے چھٹی کرتی ہے۔ پہلے بیٹے کو نرسری سے اٹھاتی ہے پھر بیٹی کے سکول کے باہر پندرہ منٹ کھڑے ہو کر اس کے چھٹی ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ بچوں کو سکول سے لے کر وہ گھر واپس آتی ہے۔

سب سے پہلے بچوں کے کپڑے تبدیل کرتی ہے۔ اپنے کپڑے بدل کر بچوں کے لئے لنچ تیار کرتی ہے۔ لنچ کرنے کے بعد وہ بچوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرتی ہے۔ ان کے ساتھ کھیلتی ہے۔ ان کو شام کا کھانا کھلاتی ہے۔ ان کو سلا کر کچھ دیر ٹی وی دیکھتی ہے اور پھر تھک کر سو جاتی ہے۔ ہفتے کو وہ گھر کے لئے خریداری کرتی ہے۔ فلیٹ کی صفائی کرتی ہے۔ اپنے اور بچوں کے کپڑے دھوتی ہے۔ اتوار کو کبھی کبھی بچوں کو کسی پارک یا کسی اور جگہ تفریح کے لیے لے کر جاتی ہے یا پھر گھر رہ کر پورے ہفتہ کی تھکن اتارتی ہے۔

ہفتے کے سات دن کی اس بھاگ دوڑ میں اس کے پاس اپنے لئے بہت کم وقت بچتا ہے جس میں وہ اپنا خیال رکھ سکے۔ دس سال پہلے وہ ایک بہت حسین اور بڑی چلبلی سے لڑکی تھی لیکن تیس سال کی عمر میں اب وہ ایک ادھیڑ عمر کی سنجیدہ عورت نظر آتی ہے۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور آزاد معاشرے کے ملک میں آپ کو کیتھرین کی طرح بہت سی عورتیں ایسی زندگی گزارتی نظر آئیں گی۔“

” زینب کا تعلق سرگودھا کے ایک دور دراز دیہات سے ہے جہاں وہ ایک گاؤں میں اپنے سسرال میں رہتی ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اس کی شادی اس کے تایا زاد سے ہو گئی تھی۔ گاؤں کے سکول سے اس نے پرائمری پاس کی تھی۔ اس سے آگے تعلیم کا گاؤں میں رواج نہیں تھا۔ اس کا سسرال ایک زمیندار گھرانا ہے۔ اس کے دو بیٹے ہیں۔ بیٹوں والی بہو کا سسرال والے زیادہ خیال کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ صبح سحری ہونے سے پہلے اٹھتی ہے۔ دو بھینسوں کا دودھ دوہتی ہے۔

دہی میں مدہانی ڈال کر لسی بناتی ہے۔ اس کے بعد سارے جانوروں کو چارہ ڈالتی ہے۔ گھر کی صفائی کر کے کوڑا اکٹھا کر کے ایک ٹوکرے میں ڈالتی ہے۔ گھر والوں کے لئے ناشتہ تیار کرتی ہے۔ بیٹوں کو سکول کے لئے تیار کرتی ہے۔ اس کا خاوند بچوں کو سکول چھوڑ نے جاتا ہے تو وہ کوڑے کا ٹوکرا اٹھا کر کھیتوں میں جاتی ہے۔ اتنے میں دوپہر ہو جاتی ہے اور وہ دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنے میں لگ جاتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتی ہے۔

کھیتوں سے بھینسوں کے لئے چارہ کاٹ کر لاتی ہے اور خاوند کے ساتھ مل کر مشین پر اسے کاٹتی ہے۔ شام ہونے سے پہلے بھینسوں کو چارہ ڈال کر ان کا دودھ دوہتی ہے۔ بچوں اور خاوند کے پینے کے لیے دودھ علیحدہ رکھ کر باقی دودھ میں صبح والا کڑھا ہوا دودھ ملا کر اسے چاٹی میں جاگ لگاتی ہے۔ شام کا کھانا تیار کرنے اور کھانے کھلانے میں عشاء کا وقت ہو جاتا ہے۔ سب کے لئے بستر بچھا کر وہ شام والے کھانے کے برتن دھوتی ہے۔ برتن دھو کر کر جب وہ اپنی چارپائی پر لیٹتی ہے تو اتنی تھکی ہوئی ہوتی ہے کہ دنیا جہاں سے بے خبر ہو کر سو جاتی ہے۔ آٹھ سال اس کی شادی کو ہوئے ہیں اور چھبیس سال کی عمر میں وہ گاؤں کی الہڑ مٹیار اب ادھیڑ عمر کی عورت لگتی ہے۔“

پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں آپ کو زینب جیسی بیشمار مثالیں ملیں گی۔ شہروں میں صورت حال تھوڑی سی مختلف ہے۔ گو کہ ان دیہاتوں میں بھی جہاں تعلیم عام ہوئی ہے، وہاں صورت حال میں کافی حد تک تبدیلیاں آئی ہیں لیکن بنیادی طور پر ہمارا معاشرے میں عملاً ًمرد کی مرضی چلتی ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عورت کے بارے میں ہمارے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ اسی طرح کیتھرین جیسی مثالیں بھی برطانیہ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مغرب میں بڑی حد تا عورتوں کو آزادی حاصل ہے وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہاں بھی عورتیں کی خود مختاری کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ آزادی حاصل ہونے کے باوجود مغرب میں عورت کا استحصال ابھی تک ہو رہا ہے۔

آزادی کشمیر کی تحصیل ڈڈیال کے گاؤں پچوانا کے لوگ ایک مثالی معاشرہ بنانے کی طرف گامزن ہیں۔ مکالمہ اور معافی کو بنیاد بنا کر ایک مثالی معاشرے کے قیام کی طرف قدم اٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے گاؤں کی سب عورتوں کو ان کے حقوق دے کر مکمل آزادی سے جینے کا حق دینے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ ایک دن گاؤں کے سب مرد حضرات نے اپنے گاؤں کی سب عورتوں کے لیے دعوت کا اہتمام کیا جس میں کھانا بنانے سے لے کر کھانا کھلانے اور برتن سمیٹنے تک کا سارا کام مردوں نے انجام دیا۔

سب عورتیں اس دن مہمان تھیں۔ دعوت کے اختتام پر مردوں نے عورتوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے مردوں کی سب زیادتیوں اور کوتاہیوں کے باوجود انھیں اب تک برداشت کیا ہے۔ اب وہ ان سب کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کا آغاز کر رہے ہیں تا کہ مساوات کی بنیاد پر ایک اچھا معاشرہ گاؤں میں قائم ہو سکے۔

عورت اور مرد کے باہمی اشتراک سے ہی ایک ایسا مثالی معاشرہ بن سکتا ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان رشتہ باہمی عزت و احترام سے قائم ہوا ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں عورتوں کے حقوق کی حفاظت مرد کرے اور اس کو دنیا جہاں کی خوشیاں عطا کرے۔ عورت بھی اپنے فرائض جان کر مرد کا ساتھ دے۔ اللہ تعالی نے سب جاندار نر اور مادہ پیدا کیے ہیں اسی طرح عورت اور مرد بھی ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم ہیں۔ ایک دوسرے سے علیحدہ رہ کر رہا نہیں جا سکتا۔

عورت اور مرد کے درمیان عزت اور احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔ حقیقت میں عورت تبھی آزاد ہو سکتی ہے جب اسے زندگی کے فیصلے کرنے میں ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی ہو۔ جنسی تشدد اور استحصال نہ ہو، اسے کام کرنے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور سرکاری، نجی اور عوامی دفاتر میں امتیازی سلوک نہ ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو۔ اسلام عورتوں کے حقوق کا بہترین تحفظ کرنے کے ساتھ اسے حقیقی آزادی فراہم کرتا ہے۔ کیا ہم اپنے معاشرے میں عورت کو ایسی آزادی دے رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments