بے شرم
چند روز قبل ہم لاہور سے کلر کہار جا رہے تھے میں، امی اور اسمرہ میری بیٹی یہ ہم دونوں کی اسمرہ کی پیدائش کے بعد پہلی سیر تھی، سکیکھی کے قیام و طعام والے حصے میں ہم کچھ دیر کے لیے ٹھہرے تو سوچا کیوں نہ کچھ کھایا جائے، سامنے ہی امی کے پسندیدہ فاسٹ فوڈ کا آؤٹ لیٹ تھا ہم وہاں سے کھانے کا سامان لے کر کھلے ہوئے حصے میں بیٹھ گئے۔
جوں ہی ہم نے کھانے کا پیک کھولا کوئی پندرہ بیس کوے ہمارے قریب آ گئے ہمیں شکار کی طرح دیکھنے لگے امی کو یہ منظر دلکش لگا انہوں نے ایک ٹکرا ان کی طرف اچھالا، تو ایک کوے نے جلدی سے وہ اپنی چونچ میں بھر لیا، امی کچھ دیر تک دیکھتی رہیں پھر کہنے لگیں دیکھو یہ سارا کھانا جمع کر رہے ہیں اپنے بچوں کے لیے، ان کے کہیں نزدیک ہی چوزے ہوں گے، میں نے امی سے کہا لیکن یہ تو اب لالچ میں آ گئے ہیں۔
امی کہنے لگیں بچے کے لیے ہر ذی روح لالچ میں آ جاتا ہے انسان بھی تو صرف اپنے بچوں کو ہی سوچتا ہے۔
میں بھی تو سارا وقت اپنے بچوں کو سوچتی ہوں جمع کرتی ہوں اور اب تم اپنی بیٹی کے لیے کرو گی یہ ہی فطرت ہے، خدا نے ماں کو بنایا ہی ایسا ہے۔ کیا تم حضرت حاجرہ کو بھول گئی؟ وہ بھی تو اپنے بچے کے لیے دوڑنے لگی تھیں، زم زم اس کی نشانی ہے ماں اور بچے کی کہانی۔
امی کی اس بات سے میں سوچنے لگی گہری سوچ میں چلی گئی ان بچیوں کو جو ہمیں کراچی ائرپورٹ پر ملی تھیں۔ عید سے قبل ہم لاہور سے کراچی آ رہے تھے میری بیٹی جب دو ماہ کی تھی۔
جس وقت ہم سامان لینے کے لیے تیز تیز قدم بڑھا رہے تھے تو ہمارے ساتھ ہی ایدھی کی وردی میں دو افراد دو بچیوں کے گود میں تھامے ہوئے ہمارے آگے جا رہے تھی، ہم نے ان سے بچیوں کے بارے میں سوال کیا یہ بچیاں کہاں سے کہاں سے جا رہی ہیں؟ وہ کہنے لگے یہ راولپنڈی کے جھولے کی ہیں اور اب یہ کھارا در والے مرکز میں جا رہی ہیں۔
ایک بچی دیکھنے میں تقریباً سات ماہ کی لگ رہی تھی دوسری بچی بمشکل دو دن کی ہو گی۔
میری زندگی کا یہ پہلا موقع تھا جب میں جھولے کے بچوں کو دیکھ رہی تھی، وہ دونوں افراد بچیوں کو بہت پیار سے سنبھال رہے تھے جیسے اچھی سمجھدار نرس سنبھالے، ان کے پاس بچوں کی ضرورت کا تمام سامان تھا کندھے پر ڈائپر بیگ لئے وہ تیز رفتاری سے سامان کی وصولی کے لئے جا رہے تھے۔
ایک بچی نومولود تھی اتنی چھوٹی کے ماں ساتھ نہ ہو توبھی بچے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ابھی تو اسے کوئی بھی دودھ پلا دے تو وہ دوبارہ سو جائے۔ مگر دوسری بچی جو سات سے آٹھ ماہ کی تھی وہ مسکرا رہی تھی اونی ٹوپی گلاب جیسا رنگ، چمکدار آنکھیں آخر کیسے اس کو چھوڑ کر گئے ہوں گے؟
اتنے دنوں کا ساتھ تو اگر کسی جانور کا بھی ہو تو وہ جدا نہیں کیا جاتا پھر کوئی کیسے بچے کو جھولے میں رکھ گیا۔ میں تو ان والدین کے فیصلے پر ہی حیران رہ جاتی ہوں جو اپنے بچے نانا نانی، دادا دادی کی گود میں ڈال کر نئی شادی کر کے بچوں کو عزیزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی انفرادی خوشی پہ بچے کو قربان کر دیتے ہیں۔
یوں جھولے میں ڈالنے کے بعد ماں کس حالت میں ہو گی، خدا جانے وہ کہاں ہو گی؟ ہوش میں بھی ہو گی یا نہیں؟ کیا معلوم زندہ بھی نہ ہو؟
ہزاروں سوال تھے جو کئی روز دماغ میں گھومتے رہے۔ ایک بچہ کس قدر دشواری اور تھکن کے بعد اس دنیا میں آتا ہے، کوئی مرد اس بات کو کبھی سمجھ نہیں سکتا، شاید وہ سوچ ہی نہیں سکتا کے عورت پہ کیسی تکلیف ہے۔ وہ اس وقت بھی موبائل میں مصروف ہو سکتا ہے، سیاسی بحث، دفتری بک بک اور گھر پر بچے کے دنیا میں آنے کا منتظر ہو سکتا ہے چونکہ وہ اس درد کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا، جو ایک عورت برداشت کرتی ہے لیکن ماں کے لیے بچہ اس کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے پھر کیسے کسی کا بچہ جھولے تک پہنچ جاتا ہے؟
آخر کیسے اتنی تکلیف سہنے کے بعد اپنی اولاد کو اپنے آپ سے الگ کر سکتا ہے؟
کیا معلوم ان بچیوں کو صرف بچی ہونے کی سزا میں جھولے میں ڈال دیا ہو؟ ان بچیوں کی ماں مر گئی ہو؟
یا ان کے ماں باپ کے پاس ان کو پالنے کے لیے پیسے نہ ہوں، یا پھر وہ کسی گناہ کی یادگار ہوں۔
کچھ بھی ہو کوئی کیسے اپنے آپ سے اپنی اولاد دور کر سکتا ہے؟
ہم نے ان معصوم بچوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے جو ٹوٹے ہوئے رشتوں کی نشانی ہیں اور دوسروں کے گھروں پر بوجھ کی طرح ہیں، ایسے بچے نفسیاتی مریض اور کج فطرت ہو جاتے ہیں ان کے عزیز انہیں خراب کر دیتے ہیں پھر وہ جن کو یتیم خانے میں بھیج دیا گیا وہ کس طرح کے انسان بنیں گے؟
- پاکستان کی سب سے بڑی تفریح: جلسے اور دھرنے - 29/12/2024
- چار بیرنگ خط جو کوئٹہ نہیں پہنچے - 03/11/2024
- بے شرم - 08/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).