پاک افغان بارڈر طورخم پر چائلڈ لیبر میں اضافہ


Loading

15 اگست 2021 کو افغانستان پر ایک بار پھر افغان طالبان نے تسلط حاصل کیا اور اپنی حکومت قائم کی، اب تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن بہر حال کئی ممالک کے وفود افغان طالبان راہنماؤں کے ساتھ رابطہ بحال کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، طالبان اپنی بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کو باور کرا سکیں کہ وہ اب کافی بدل چکے ہیں اور ان کو تسلیم کیا جائے لیکن دنیا کے کئی ممالک ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی پابندی کو ختم کریں اور خواتین كی نقل و حرکت پر پابندیوں میں نرمی کی جائے، افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے وہاں پر بنکوں کا نظام معطل ہے اور افغان عوام بے روزگاری بھوک اور افلاس کا شکار ہو چکے ہیں، افغانستان میں اس موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہوءے ہیں۔ چائلڈ لیبر یا کم عمر مزدور بن کر اپنے گھروں کے لئے دو وقت کی روٹی پیدا کرنے کی خاطر بھاری کاموں اور سمگلنگ کا رخ کیا ہے، اس طرح پاک افغان بارڈر طورخم کے دونوں اطراف رہنے والے مزدور بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے،

طورخم بارڈر پر سینکڑوں بچے پاکستان اور افغانستان کے درمیان چینی اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں، ان بچوں میں سب سے زیادہ تعداد افغان بچوں کی ہے جبکہ چند بچے پاکستان كی لنڈی کوتل تحصیل سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بچے طورخم میں جسمانی مشقت، تشدد اور جنسی ہراسانی کا شکار ہیں، ان بچوں کی عمریں 8 سال سے لے کر 16 سال تک ہیں جن میں بچے اور بچیاں دونوں شامل ہیں، یہ بچے پاکستان سائیڈ سے افغانستان چینی سمگل کرتے ہیں، اور افغان سائیڈ سے سگریٹ اور دوائیاں وغیرہ پاکستان سمگل کرتے ہیں، اور ہر بچہ اپنے کاندھوں پر 20 کلو سے لے کر 40 کلو تک چینی لے جاتا ہے جو کہ انتہائی ظلم ہے، افغان طالبان ان بچوں کو کنٹرول کرنے اور ریلیف دینے میں ناکام ہیں اور پاکستانی حکام بھی ان کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے، یہ بچے طورخم کے دونوں طرف دیروں یعنی کرایہ کے کمروں میں رہتے ہیں، اور ایک ایک کمرے میں اٹھ اور دس تک بچے رہائش پذیر ہیں اور ہر رات انتہائی عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں،

سارا دن گردوغبار اور میلے کپڑوں میں گزارتے ہیں، ہائی جین کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ان بچوں نے الزام عائد کیا ہے کہ طورخم میں چینی سمگلنگ کے دوران ڈرائیورز، کلینرز، ہوٹلز والے اور دونوں اطراف مختلف اداروں کے اہلکار ان کو مارتے پیٹے ہیں ان پر تشدد کرتے ہیں اور جنسی فعل كی ترغیب دیتے ہیں یعنی سیکس کے بدلے چینی لے جانے کی آفر کرتے ہیں، اور بعض اوقات ڈرائیور، ہوٹلوں والے اور چوکیدار وغیرہ ان پر زبردستی جنسی تشدد کرتے ہیں، ان میں 13 اور 14 سالہ لڑکیوں کو بھی جنسی فعل کے بدلے چینی سمگلنگ کی اجازت دی جاتی ہے، یا ڈرائیور اپنے ساتھ گاڑیوں میں بٹھا کر ان کی چینی اور دیگر سمگلنگ کی اشیا پار کراتے ہیں اور اس كے بدلے ان سے جنسی خواہش پوری کرتے ہیں، کئی بچوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی ان کو غلط نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ وہاں سے بھاگ جاتے ہیں، ان بچوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور جنگوں کی وجہ سے زیادہ کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور بعض بچوں کے والدین بیمار یا معذور ہیں اس لیے وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں،

طورخم سرحد کے دونوں اطراف موجود مختلف اداروں کے اہلکار اور ڈرائیورز وغیرہ ان بچوں پر جسمانی اور جنسی تشدد سے انکار کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں چائلڈ رائٹس کے لئے کام کرنے والے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ طورخم پر دونوں اطراف سینکڑوں بچے سنگین خطرات سے دوچار ہیں اور ان کو فوری طور پر تحفظ اور ریلیف كی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے 1991 میں سی آر سی یعنی بچوں کے حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن آج تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اس کے متعلق قانون سازی اور بچوں کو بنیادی حقوق تعلیم اور تحفظ دینے کے پابند ہیں۔

طورخم میں ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں سوئس این جی او نے طورخم میں دونوں اطراف ان بچوں کے والدین کو معاوضہ دینے اور ان کے لئے تعلیمی ادارے کھول رکھے تھے جن میں لنچ اور نقدی بھی دی جاتی تھی اور چائلڈ لیبر پر کافی حد تک کنٹرول حاصل ہوا تھا، لیکن اب 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت آنے کے بعد بین الاقوامی امدادی ادارے بھی خاموش ہیں اور ان بچوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں این جی اوز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان بچوں کو تحفظ فراہم کریں اور دونوں اطراف ان کے لئے تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments