پنجابی پیاروں کے نام


Loading

خطہ پنجاب سے ہماری مراد پاکستانی پنجاب، انڈین مشرقی پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش سے ہے جس کی سرحدیں تبت (چین) ، جموں و کشمیر، خیبر پختون خواہ، بلوچستان، سندھ، راجستھان اور اترپردیش جیسے علاقوں یا صوبوں سے ملتی ہیں۔ پنجابی پیاروں سے اکثر ملاقاتوں اور سماجی محافل میں عام طور پر پنجابی زبان کے مسائل، شاعری، ”لوہڑی“ کا تہوار اور پانچ دریاؤں کا ذکر تو اکثر رہتا ہی ہے لیکن بات اس سے آگے بڑھ نہیں پاتی۔ آج کے مضمون میں ہم پنجاب بارے کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز حقائق رکھنے جا رہے ہیں جو عام طور پر زیر بحث نہیں آتے۔

ماہرین سماجیات معاشروں کی مجموعی نفسیات کا اندازہ یا ان کو سمجھنے کے لیے وہاں رائج رسومات، رواج اور روایات کا مطالعہ یا کھوج کرتے رہتے ہیں مثال کے طور پر شادی بیاہ کی تقریب میں ان تینوں کو علیحدہ علیحدہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ نکاح ”رسم“ ہے عام طور رسم مذہب سے جڑے ہوئے عمل کو کہا جاتا ہے۔ نکاح کی رسم کے دوران مسلمانوں میں مولوی صاحب کا کلمے پڑھانا، ایجاب و قبول اور دعائیہ کلمات وغیرہ اسی طرح ہندو گھرانوں میں پنڈت، اشلوک و منتر، دولہا دلہن کے اگنی دیوتا (آگ) کے گرد سات پھیرے اور ساتوں وچن وغیرہ۔ دولہا دلہن کا لباس، دودھ پلائی، جوتا چھپائی، لاگ، جہیز وغیرہ ”رواج“ کے زمرے میں آتے ہیں۔ رواج اپنی نوعیت میں اٹل نہیں ہوتے بوقت ضرورت یا آپسی مشاورت سے ان میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے اور اس رد و بدل کا عام طور پر برا نہیں منایا جاتا۔

دولہا بارات لے کر دلہن کے گھر جاتا ہے یہ گمان یا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دلہن والے برات لے کر دولہا کے ہاں وارد ہو جائیں۔ دولہا کا بارات لے کر دلہن کے ہاں جانا اور ڈولی لے کر آنا ”روایت“ کے زمرے میں آتا ہے۔ ظاہری طور پر روایت کا تعلق مذہب سے جڑا نظر نہیں آتا اور نہ ہی رواج کی طرح سے اسے آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ روایت قدیم زمانے سے مسلسل رائج سماجی چلن کا نام ہے۔ روایت سے انحراف کو معاشروں میں انتہائی معیوب اور ناقابل برداشت سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے معاشرے اپنی اپنی رسومات، رواجوں اور روایات سے پہچانے جاتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے طالب علموں کے مختلف معاشروں میں رائج رسومات، رواج اور روایات کا مطالعہ اور ان کا تقابلی مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہیں سمجھے بغیر ان معاشروں میں قیام و رہائش، کاروبار، سماجی و سیاسی تعلقات کو کامیابی کے ساتھ رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہاں واضح رہے کہ ہم روایات کو نہ تو بہت اچھا کہہ رہے اور نہ ہی برا۔ ایک ترقی پسند ہونے کے ناتے ہم اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کے لیے مفید روایات کو آگے بڑھایا جائے اور انسان یا انسانیت دشمن روایات، رسوم اور رواجوں کی بیخ کنی کی جانی چاہیے۔

رسومات مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی تبدیل ہو جاتی ہیں، رواج ہر دس بیس کلومیٹر کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں جبکہ روایات عمومی طور پر اپنی نوعیت میں آفاقی یا وسیع خطوں میں رائج ہوتی ہیں مثال کے طور پر ”جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال اور آنکھ کے بدلے آنکھ“ ایک آفاقی روایت ہے جس کا ماخذ قدیم عہد نامہ کو مانا جاتا ہے۔ اسلام، عیسائیت، ہندومت وغیرہ کے پیروکاروں کے علاوہ سیکولر خیالات کے لوگ بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں رائج قوانین اور آئین بھی اسی روایت کے گرد ہی بنائے گئے ہیں۔

باقی دنیا کی طرح خطہ پنجاب بھی اپنے اندر بیشمار اچھی بری روایات کو سموئے ہوئے ہے۔ ہم آج کے کالم میں چند یونیک یا منفرد روایات کا ہی ذکر کر پائیں گے جو خالصتاً خطہ پنجاب کی روایات ہیں اور ان کی نظیر باقی کی دنیا میں نہیں ملتی۔ پنجاب کے تقریباً تمام باسی روز مرہ زندگی میں ان روایات پر شعوری اور لاشعوری طور پر عمل کرتے ہیں۔

ان روایات میں سر فہرست ”چپ“ کی روایت ہے۔ عام کاروبار زندگی میں اگر کوئی ہمارے ساتھ بدتمیزی یا کسی قسم کی زیادتی یا ظلم کرے تو اس کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بجائے ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک مقابل کو موثر جواب دینے کا وقت یا موقع نہ آ جائے۔ ادلے اور بدلے کے درمیانی عرصہ میں ہم عام طور پر مجرم اور اس کے جرم کے متعلق بھی کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔

منجیاں (چارپائیاں ) ڈالنے کی روایت دلچسپ، نتیجہ خیز اور خاصی کار گر روایت ہے۔ اگر ہمارا کوئی پیارا کسی مصیبت (دکھ، بیماری، ہسپتال، تھانہ، کچہری، لڑائی جھگڑا وغیرہ) میں پھنس جائے تو ہم اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے منجیاں ڈالنے کا اعلان کر کے اور تمام امور دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے مصیبت کے حل یا ممکنہ حل پر فوکس کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں حتیٰ کہ بات چیت کا موضوع بھی درپیش مسئلہ ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ نہ کوئی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی کی جاتی ہے۔

جب مسئلہ حل ہو جائے تو منجی اٹھا دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ منجی سے ہماری مراد کوئی بان یا کھجور کی چارپائی نہیں صوفہ، کرسی یا تھڑا بھی اس کا متبادل ہو سکتا ہے۔ اس منجی کی روایت پر عمل کرنے سے ناصرف درپیش مسئلہ احسن طریقے سے حل ہو جاتا ہے بلکہ اپنے اچھے اور قابل اعتماد دوستوں کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔ جو شخص منجی ڈالنے کے عرصہ میں اپنا جتنا زیادہ وقت آپ کو دے وہ اسی تناسب سے بہترین دوست ہو گا۔ منجی والے عرصہ میں غیر متعلقہ باتیں کرنے والے کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔

پنجاب میں جہاں کہیں منجیوں والی روایت زیادہ مضبوط ہے وہاں خوشی کے مواقع پر بھی منجیاں ڈال لی جاتی ہیں اور دنیا داری چھوڑ کر صرف خوشی پر دھیان دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں کسی کی ”منجی کسنے“ کا محاورہ بھی مستعمل ہے۔ یاد رہے کہ منجی کسنا اپنی جگہ پر خاصا ٹیکنیکل، زود اثر اور گہرا محاورہ ہے لیکن اس کا منجی ڈالنے والی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔

زمین ماں ہے اور اس زمین پر بسنے والے اس کے بیٹے اور بیٹیاں تصور کیے جاتے ہیں son of soil یعنی ”زمین کا بیٹا“ کی اصطلاح اب دنیا میں اکثر استعمال ہوتی ہے مگر یہ کافی حد تک مستند بات ہے کہ اس اصطلاح یا روایت کا ماخذ پنجاب ہی ہے۔ دنیا میں زمین کو کھیتی، جائیداد، ملکیت کی صورت دیکھا اور برتا جاتا ہے ۔ اہل پنجاب روایتاً زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اس روایت جڑیں اتنی گہری ہیں کہ توہم پرستی کی حد تک اس پر یقین کیا جاتا ہے کہ ”اگر کوئی پنجابی یا غیر پنجابی دھرتی ماں کے سپوتوں سے زیادتی کرے گا تو باقی کے سپوت اس کا بدلہ ضرور لیں گے اور اگر وہ کسی وجہ سے بدلہ نہ لے سکیں تو دھرتی ماں تو آخر ماں ہے وہ اس کا بدلہ ضرور لیتی ہے“ ۔

ماضی قریب میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے مجرم اور اس وقت کے پنجاب کے گورنر مائیکل اڈوائر کو لندن میں ادھم سنگھ نے قتل کر کے بدلہ چکایا اور عدالت میں اپنا نام ’رام محمد سنگھ آزاد‘ درج کروایا، بھگت سنگھ نے لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ لیا، اندرا گاندھی کو اس کے پنجابی باڈی گارڈز نے قتل کر کے گولڈن ٹیمپل کے قتل عام کا بدلہ چکایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی اگلے پچھلے بدلے خوب چکائے اس کے بعد افغانستان سے پنجاب پر کسی حملے ذکر نہیں ملتا۔

فاتح ہند شہاب الدین غوری کو کابل واپسی پر گکھڑ قبائل نے دھر لیا اس کا مزار پنجاب میں ہی واقع ہے۔ 1947 ء تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں فسادات کے نتیجہ میں لاکھوں پنجابی ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل یا شہید کر دیے گئے۔ تاریخی یا منطقی طور پر اس دشمنی کو ہزاروں سال تک چلنا چاہیے تھا مگر ایسا بالکل نہیں ہوا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد پنجابیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے ایک دوسرے کو معاف کر کے صلح کر لی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی ملک یا طاقت نے انڈین پنجابیوں اور پاکستانی پنجابیوں کے درمیان کوئی صلح نہیں کروائی۔ ہمارا گمان ہے کہا ایک ماں کے تصور نے ہی اپنا کردار ادا کیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ انڈیا سے آنے والے ہندو اور سکھ پنجابی ہمارے ہاں عزت پاتے ہیں اور مغربی پنجاب کے مسلمان پنجابیوں کا سواگت گولڈن ٹیمپل میں کیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں اقوام متحدہ سمیت کئی درجن بڑی تنظیمیں Resolution Conflict پر کام کر رہی ہیں ہم انہیں اپنے کالم کے ذریعہ سے دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ریسرچ کریں کہ پنجابیوں کے درمیان پیدا ہو جانے والا اتنا بڑا تضاد ان کی ”ماہرانہ کوششوں“ کے بغیر ہی کیسے حل ہو گیا۔ بقول امرتا پریتم کا مشہور زمانہ مصرع ”اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے بین“ پنجاب کی اس روایت کی بہترین ترجمانی ہے۔

پنجابی مرد خواہ کسی مذہب، علاقے، نسل یا برادری کے ہوں اپنے گھرانے کی خواتین بیوی، بیٹی، بہن، ماں وغیرہ کو ان کی چھوٹی موٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہیں نقد رقم خرچہ کے طور ان کے ہاتھ پر رکھتے ہیں۔ گھر اور قیمتی اشیاء کی الماری یا بکس کی چابیاں گھر کی بزرگ خاتون کے حوالے کرتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات ہمیں بہت چھوٹی اور عامیانہ سی لگے گی مگر یقین کیجئے پنجاب سے باہر پوری دنیا کے مرد گھر، پیسے اور دولت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔

پنجاب ایک قدیم ترین تہذیب ہے جس کے اثرات پورے برصغیر میں دیکھے جا سکتے ہیں مثال کے طور پر آج انڈیا کی پہچان ہندو ازم ہے۔ ہندو تاریخ کے مطابق بھگوان شیوا کے قدیم ترین مندر کٹاس راج کے مندر ہیں، مہا بھارت پنجاب میں لڑی گئی، رگ وید پنجاب میں لکھی گئی، ہندو مت کی قدیم ترین درسگاہیں ٹیکسلا اور ٹلہ جوگیاں میں واقع تھیں، تاریخ کے اوراق میں موریہ سلطنت کے ساتھ ساتھ اچاریہ چانکیہ اور اشوک اعظم، مہاراجہ پورس کو بھی پنجاب میں سرگرم دیکھا جا سکتا ہے۔ گندھارا تہذیب، وادی سندھ کی تہذیبیں بھی پنجاب کا طرہ امتیاز ہیں۔

انہیں درخشاں روایات کی بدولت دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والا پنجاب میں بہ آسانی بس یا آباد ہو سکتا ہے اور پنجابی دنیا بھر میں کسی بھی جگہ بہ آسانی رچ بس سکتا ہے۔ یہ بات بہت حد تک سچ یا درست ہے کہ سکنڈے نیویا، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں پنجابی تیزی سے معاشی اور سماجی میدانوں میں کامیابیوں کے بعد اب سیاسی میدانوں میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے پنجابی اپنی ثقافت و کلچر کو تیزی سے متعارف کروا رہے ہیں اور پنجابی کلچر اپنی منفرد خصوصیات و روایات کی بنا پر پوری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments