ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، وجوہات اور ممکنہ حل


دنیا کو اس وقت جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے وہی ایک بڑا مسئلہ ماحولیاتی  تبدیلی کا ہے جو اس وقت بہت تیزی سے دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے دور میں یہ دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنااس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔
عالمگیر ماحولیاتی صورتحال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیاہے کہ گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ
”مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔
اس سارے صورتحال میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے صف اول کے ممالک میں سے ہے جس کی تازہ مثال صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں جاری حالیہ بارشیں، سال 2022 میں سندھ اور بلوچسان میں ہونے والی شدید بارشیں اور 2010  کا تباہ کن سیلاب  ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئے علاقوں میں گرمی پد 50 ڈگری سینٹی گریڈ تا جا پہنچا۔ اس سال بھی پاکستان میں شدید بارشوں میں محض دو ہفتوں میں 50 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں جس میں ماحولیات کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کے جدید سسٹم کا نہ ہونا اور فرسودہ انفراسٹرکچر بھی ذمہ دار ہے۔ یہاں کے حکمران طبقے نے کبھی بھی جدید انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی  اسی طرح کراچی، لاہور  سمیت کئی اور شہر انتہائی فضائی آلودگی کی زد میں ہیں جہاں سانس لینا بھی دشوار بن چکا ہے۔
وجوہات:
یہ ماحولیاتی تبدیلی اچانک سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی بلکہ اس کی اصل ذمہ دار حکمران طبقہ اور موجودہ نظام سرمایہ داری نظام ہے۔ جس میں مشین کا بے تحاشہ استعمال تیل ، گیس اور کوئلے کا ٹرانسپورٹ اور صنعتوں میں استعمال اور اسکے  نتیجے میں زہریلے گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کہ اخراج کی صورت میں گلیشیر کا پگھلنا اور نتیجے میں سیلابوں اور حد سے زیادہ  فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- اس کے علاوہ صنعتوں اور زاتی مقاصد کے لیئے جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے اور جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن بتدریج کم ہو رہی ہے، بدقسمتی  سے ہمارے ملک میں جنگلات کا کل رقبہ 4% رہ گیا ہے جبکہ صحتمند ماحول کے لیئے کم سے کم 20% جنگلات کا ہونا انتاہی ضروری ہے۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا ہے اور ساری فضا زہریلی بن گئی ہے سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا ہے،  فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کی حفاظتی غلاف ”اوزون لیئر” کو کافی حد تک نقصان دیا ہے جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگیں ہیں۔
سرمایہ داری نظام کے باعث جو ماحولیات کو زخم دیے گئے ہیں اس نے پورے یورپ میں ایک تحریک کو جنم دیا ہے۔ اس وقت یورپ سے لے کر امریکہ میں سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور ترقی کے نام پر زرخیز زمینوں،  پہاڑوں اور چراہ گاہوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے دریائوں کی قدرتی گذرگاہوں پہ بند باندھ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس سے زراعت اور آبی جیوت تباہی کے دھانے پر ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے شہر کراچی میں بحریہ ٹائون کے نام پر کھیر تھر نیشنل پارک کی کٹائی کر کہ زرعی زمیں کو کمرشل مقاصد کے لئیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے انسان، جنگلی جیوت سمیت ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں اس کے علاوہ تھر پارکر میں پاک انڈیا بارڈر سے منسلک کارونجھر پہاڑ جس کے لئیے بھی کوششیں جاری ہیں کہ اس  فطرتی حسن کے شاہکار اور جنگلی جیوت کے آمجگاہ  کو بھی ترقی کے نام پر نیلام کیا جائے۔
اقوام متحدہ سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بد ترین نتائج کو روکنے کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اس تناظر میں ہمیں جلد از جلد ممکنہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
صنعتی سرگرمیوں کے لیئے تیل،  گیس اور کوئلے کو ایندھن کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے باعث کاربن گیسوں کی مقدار، جو دو سو سال قبل 280 پی پی ایم (پارٹس پَر ملین) تھی، اب بڑھ کر 400 پی پی ایم ہو چکی ہے۔ اب معدنی ایندھن کی جگہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع  کا استعمال کرنا چاہئیے پھر سے جنگلات اُگانے، زراعت کے عمل میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور صنعتی سرگرمیوں میں تبدیلی لازم کرنی چاہئیے۔
زراعت کے لیے زمین کے حصول یا مویشی رکھنے کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ آج کل زمین کا تیس فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جن کا ایک اہم کام کاربن گیسیں جذب کرنا بھی ہے لیکن ہر سال اٹھارہ ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔
موجود قدرتی جنگلات کا تحفظ یقنی بنانا چائیے اور ہر خطّے کے مقامی درختوں پر مشتمل جنگلات کی کاشت کرنی چاہئیے۔
زمین ہو یا سمندر، انسان مختلف طرح کے جانوروں اور قسم قسم کی مچھلیوں کا اس حد تک زیادہ شکار کر رہا ہے کہ کئی انواع کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔
جس کے لئیے بائیو ڈائیورسٹی کا تحفظ یقینی بنانا چاہئیے غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت پر پابندی لگائی جائے۔ مقامی آبادیوں کو شامل کیا جانا چاہئیے،  جیسے اُنہیں جنگلی حیات کے تحفظ کے سماجی اور اقتصادی فوائد بھی ملیں۔
بیس ویں صدی کے آغاز پر انسانی آبادی 1.6 ارب تھی، آج کل 8 ارب ہے، 2050ء تک یہ دَس ارب تک پہنچ جائے گی، اس وجہ سے انسانی وسائل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کے لئیے خواتین کی تعلیم اور بہتر سہولتوں تک رسائی ممکن بنانی چاہئیے تاکہ وہ افزائش نسل کے بارے میں خود بھی فیصلے کر سکیں اور خاندانی منصوبہ بندی لازم قرار دے کر بڑھتی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).