دلوں کے طبیب ڈاکٹر خالد سہیل کی میرے شہر میاں چنوں آمد


Loading

حقیقت میں وہ شخص ”بڑا یا عظیم“ کہلائے جانے کا مستحق ٹھہرتا ہے جو دوسروں کو اکنالج کرنا سیکھ جاتا ہے، خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرتا ہے۔ ججمنٹل ہونے کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے خود کی رائے یا فلسفہ حیات زبردستی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا۔

ایسے شخص کے اندر اس قدر حوصلہ، ظرف، کشادہ دلی اور بلند نظری کی سی خصائص پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ خود کچھ کہنے یا بولنے کی بجائے دوسروں کو بولنے کا موقع فراہم کرنے لگتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ کا محور اس شخص کو بنا لیتا ہے جو اس کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

اس قسم کا گوہر نایاب زندگی کے ایک ایسے پڑاؤ میں داخل ہو جاتا ہے کہ جہاں خاموشی، تنہائی اور دانائی اکٹھی ہو جاتی ہیں، دانائی اور حکمت کا سمندر ایک ساتھ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور ایسا شخص ہر وقت کچھ نا کچھ نیا، منفرد یا کچھ ایسا جو ذرا سا بھی ہٹ کے ہوتا ہے کی تلاش میں محو یا مستغرق رہتا ہے۔

وہ دنیا کی کتابوں سے دانائی کشید کر لینے کے بعد رنگ، نسل، مذہب اور ذاتیات سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کے انسانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے لگتا ہے، ان سے ڈائیلاگ کرتا ہے اور ان کے ذہنوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔

ایسا شخص لوگوں کو بتاتا ہے کہ ہر دور کا اپنا سچ ہوتا ہے اور ہر انسان چونکہ منفرد ہوتا ہے اسی بنیاد پر ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے سچ کا احترام کرنا چاہیے بھلے ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چونکہ معاشرے امن و آشتی اور باہمی احترام سے آگے بڑھتے ہیں جنگ و جدل سے نہیں۔ بدقسمتی سے ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں اس قسم کا کوئی چلن ہی نہیں ہے، ہمارے ہاں کے پیمانے دنیا بھر سے الگ ہیں، یہاں انسانوں کو صرف اور صرف گناہ یا ثواب کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔

یہاں یا تو متقی و پرہیزگار بستے ہیں یا گناہ گار و شیاطین، تیسرا کوئی نہیں۔
اب بھلا دو انتہاؤں کے بیچ جھولتے سماج میں ڈائیلاگ یا باہمی احترام کیسے پنپ سکتا ہے؟

اس قسم کے سماج میں تو نفرتوں، کدورتوں اور کسی بھی طرح سے دوسروں کو کچلنے کی سی مکروہ خصلتوں کا جمعہ بازار لگا رہتا ہے۔

جہاں انسانوں کو پرکھنے کا پیمانہ صرف اور صرف مذہب ہوتا ہے وہاں برداشت کی سطح نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں انسان ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں اور زومبیز کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

بات چیت کا کلچر ختم ہو چکا ہے، ذرا سی بات پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں اور انسانی جان اس قدر سستی اور بے قیمت ہو چکی ہے کہ لوگ سوچنا ہی ترک کر چکے ہیں اور ذرا سے بہکاوے میں آ کر کے ایک زندہ انسان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں۔

یہاں کے متقی و پرہیز گاران بندے اور رحمان کے بیچ مداخلت پر اتر آتے ہیں اور خدائی اختیار کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اسی وقت گنہگار کی قسمت کا فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔

اب ایسے میں پیار محبت، امن و آشتی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے یا گنجائش دینے کی بات کون کرے؟

لیکن آج بھی کچھ انسان ایسے ہیں کہ جن پر انسانیت فخر کر سکتی ہے، مثلاً ہمارے ہاں کے عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور دنیا بھر کے وہ ہزاروں سائنسدان، ریسرچرز، ڈاکٹرز اور ہیومنسٹ جو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کے انسانوں کو اپنا علمی ورثہ منتقل کر رہے ہیں، ویکسین اور مختلف ادویات کی صورت میں انسانی زندگیوں میں آرام و راحت اور آسودگی لانے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں۔

انہی میں سے ایک گوہر نایاب جناب ڈاکٹر خالد سہیل بھی ہیں جو گزشتہ 40 سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔

معروف سائیکائٹرسٹ ہیں اور ایک طویل عرصہ سے انسانی ذہن کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل ہیں اور ہر وقت انسانی دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

ان کو میں نے مرشدی وجاہت مسعود کی معروف ویب سائٹ ”ہم سب“ پر سے دریافت کیا تھا۔ غالباً 2016 کے آس پاس ان کا پہلا مضمون میری نظروں سے گزرا جو ہم سب پر شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے چار ”سچ“ کا تذکرہ کیا تھا۔ روایتی سچ

غیر روایتی سچ
مذہبی سچ
اور سائنسی سچ

یہ مضمون اس قدر دلچسپ اور گہرا تھا کہ جس نے میرے ذہن میں ایک طوفان سا برپا کر دیا اور میری ساری کی ساری ذہنی عمارت، فلسفہ و فکر دھرے کا دھرا رہ گیا۔

بس پھر کیا تھا میری جستجو نے ڈاکٹر خالد سہیل کو کھنگال ڈالا، جہاں جہاں ان کے متعلق جو کچھ بھی ملا پڑھ ڈالا۔

دل و دماغ میں ایک خواہش نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ ڈاکٹر سہیل سے دو بدو ملا جائے مگر سات سمندر پار کینیڈا کون جائے؟

بالآخر 2017 غالباً فروری کے مہینے میں ڈاکٹر سہیل پاکستان تشریف لائے انہوں نے مجھے لاہور میں اپنی پیاری اور کیوٹ سی بہن عنبرین کوثر کے گھر مدعو کر لیا، جہاں کم و بیش اڑھائی سے تین گھنٹے تک ہماری ملاقات رہی۔

اس ملاقات کی خاص بات یہ رہی کہ جہاں ہم نے اپنے طبیب کا جی بھر کے دیدار کیا وہیں عنبرین کوثر نے ہمارے لیے مزے مزے کے کھانے بنائے اور ہماری خوب مہمان نوازی کی، جس کی مٹھاس اور اپنائیت ہم آج تک نہیں بھول پائے۔

اس پیارے سے گھر کی خاص بات جو آج بھی مجھے متحرک کیے رکھتی ہے وہ یہ تھی کہ ہمارا ادبی جنم اسی گھر میں ہوا تھا۔

مطالعہ کرنے کا تو خاصا ذوق تھا لیکن لکھنے کی طرف طبیعت کبھی مائل نہیں ہوئی تھی۔

جب ڈاکٹر سہیل سے ملا تو انہوں نے مجھے لکھنے کا مشورہ دیا جسے میں خاصے دنوں تک صرف نظر کرتا رہا لیکن ڈاکٹر صاحب کا اصرار جیت گیا اور ہمارا انکار ہار گیا اور آج فروری 2024 تک میں 372 بلاگ لکھ چکا ہوں جو ”ہم سب“ پر باقاعدگی سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔

میں ڈاکٹر صاحب کو اپنی ”رائٹنگ میوس“ کہتا ہوں جن کی موٹیویشن سے میں چارج ہوتا رہتا ہوں۔

جنوری 2024 کے آغاز میں دلوں کے طبیب نے کینیڈا سے مجھے اطلاع دی کہ میں مارچ کے مہینے میں آپ کے ہاں میاں چنوں میں تین دن قیام کرنا چاہتا ہوں، پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا کہ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

کہاں وہ اور کہاں ہم؟

ہم تو ابھی پوری طرح سے خود کو تعمیر بھی نہیں کر پائے، محرومیوں در محرومیوں اور سماجی نا انصافیوں کے مارے ہوئے، جن کا بچپن تک روایتی بندوبست یا قدغنوں نے بڑی ہی بے رحمی سے روند ڈالا تھا۔

اب کہیں جا کے شعور کی آنکھ کھلی ہے تو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اس بے رحم سماج میں اپنے سچ کا دیانتداری سے اظہار کیسے کریں؟

اپنے اندر کے حقیقی سچ کو کتنے مصلحتی لحافوں میں لپیٹ لپاٹ کے پیش کریں کہ ہمیں کچھ تو ذہنی آسودگی ملے؟

لیکن یہاں کی مٹی یا خمیر میں ہی تشدد، نفرت اور نجانے کون کون سی کدورتیں شامل ہیں؟ لگتا ہے باقی کی زندگی اسی حساب کتاب میں بسر ہوگی کہ کن استعاروں، فریزز یا جملوں کا سہارا لیا جائے کہ اپنے اندر کے سچ کو ملفوف سے انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکیں؟ ہائے! ہم کس سماج میں پیدا ہو گئے کہ جہاں آپ دیانتداری سے اپنا سچ بھی پیش نہیں کر سکتے، جہاں شعور کو بھی چھپا کے رکھنا پڑتا ہے۔

خیر ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا سے میرے ہاں تشریف لائے، مہمان نوازی کا موقع فراہم کیا اور ہم نے بھی جی بھر کے یہ علمی ساعتیں انجوائے کیں۔ سرزمین میاں چنوں میں کم و بیش تین سو افراد سے ان کا انٹریکشن ہوا، کچھ تعلیمی اداروں میں ڈاکٹر سہیل نے اپنی گرین زون فلاسفی متعارف کروائی اور طلباء و طالبات کو ذہنی بیماریوں بارے آگاہی دی۔ ان تعلیمی پروگرام کی خصوصیت یہ رہی کہ آخر میں بچیوں نے ڈاکٹر سہیل سے مختلف سوالات پوچھے جن کی ہمیں توقع بالکل بھی نہیں تھی۔

تیسرے روز ڈاکٹر صاحب میرے تعلیمی ادارہ ”دی ویژن“ میں تشریف لائے جہاں میں نے انہیں وہ جگہ دکھائی جہاں بیٹھ کر ہم نے ان کے ایک ٹی وی پروگرام ”ان سرچ آف وزڈم“ کے 36 علمی پروگرام ٹرانسکرائب کیے تھے، جسے بعد میں ”دانائی کا سفر“ کے نام سے ایک کتاب کی شکل دی گئی جسے سانجھ پبلیکیشن لاہور والوں نے شائع کیا تھا۔

ڈاکٹر سہیل بڑی محبت سے میری نشست گاہ پر بیٹھے اور ایک پیاری سی تصویر بنوائی۔ اگر کوئی مجھ سے چند لائنوں میں ڈاکٹر سہیل کی شخصیت کا مجموعی خلاصہ پوچھے تو میں بس اتنا کہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے حصے کا سچ انتہائی دیانتداری، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

جہاں سے وہ آئے ہیں وہاں اپنے سچ کو چھپا کے رکھنے کا کوئی چلن ہی نہیں ہے اسی لیے شاید صاف گوئی کے ساتھ وہ سب بلا خوف کہہ سکتے ہیں جس کی ہمارے گھٹن زدہ سماج میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments