اس قوم کا یہی مقدر ہے
شاید آپ بھی میری طرح پریشان ہوں گے کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ کیا کسی کو بھی ملک کی فکر نہیں ہے؟ سوچا تھا الیکشن کے بعد ملک میں استحکام آئے گا نئی حکومت بنے گی، ملک کو جو بریک لگی ہے شاید چل پڑے گا، اسمبلیاں ویران ہیں ٹی وی سکرینوں سیاسی اکھاڑے بنے ہیں یہ سلسلہ ختم ہو گا اور ملک میں منتخب حکومت آئے گی، ملکی بھاگ دوڑ سنبھالے گی، لیکن الیکشن کے بعد ملک میں استحکام آنے کی بجائے مزید عدم استحکام بڑھ گیا ہے، ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، کوئی سیاسی جماعت وفاق میں حکومت بنانے کو تیار نہیں۔
کافی حد تک بات ان جماعتیں کی بھی ٹھیک ہے جب کسی کے پاس اکثریت ہی نہیں تو حکومت کیسے بنائے؟ وہ جس کو منتیں کر کے لایا گیا اس نے انتخابی جلسوں میں چیخ چیخ کر کہا میرے دور میں دس، دس روپے کلو سبزیاں ملتی تھیں، چینی 50 روپے کلو، پیٹرول 65 روپے لیٹر، ٹریکٹر 8 لاکھ کا تھا اور ڈالر 104 روپے کا تھا۔ میں یہ دور دوبارہ واپس لاؤں گا لیکن قوم نے اس کی باتوں کو نظر انداز کر کے اس کو باتوں کو سنجیدہ لیا جو دن رات کہتا رہا میرے خلاف امریکہ نے سازش کردی، پھر اسی نے امریکہ سے اپنے لیے مدد مانگ لی، وہ تو یہ بھی کہتا تھا میں ٹماٹر پیاز کے ریٹ دیکھنے کے لئے وزیراعظم نہیں بنا تھا، میں تو تمہیں خود دار قوم بنانا چاہتا تھا جبکہ اس نے ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ 45 ہزار ارب کا قرض لیا۔
پھر لوگوں نے اسی کی باتوں پر یقین کیا۔ کیونکہ قوم کا مزاج بدل چکا ہے۔ یہ قوم اوئے توے کی سیاست کی پجاری بن چکی ہے اس کو دس، دس روپے کلو سبزیاں دینے والا وزیراعظم نہیں بھڑکیں مارنے والا وزیراعظم چاہیے، چاہے بدلے میں وہ ان کا قیمہ ہی کیوں نا کردے، ان کا چولہا کیوں نہ بند کردے، کیونکہ اب لوگوں کو اچھی کارکردگی والا نہیں اچھی تقریریں والا وزیراعظم چاہیے۔ پہلے وہ کہتا تھا میں ریاست مدینہ بناؤں کا اب کہتا ہے میں فتح مکہ ماڈل بناؤں گا۔
اس کو مادر پدر آزادی ہے وہ مذہب کے معاملے میں جو چاہیے بولے۔ کوئی مولوی، مفتی یا عالم دین اس پر فتوی جاری نہیں کرتا جبکہ پہلے والے وزیراعظم کے خلاف اس لیے فیض آباد میں دھرنہ دے دیا گیا کیونکہ اس کی جماعت نے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت والے خانے میں قسم کی جگہ حلف نامے کی شق کیوں پاس کی جبکہ آج بھی اس کے فارم نمبر نو میں ختم نبوت کا حلف نامے کا خانہ ہی بنا ہے۔ کچھ مذہب کے ٹھیکیداروں کا ایمان اسی پر جاگا کہ انہوں نے اس پر لاہور کی جامعہ نعیمہ میں جوتا پھینک دیا۔
پھر اس کے وزیر داخلہ کو گولی مار دی اس کی خوش قسمتی وہ بچ گیا، اس کے وزیر دفاع کے منہ پر سیاہی ڈال دی۔ لیکن آج والا خود کو خدا کا اوتار بھی کہلوائے تو کوئی مذہب کا ٹھیکیدار آواز نہیں اٹھائے گا کیونکہ آج وہ سنی، شیعہ، دیوبند، اہلحدیث سمیت تمام فرقوں کی مذہبی جماعتوں کا پسندیدہ لیڈر بن گیا ہے اسی بہانے وہ بھی خوش ہو رہی ہیں۔ اس کو اب اس قوم کی نبض کی سمجھ آ چکی ہے، وہ قوم کو مذہب کارڈ، حب الوطنی کارڈ، غداری کارڈ، مظلومیت کارڈ، غنڈہ کارڈ سب سے ورغلا رہا ہے اور قوم اس کے جھانسے میں پھر آ گئی ہے۔
پہلے اس نے سینہ تان کر ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کے نعرے لگائے پھر کہا وہ تو سیاسی نعرے تھے۔ قوم نے اس کا بھی یقین کر لیا۔ پھر اس نے کٹے وچھے، مرغیاں اور انڈوں سے قوم کی قسمت بدلنے کا اعلان کیا، قوم اس پر بھی یقین کر لیا۔ وہ جب چاہے جس بات پر یوٹرن لے وہ اس کو ثواب سمجھتا ہے۔ وہ کسی کو فضلو کہے، چپڑاسی کہے، ڈاکو کہے یا دہشتگرد یا شوز باز کہے لیکن جب مطلب ہو تو چاہے اسی کو باپ بنا لے، قوم اس پر بھی یقین کر لے گی کیونکہ وہ خود کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ اپنے علاوہ سب کو چور ڈاکو اور غدار سمجھتا ہے۔ قوم اس پر بھی یقین کر لیتی ہے۔ جس قوم کے سمجھنے سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جائے اس کا مقدر یہی ہونا تھا جو آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
- عمران کی سیاست وزیر اعظم ہاؤس یا سڑکیں - 25/11/2024
- کیا ٹرمپ حقیقی آزادی دلائے گا؟ - 07/11/2024
- بیرون ملک چیف جسٹس (ر) فائز عیسی سے بدتمیزی - 31/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).