چھانگا اور چیف


Loading

ڈھاڈر کے مین چوک میں، ہمارے گھر اور مارکیٹ کے سامنے، جہاں سندھ نصیرآباد سبی سے کوئٹہ جانے والی ہر بس اور ویگن رکھتی۔ وہاں چھانگا نامی ایک ہندو نے عجیب کاروبار شروع کیا۔ اس نے کیکر کے بلند و بالا گھنے درخت کے نیچے درجن بھر نئے نکور مٹکے رکھے۔ رات کو ان میں پانی بھر دیتا اور صبح پہلی بس کے آتے ہی جگ بھر کر، ایک کلاس اٹھا کر بس کی کھڑکیوں سے مسافروں کو ٹھنڈا ٹھار پانی پلاتا۔ وہ کسی سے کچھ نہ مانگتا بلکہ یہی کہتا کہ پانی پلاتا تو ثواب کا کام ہے۔

ان دنوں غربت بہت تھی پھر بھی چند مسافر اسے دو چار سکے دے ہی دیتے۔ یعنی ایک پھیرے پر وہ دو تین روپے کما لیتا۔ بس کے جانے کے بعد وہ پھر اپنے مٹکوں پر پانی ڈالتا۔ ان پر بوریاں چڑھاتا آس پاس کی جگہ پر پانی کا چھنکار کرتا اور صبح سے شام تک ہر آنے والی بس یا ویگن پر دوڑ دوڑ کر پہنچتا اور گرمی اور پیاس سے ہلکان مسافروں کو پانی بلاتا۔

پھر ایک صبح چوک میں چھانگے نے شور مچا مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ کسی نے رات اس کے دو مٹکے توڑ دیے ہیں۔

ان دنوں ڈھاڈر میں اپنا وقار بھی اتنا ہی تھا جتنا آج کل پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ چھانگے سمیت سارے چوک والے اس بات پر متفق تھے کہ یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا۔ بہرحال تمام لوگ ایک جرگے کی شکل میں دادا کے پاس پہنچے اور بنا دیکھے، مکمل یقین کامل کے ساتھ مجھ پر اس حرکت کا الزام لگایا گیا۔

مجھے گھر سے بلوایا گیا۔ سب لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے آج کل کسی کے اغوا ہونے، الیکشن ہارنے یا لڑکی کے بھائیوں سے مار پڑنے پر کسی ایک ادارے کی جانب دیکھا جاتا ہے۔

سب نے گواہی دی کہ ڈھاڈر میں، اور خاص کر شاہی چوک کے علاقے میں کوئی بھی شرارت ہوتی ہے تو اس میں اس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے جیسے آج کل انڈیا افغانستان ایران میں ہونے والے کسی بھی واقعے پر سینگھوں والے بکرے کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

بس پھر دادا نے مجھے بھی بکرا سمجھ کر بلی چڑھا دیا۔ میرے انکار کے باوجود میری بالکل ویسی ہی عزت افزائی کی گئی جیسی آج کل بے دین لوگ جلسوں میں حافظ صاحب کی کرتے ہیں۔ دادا نے تاوان کی رقم سکہ رائج الوقت مبلغ بیس روپے نکال کر چھانگے کو دیے اور ایسے شرمندہ سے لہجے میں معذرت کی جیسی کل سیکریٹری والے قصے کے بعد مریم اورنگ نے پریس کانفرنس کی تھی۔ پھر دادا نے مجھے محفل سے نکل جانے کا حکم دیا۔

میں بے گناہ ہونے کے باوجود اتنا بھی نہ بول سکا کہ ”مجھے کیوں نکالا“ اور خاموشی سے باغات کی طرف نکل گیا۔

شدید گرمیوں کی راتیں تھیں اور میں چھت پر اکیلا سوتا تھا۔ رات کے پچھلے پہر میں چھت سے مین روڈ کی طرف اترا۔ چھانگے کے اڈے پر پہنچا اور غصے میں اس کا ایک مٹکا اٹھاتا اور دوسرے پر پٹخ دیتا۔ یوں میں نے اس کے تقریباً چھ اٹھ مٹکے چکناچور کر دیے۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔ اذان دینے جاتے قاری صاحب نے یہ دھماکے سنے کو اس طرف چلے آئے۔ مجھے دیکھ کر حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ میں خونخوار لہجے میں کہا کہ اپنے کام سے کام رکھو اس نے مجھ کر ناحق الزام لگایا اور ذلیل کروایا اس کا بدلہ لے رہا ہوں۔ تم بھی خاموش رہنا ورنہ کل مسجد جاتے کوئی تمہارے سر میں اینٹ نہ مار دے۔

صبح ہوئی۔ چھانگا اپنے اڈے پہنچا۔ مٹکوں کا حال دیکھ کر اس نے اپنے یاروں دوستوں سے مشورہ کیا۔ لیکن اس دن کوئی شور نہ مچا۔ کسی نے دادا کو شکایت نہ لگائی۔ میں بہانے بہانے سے کئی بار دادا کی دکان پر گیا۔ لیکن وہاں مکمل امن شانتی رہی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ شام کو چھانگے کے اڈے کے سامنے سے گزرا۔ اس نے مجھے دیکھا تو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ میں چونکہ پندرہ سال کی عمر میں ہی پانچ فٹ نو انچ اور مضبوط جسم کا مالک تھا، تو ذہنی طور پر لڑائی کو تیار ہو کر اس کے قریب پہنچا۔ اس نے دودھ پتی کا گلاس میرے سامنے کیا اور بڑے پیار سے بولا۔ بیٹھو بابو چائے پیو۔ چائے ختم کرنے کے بعد اس نے مجھے ایک روپیہ دیا کہ کرکٹ کا بال لے لینا۔

اب بھی ملکی حالات بالکل میرے قصبے ڈھاڈر جیسے ہیں ایک ہندو اپنے ساتھ وکیل استاد دکاندار اخباری نمائندے میڈیا اور سول سوسائٹی کو ملا کر روز آپ پر چڑھ دوڑتا ہے۔ آپ بھی اگر اب یہ سوچ لیں جو کام میں کیا نہیں اس کے الزام میں ذلیل ہو رہا ہوں تو کیوں نہ سارے مٹکے ایک ہی بار پھوٹ دوں۔ یقین کریں وہ چھانگے کی طرح دودھ پتی چائے اگر نہ بھی پلائیں لیکن آپ کو حافظ حاجی ضرور کہنا شروع کر دیں گے۔ کبھی کبھی انسان کو کچھ ایسا کام ضرور کرنا چاہیے کہ لوگوں کو احساس ہو کہ پہلے جو کم نقصان ہوا تھا وہ کام اس نے نہیں کیا ہو گا۔

ویسے بھی ہماری قوم اخلاقیات کا درس نہیں بلکہ ڈنڈے کی مار کو بہتر انداز میں سمجھتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

اوپر سے اتری چار کتب، ساتھ اترا سوٹھا
چار کتب نے کچھ نہ کیا، جو کچھ کیا سوٹھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments