الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔


Loading

سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹسوے بہاتے ہوئے شکوہ کیا کہ انہیں جیل میں انتہائی بری حالت میں رکھا گیا ہے۔ وہ ایک ڈیتھ سیل میں ہیں، جہاں کوئی سہولت انہیں میسر نہیں ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم ہیں نہ ان کے کمرے میں اٹیچ باتھ روم ہے نہ ہی ائر کنڈیشنڈ۔ جیل میں سخت گرمی ہے، انہیں گھر کے کھانے کی سہولت بھی میسر نہیں، نہ ہی انہیں اپنے وکلاء، اپنے خاندان کے افراد اور پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے۔

عمران خان کی یہ تدبیریں ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا / دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا ”کے مصداق ان کے دیگر جھوٹوں کی طرح اس بار بھی ان پہ ہی الٹی پڑ گئیں۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت عمران خان کو جیل میں میسر سہولیات پہ تفصیلی رپورٹ جمع کرائی۔ اس رپورٹ میں خان صاحب کو اڈیالہ جیل میں ملے چار کمروں پہ مشتمل سیل، ایکسرسائز مشین، دل پسند کھانا، ائر کولر سمیت خان سے کی گئی ملاقاتوں کی تفصیلات ان سے ملاقاتیں کرنے والوں کی مکمل فہرست کے ساتھ جمع کروائی گئیں۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج اڈیالہ جیل جاکر عمران خان صاحب کو حاصل سہولیات کا خود جائزہ لے کر آئے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج کا حالانکہ یہ مینڈیٹ نہیں تھا مگر آج کل اکثر جج عمران خان کی الفت میں یا تو خود گرفتار ہیں یا پھر ان کی بیگمات اور باقی فیملی کی سانسیں خان کی سانسوں سے نتھی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اکثر اپنی حدوں و اختیارات سے باہر نکل کر خان کی خبر گیری کرنی پڑتی ہے۔

یوں تو عمران خان صاحب کے جھوٹ، یوٹرن کی ایک لمبی تاریخ ہے، مگر پچھلے کچھ ماہ سے جیل کی گرمی اور ”پیاروں“ سے دوری نے خان صاحب اور حواریوں کو ذہنی انتشار میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کے خد و خال دیگر صوبوں میں تو بہتر نظر آتے ہیں مگر خیبرپختونخوا جہاں عمران خان کی جماعت تیسری بار حکومت بنا چکی ہے وہاں مسلسل تیسری بار ایسا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے جو ہوش و حواس میں کم ہی رہتا ہے۔

تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں کے عوام کی ترقی، انہیں مشکلات سے نکالنے کے حل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بلوچستان کی سرداری اور نوابی روایات سے ہٹ کر ایک سیاسی کارکن کی طرح صوبے کے عوام کی مشکلات کے حل کی جانب پیشقدمی شروع کی ہوئی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ آکسفورڈ پاکستان پروگرام کا معاہدہ کر کے بلوچ طلباء کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے مسلم دنیا کی پہلی اور لیڈی مارگریٹ ہال میں واحد مسلمان وزیر اعظم کی آویزاں تصویر والے ہال میں بلوچ طلباء کے لیے بینظیر اسکالر شپ کا اعلان کیا۔

دوسری طرف پنجاب و پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ اپنے عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لیے دن رات اپنے عوام میں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے چند ماہ میں اپنی محنت اور لگن سے خود کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے اہل ثابت کیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ پچھلے سال سیلاب متاثرین کے لیے دنیا کے سب سے بڑے رہائشی گھروں کے منصوبے پہ عمل پیرا ہو کر ایک تاریخ رقم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے صوبے کی عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار کی فراہمی سمیت تعلیم، صحت، روڈ انفراسٹرکچر کی بہتر سہولیات بہم پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کا انتخاب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ صرف مولاجٹ بنے مخالفین کے خلاف مغلظات بکنے میں مصروف ہیں۔ وہ کبھی گورنر کو گورنر ہاؤس سے باہر نکال پھینکنے کی دھمکیاں لگاتے ہیں تو کبھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے خلاف منہ سے فضلہ اگلتے ہیں۔

خیبرپختونخوا اس وقت بدترین سیاسی افراتفری، بدامنی، کرپشن اور اقربا پروری کا شکار ہے۔ 9 مئی کے سارے شرپسند ملک دشمن عناصر خیبرپختونخوا حکومت کی چھتری تلے پناہ لیے ہوئے ہیں اور مسلسل پاکستان کی وحدانیت، سالمیت اور استحکام پہ حملہ آور ہیں۔

اسی تسلسل میں پچھلے دنوں تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک وڈیو بنا کر اس میں مجیب الرحمٰن کو ہیرو اور پاک آرمی کو ولن دکھانے کی مذموم حرکت کی گئی۔ اس وڈیو کو اور شرانگیز ٹویٹ کو عمران خان کے ذاتی اکاؤنٹ سے بھی شیئر کیا گیا۔ اس ساری مہم کے دوران تحریک کے رہنما ذہنی خلفشار کا شکار نظر آئے۔ کچھ اس شرانگیز حرکت سے عمران خان کی لاتعلقی اور بے علمی کا اظہار کرتے رہے تو کچھ بڑی ڈھٹائی سے اس حرکت پہ مختلف قسم کی بونگیاں مارتے اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس ساری دھما چوکڑی میں عمران خان نہ صرف اس پوسٹ کو اون کرتے رہے بلکہ اسے عین اپنے حالات سے مماثلت قرار دینے کی کوشش کرتے رہے۔

عمران خان اور ان کے رفقاء کار سمجھتے ہیں کہ وہ جوزف گوئبلز کا کردار ادا کر کے عوام کو مسلسل بے وقوف بناتے رہیں گے، لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ جھوٹ شیطانیت کی سب اعلیٰ قسم ہے اور اسے بالآخر ذلیل و رسوا ہونا ہے اور سچائی، نیکی کی سب سے اونچی چوٹی ہے جسے سر چڑھ کر بولنا ہے۔ اب تک تحریک انصاف کی جھوٹ، نفرت، منافقت، انتشار کی تمام تر کوششیں اسی پہ پلٹ وار ثابت ہوئی ہیں، عمران خان کے سیاسی تابوت میں کیل کی طرح پیوست ہو رہی ہیں۔ بشریٰ بی بی کے کھانے میں ہارپک کے تین قطرے ملائے جاتے ہیں سے لے کر مجھے جیل میں ڈیتھ سیل میں رکھا ہوا ہے تک، ساری نفرت انگیز، شرپسندی پہ مبنی مہم تحریک انصاف کی منافقانہ سیاست کو عوام میں ایکسپوز کر رہی ہے۔

عمران خان اور ان کے حواری جو سوشل میڈیا پہ خاصی مضبوط گرفت رکھتے ہیں، وہ سوشل میڈیا کو ہی ایک مضبوط ٹول کی طرح استعمال کر کے پاکستان اور اداروں کے خلاف عوام میں نفرت و حقارت کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ جبکہ حکومت اور ادارے اپنی انتظامی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اب تک سانحہ 9 مئی کے اہم کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دوسری طرف ملک کے ایک اور مقتدر ادارے کے بہت سارے معزز لوگ ان شرپسندوں کے آلہ کار بن کر ان کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔

” سچ کو تمیز ہی نہیں ہے بولنے کی، جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے“ واقعی سچ بدتمیز ہوتا ہے کیونکہ اکثر بہت کڑوا ہوتا ہے لیکن آخرِ کار کڑوا سچ ہے کامیابی کی منزل پہ پہنچتا ہے جبکہ میٹھا جھوٹ کیڑے پڑ جانے سے بدبودار ہوجاتا ہے، گل سڑ جاتا ہے۔ جھوٹ کی رفتار گو کہ بہت ہی تیز ہوتی ہے مگر منزل پہ ہمیشہ سچ ہی پہنچتا ہے۔ جھوٹ منافقت کے لیے کی گئی سب تدبیریں بالآخر ناکام جاتی ہیں اور ذلت و رسوائی مقدر بنتی ہے جیسے عمران خان اور ان کی جماعت کا جھوٹ اور منافقت تیزی سے پستیوں کی کھائی میں گرتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments