چھ سالوں میں چھ سو کالم لکھنے کے چھ راز
چند سال پیشتر جب میں نے اپنا پہلا کالم ’ہم سب‘ کو بھیجا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اگلے چھ سالوں میں چھ سو کالم لکھوں گا۔ ان دنوں میری دوسری ادبی محبوبہ انگریزی سے زیادہ دوستی تھی اسی لیے میں نے پہلا کالم بھی انگریزی میں لکھا تھا۔ اس کالم کے جواب میں وجاہت مسعود کا ادبی محبت نامہ آیا جس میں انہوں نے رقم کیا کہ انہیں میرا کالم پسند آیا ہے اور مشورہ دیا کہ میں اس انگریزی کے کالم کا اردو میں ترجمہ کروا کے بھیجوں۔ اس طرح میرے اپنی پہلی ادبی محبوبہ اردو سے دوبارہ راہ و رسم بڑھے اور اس نے اپنے مشرقی عشوہ و غمزہ و انداز و ادا سے مجھے اتنا مرعوب کیا کہ میں دوبارہ اس کی زلف کا اسیر ہو گیا۔ جب تجدید وفا ہوئی تو پہلی محبوبہ اردو نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ میری دوسری محبوبہ انگریزی سے بہت حسد کرتی ہے۔
میں نے کالم لکھنے شروع کیے تو ان کا سلسلہ دراز ہو گیا۔
کچھ کالم ادبی تھے کچھ فلسفیانہ
کچھ کالم نفسیاتی تھے کچھ سماجی
کچھ کالم جنگ کے بارے میں کچھ امن کے بارے میں
اور کچھ ارتقا اور انسان دوستی کے بارے میں
جند سال پیشتر جب درویش پاکستان آیا اور اپنے مدیر دوست وجاہت مسعود سے ملنے ان کے دولت کدے پر گیا تو ان کی نصف بہتر تنویر جہاں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھتی ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں
آپ بہت مشکل اور دقیق فلسفوں کو عام فہم زبان میں بیان کر دیتے ہیں اور وہ گنجلک فلسفے ہماری سمجھ میں آ جاتے ہیں
پھر انہوں نے وجاہت سے کہا
آپ خالد سہیل کے لیے اپنے ’ہم سب‘ میں ایک خاص گوشہ بنائیں جس میں لوگ ان سے اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں مشورہ کر سکیں۔
اس مشورے کے بعد جب قارئین کے خطوط آتے اور میں ان کے جواب لکھتا تو ہم دونوں خطوط کو ملا کر ایک کالم بنا دیتے۔
خطوط کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ سلسلہ بھی دراز ہو گیا
نفسیاتی مسائل سے بات شروع ہوئی تو قارئین نے اپنے خطوط میں سماجی ’فلسفیانہ اور ادبی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کرنا شروع کر دیا۔
اور پھر ایک بھرپور مکالمہ ہوا۔
’ہم سب‘ پر میرے جن ادبی دوستوں کے ساتھ خطوط چھپے ہیں ان میں رابعہ الربا، سلیم ملک، سارہ علی، ہما دلاور، عبدالستار، نعیم اشرف، مقدس مجید اور حامد یزدانی کے علاوہ اور بھی کئی دوست شامل ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں مجھ سے بہت سے ادبی دوستوں نے پوچھا ہے کہ
آپ اتنے زیادہ کالم اتنی جلدی کیسے لکھ لیتے ہیں؟
اور وہ بھی مختلف موضوعات پر؟
اس کالم میں میں آپ سے چھ سالوں میں چھ سو کالم لکھنے اور اس تخلیقی چشمے کے بارے میں ’جو میرے من میں بہتا رہتا ہے‘ چھ راز شیر کرنا چاہتا ہوں
پہلا راز یہ ہے کہ میں نے ہفتے میں تین صبحیں ادبی کام کے لیے مختص کر رکھی ہیں۔
یہ راز میں نے ایک ماہر نفسیات سے سیکھا۔ وہ ماہر نفسیات خوابوں کی تحلیل نفسی سے اپنے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ ایک دن ایک مریضہ آئیں اور جب ماہر نفسیات نے ان سے ان کا نیا خواب پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ مجھے کوئی خواب یاد نہیں۔ ماہر نفسیات نے انہیں ایک کاغذ اور قلم دیتے ہوئے کہا کہ میں چائے بناتا ہوں آپ ایک فرضی خواب اسی وقت سوچ کر لکھ لیں۔ اس مریضہ نے خواب لکھا اور ماہر نفسیات نے اس کا تجزیہ کیا۔
اس شام جب مریضہ گھر گئی تو یہ سوچ کر پریشان ہوئی کہ اس دن اس نے اپنے ماہر نفسیات کو مایوس کیا۔ اگلے دن وہ بازار سے ایک ڈائری لے آئی اور اس پر لکھا
خوابوں کی ڈائری
اور اسے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔
پھر وہ ہر صبح اٹھ کر اپنے آپ سے پوچھتی
میں نے کل رات کیا خواب دیکھا تھا؟
ڈائری رکھنے سے اسے خواب یاد رہنے لگے اور وہ خوشی خوشی اپنے خوابوں کی ڈائری لے کر اپنے تھراپسٹ کے پاس جانے لگی
میں نے یہ کہانی پڑھ کر سوچا کہ خوابوں اور تخلیقی کاوشوں میں ایک قدر مشترک ہے وہ سب لاشعور سے آتے ہیں۔
چنانچہ میں نے بھی ایک ڈائری خریدی اور اپنے تکیے کے نیچے رکھی اور مجھے بھی اس کا بہت فائدہ ہوا۔
دوسرا راز یہ ہے کہ میں کالم لکھ کر اپنے کسی ادبی دوست کو سناتا ہوں۔ سنانے سے مجھے خود اپنے کالم کی خامیوں کا اندازہ ہو جاتا ہے اور دوستوں کے مشوروں کا بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے قارئین کو میرے کالم پڑھتے ہوئے ایک روانی کا احساس ہو اور وہ کہہ سکیں
خالد کی تحریروں میں
لفظوں کے اور خوابوں کے
دریا بہتے رہتے ہیں
میں اپنے کالموں میں ابلاغ کو بہت اہمیت دیتا ہوں اور مشکل الفاظ اور تراکیب استعمال کرنے سے احتراز کرتا ہوں۔
تیسرا راز یہ ہے کہ جب میں اپنے مریضوں کا علاج کر رہا ہوتا ہوں تو اگر کوئی سبق آموز دلچسپ واقعہ پیش آ جائے تو میں ان کے مسئلے کو ان کی اجازت لے کر رقم کر لیتا ہوں اور بعد میں اس کا کالم بنا لیتا ہوں۔ اس طرح قارئین اس مسئلے اور اس کے حل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
چوتھا راز یہ ہے کہ جب میں طبع زاد تخلیقی کام نہیں کر رہا ہوتا تو میں عالمی ادب کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہوں ایسا ادب جس میں فکشن اور غیر فکشن دونوں شامل ہیں۔ اور اگر مجھے کوئی افسانہ یا مضمون بھا جائے تو میں اس کا ترجمہ کر لیتا ہوں تا کہ ’ہم سب‘ کے وہ قارئین بھی اس فن پارے سے مستفید ہو جائیں جو انگریزی ادب نہیں پڑھتے۔ اس طویل فہرست میں
سرخ فام انڈین چیف سیاٹل کی تقریر
کافکا کا افسانہ
سارتر کا ڈرامہ
البرٹ کیمو کی نوبل تقریر
اور ورجینیا وولف کا خواتین سے خطاب شامل ہیں
پانچواں راز یہ ہے کہ اب میں نے مختلف موضوعات پر مختلف کالموں کی یک سطری فہرست بنا رکھی ہے۔ وہ فہرست میری ڈائری میں موجود ہوتی ہے۔ رات کو سونے سے پہلے میں وہ فہرست دیکھتا ہوں اور ایک موضوع کو پسند کر کے سو جاتا ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرا لاشعور رات بھر میرے لیے میوس کا کام کرتا ہے اور صبح اٹھ کر میری میوس مجھے نئے کالم کا تحفہ دیتی ہے جسے میں رقم کر لیتا ہوں۔
چھٹا راز یہ ہے کہ میں چند مہینوں کی چکی کی مشقت اور اپنے کلینک میں اپنے مریضوں کی خدمت کے بعد چند دن یا چند ہفتوں کی چھٹی لے لیتا ہوں اور نامکمل تخلیقی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہوں۔
اسی لیے میں نے کلینک سے چند ہفتوں کی چھٹی لی ہے تا کہ ادھورے پروجیکٹ مکمل کر سکوں اور پاکستان کے ادبی دوستوں سے مل سکوں۔
پاکستان میں میرے میزبانوں کی فہرست طویل ہے جو میرے لیے ادبی محفلوں کا انتظام و اہتمام کر رہے ہیں۔ ان میزبانوں میں
لاہور کے سانجھ پبلشر امجد سلیم، سید عظیم، مقدس مجید اور فرحت پروین
کراچی میں ایاز مورس اور شاہد رسام
اسلام آباد میں عنبریں عجائب اور بلیک ہول تنظیم کے دوست
میاں چنوں میں عبدالستار اور
شیخوپورہ کے ڈاکٹر سید زاہد
شامل ہیں۔
میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت ادیب سمجھتا ہوں کیونکہ میں اکثر ’ہم سب‘ کے دوستوں کی محبت کی بارش میں اندر تک بھیگ جاتا ہوں۔
نوٹ۔ اگلے چند ہفتے میں کالم نہ لکھ سکوں گا اس لیے پیشگی معذرت پیش کرتا ہوں۔ عین ممکن ہے اس دوران عدنان کاکڑ میرے چند پرانے کالم آپ تک پہنچا دیں۔
- کیا آپ باچا خان کی خدمات سے واقف ہیں؟ - 09/10/2024
- ہم اپنی دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچیں؟ - 06/10/2024
- مشتاق احمد یوسفی کا پہلا عشق - 03/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).