خواجہ میر درد ایک تعارف
خواجہ میر درد کی پیدائش 1133 ہ مطابق 1720 ء کو ہوئی آپ کے والد خواجہ محمد ناصر عندلیب (متوفی 1172 ہ ) تھے اور شاہ گلشن (متوفی 1150 ہ ) سے نسبت ارادت رکھتے تھے ان کا خاندان دہلی میں پیری مریدی کے سلسلے میں بہت ممتاز تھا، علوم متداولہ سے آگاہ تھے موسیقی میں خاص نظر رکھتے تھے، نثر فارسی میں تصوف کے معاملات پر کئی رسالے لکھے ان کے کلام میں غزل اور رباعیات اور ترجیع بند کے سوا اور کچھ نہیں ہے، دیوان مختصر لیکن انتخاب ہے، دہلی کی بربادی پر سب اہل فن یہاں سے دوسری جگہوں پر چلے گئے لیکن یہ کہیں نہ گئے اور نہ کسی کی نوکری کی کیونکہ امیر غریب سب ان کی خدمت کرنا عین سعادت سمجھتے تھے، زبان ان کی وہی میر و مرزا کی ہے، معاملات تصوف میں اپنے عہد میں ان سے بڑھ کر اردو میں کوئی شاعر نہیں گزرا، ان کی چھوٹی بحروں کی غزلیں میرؔ کی غزلوں سے کسی طرح کم نہیں، بہ عمر 66 سال 24 صفر یوم جمعہ 1199 ہ مطابق 1784 ء کو وفات پائی۔
خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں اسرارالصلوٰۃ، رسالۂ غنا، واردات درد اس کی شرح علم الکتاب فارسی اور ایک ریختہ کا دیوان۔ تصوف کا جذبہ درد کے جسم و جان میں سرایت کر گیا تھا وہ اس کے اسرا و رموز کو جانتے تھے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کیا۔
کلام ملاحظہ ہو:
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
حجابِ رخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
عظمت اللہ خان کچھ یوں رقمطراز ہیں : رقمطراز ہیں
: ”درد صوفیانہ شاعری کے باوا آدم ہیں“
ان کے ہاں سچائی او ر گہرائی ہے، ان کے الفاظ اور اصطلاحات میں زبردست معنویت ہے، صوفیانہ اصطلاحات ان ہی کے ذریعے غزل میں عام ہوئیں۔ درد کے ہاں زبان کے عام الفاظ تصوف کی آغوش میں جاتے ہی اپنے معنی و مفہوم بدل لیتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
”خلوت، جلوت، وحدت، کثرت، کشف، نفس، ذات، دائرہ، ممکن، حجاب،
پردہ، یقین، وجود، آشنا، بے گانہ، جبر و قدر، مجبوری اور مختاری وغیرہ وغیرہ ”
مختصر یہ کہ درد کی شاعری اور زندگی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے جو کہا سچ کہا اور اثر و تاثیر میں ڈوب کر کہا، وحدت الوجود ان کا محبوب موضوع رہا، انسان کا مقام اور حیات و کائنات پر بحث تصوف کے آئینے میں ان کی شاعری کے خاص جواہر ہیں، درد کی شاعری اپنی شان، ادا اور بے نیازی میں اپنی مثال آپ ہے۔
کلام ملاحظہ ہو:
مرا جی ہے جب تک تیری جستجو ہے
زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے
نظر میرے دل کی پڑی درد کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے
- ڈاکٹر علامہ اقبال کی کتب:ایک تعارف - 27/08/2024
- خالدہ حسین کا افسانہ: بایاں ہاتھ - 07/07/2024
- خواجہ میر درد ایک تعارف - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).