شکوے کا حق بھی دے


ہم سب یہاں اپنے اپنے حصے کا دکھ جھیلنے آئے ہیں ، درد سہنے آئے ہیں ۔یہاں بہت سارے لوگوں کوتکلیف میں دیکھا ہے ، تڑپتے اورسسکتے دیکھا ہے ۔ کسی کو امید کے ٹوٹنے پر بکھرتے دیکھا ہے ۔ بظاہر کسی ہنستی مسکراتی عورت کے چہرے پر کرب کی تاریکی دیکھی ہے ، جو اپنے شوہر کی بے اعتنائ پہ کڑھتی رہتی ہے ۔ وہ اولاد جن کا باپ انھیں قبول کرنے سے انکار کردے ، ان بچوں کی بنجر آنکھوں میں باپ کی شفقت سے محرومی دیکھی ہے ۔ ادھورے انسان ، معذور لوگ دیکھے ہیں ، جن کے نہ ہونے سے دنیا کو کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن ان کی موجودگی ان سے زیادہ ان کے اپنوں کو اذیت میں مبتلا کیئے رکھتی ہے ۔ بھلا ایسے وجود کا کیا فائدہ جو خود اپنا بوجھ نہ اٹھا سکے ۔ زندگی کی تکلیفوں سے اکتائے موت کے آرزو مند ، جن کی اپنی موت کی دعا بھی مستجاب نہیں ہوتی ۔ سالہا سال سے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ تے ، لاعلاج امراض میں مبتلا مریضوں کی بے چارگی نہیں دیکھی جاتی ، جن کے لواحقین ان سےاتنا اکتا چکے کہ اب ان کے بچھڑ جانے پہ بھی افسردہ نہ ہوں گے ۔ کسی موذی مرض میں مبتلا نوجوان کو پڑنے والے ہر دورے پر اس کی ماں کی رکتی سانس دیکھی ہے ۔ اولاد کی چاہ میں آہیں بھرتے میاں بیوی کی تڑپ دیکھی ہے ، رزق کی کمی پر اولاد کی جان لیتے والدین کی بے بسی محسوس کی ہے ۔ وہ محنت کش جس کے گھر فاقوں کا راج ہو ، گندے جوہڑ کا پانی پینے والے ، غلاظت کے ڈھیر سے رزق کا سامان ڈھونڈنے والے بے بس ، مجبور انسان جن کے لیئے صفائ نصف ایمان اور رزق حلال عین عبادت کا حکم آیا ۔
سوچتی ہوں مصائب کے یہ پہاڑ کاہے کو انسانوں پر توڑے گئے ہیں ۔ کیا خلق کو اسی واسطے پیدا کیا کہ ان کی بے بسی کا تماشا دیکھا جائے ۔ کیا انھیں تخلیق کرنے کا یہی مقصد ہے ، کہ لاچار انسان سسکتے ہوئے مرجائیں ۔ کسی کا چہرہ بگڑے یا قسمت ، کوئ دور بیٹھا مگن رہے ۔
 تیری تو صفت ہی کریم ہے تو پھر اتنے سارے انسان ہمہ وقت کیسے تیری نظر کے سامنے تکلیفوں سے تڑپتے رہتے ہیں ، ماں تو اپنے بچوں کو تکلیف میں روتا دیکھ کر خود مرجاتی ہے ، تو پھر تو جو سب سے زیادہ محبت کا دعوی کرتا ہے ، تو اپنے بندوں کو تکلیف میں کیسے دیکھتارہتا ہے ؟
 تو تو اجیب دعوۃ الدعاء اذا دعان ہے ۔ یقین سے مانگنے والوں کامان ٹوٹتے دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا ہے ۔ تیرا اختیار اتنا محدود تو نہیں ، کہ لوگ سسکتے رہیں اور تو دیکھتا رہے ، ان کے لیئے کچھ بھی نہ کرے ۔دیکھ تیری رعایا لاچار ہے ، مظلوم ہے ، دکھوں ،پریشانیوں میں گھری ہوئ ہے ۔ ان مصیبت زدوں کی سن ، کہ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔ مرے ہووں کو نئ زندگی کی نوید دینے کی بجائے جو زندہ ہیں اور مرے ہوئے لگتے ہیں ان کی زندگی آسان کر دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ جو ٹوٹی آس کے باوجود تیرے سہارے بیٹھے ہیں وہ تجھ سے مایوس ہوجائیں ۔
 اب میرے شکوے شکائیتوں پہ برا مت مان جانا ۔ یہ شکوے تجھ سے نہ کروں تو پھر کس سے کروں ۔ اب مجھے یہ مت کہہ دینا کہ تونے یہ سب کہنے کی جرات کیسے کی ۔ یہ کسی دستور میں نہیں کہ اپنی شکائیت لے کر حاکم کے پاس نہ جایا جائے ۔ شکائیت لے کرجائیں گے تو تکلیف کا ازالہ ہوگا ۔ میرے شکووں کی جرات پہ مجھے سزا دینے کا سوچنے کی بجائے ان پہ غور کر ۔
 لگتا ہے تو نے میرے شکووں کو بڑے تحمل سے سنا ہے ، اورتجھے ان پر اعتراض بھی کوئ نہیں ۔ لیکن ڈر ہے کچھ شر پسند تیرے نام کی آڑ لے کر مجھ پہ چڑھ دوڑیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کریں ۔ دیکھ تو ایسے چاپلوسوں سے ہوشیار رہنا ۔ انھیں بتا دینا کہ وہ اپنے اپنے ایمان کی جانچ کروا کر نئے سرے سے ایمان میں داخل ہوں ، کہ جو یہ سب دیکھ کر خاموش رہیں ان کا کوئ مذہب نہیں ، ان کا کوئ خدا نہیں ۔ مذیب کے نام پر ٹھیکیداری کرنے والوں کو کہہ دے کہ وہ تو چپ ہی سادھ لیں ، کیونکہ وہ کسی بے بس ، لاچار کو دیکھ کر بھی تو خاموشی سے گزر جاتے ہیں ۔ اور ہاں جو میری شکائیتوں پہ جشن منارہے وہ اپنی دنیا میں مگن رہیں ، کہ ان کو خوش کرنا مجھے مطلوب نہیں۔ یہ خالص میرا اور تیرا معاملہ ہے ۔ تو جانتا ہے میری شکائیتوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ، اگر تجھ سے شکوے نہ کروں تو پھر کس سے کروں ۔ تو التجائیں سنتا ہے تو شکوے بھی سن ۔ نعمت ملنے پر شکر فرض کرتا ہے تو تکلیف پہ شکوے کا حق بھی دے ۔
اے خدا شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
زیبا شہزاد
Latest posts by زیبا شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments