شمعون سلیم نے اپنی موت کا عمل ریکارڈ کیا


5 اپریل کو اس نے ایک سال پہلے اور مرض کے دو ڈھائی ہفتوں کے بعد کے دو فوٹو شیئر کیے تھے اور پھر بالترتیب لکھتا رہا۔۔۔ اگرچہ اس کی آخری پوسٹ 5 جون 2024  کی ہے جو وسیم الطاف کی پوسٹ شیئر ہے لیکن اس نے اپنی زندگی کے بارے میں آخری پوسٹ 27 مئی 2024 کو لگائی تھی۔۔۔موصوف 15 مارچ سے بیمار ہوئے اور 14، 15 جون کی درمیانی رات پورے ہو گئے، کل تین ماہ میں ( مجاہد مرزا)

13 اپریل 2024

انجام کی اندھی دیوار :

اکہتر سال، بس؟ بیماری کے ان تین ہفتوں نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے مختلف ہسپتالوں کی سیمنٹ روڑی مکس کرنے والی مشین میں ڈال کے گھما دیا ہو۔ ہالینڈ کے انتہائی ترقی یافتہ جدید نظامِ علاج و معاشرت  والے ڈاکٹروں نے ہزار قسم کے ٹیسٹوں کے بعد اس پیغام کے ساتھ باہر نکال پھینکا ہے کہ میاں یہ جگر جان بس آخری دموں پہ ہو سکتی ہے۔

بغاوتوں بھری تنہائی، ضیعفی اور بے بسی کی انتہائے شام پر اگر دور کوئی تارے جھلملاتے دکھائی دئے تو وہ پاکستان میں  زندگی کے ڈھب اور سوچوں میں قطبین کے اختلاف کے باوجود  اپنے بہن بھائیوں اور ان کے خاندانوں کی فکرمندی اور محبت کے افق پر تھے۔ سوچنے پہ مجبور ہوں۔

یکم مئی 2024

میری اس سے کوئی اپائنٹمنٹ طے نہیں تھی لیکن ابھی ابھی مجھے ہارلم سے ہی اپنے ہاؤس فزیشن کا فون آیا کہ میرا کیا حال ہے؟ پچھلے کچھ ہفتوں سے مختلف ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہوئے مجھے راستہ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ ایک ڈچ ایکسپریشن ہے کہ:

Door de bomen het bos niet meer kunnen zien.

 یعنی ”ارد گرد کے پیڑوں کی وجہ سے جنگل کا نظر سے اوجھل ہونا۔” لیکن شکر ہے کہ اپنے فیملی ڈاکٹر سے پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد مجھے بہت سپورٹ ملی کہ میں ایک پیچیدہ نظامِ صحت سے نپٹتے ہوئے درست فیصلے کر رہا تھا۔ ڈاکٹر کا ایسا کرنا اس کے بنیادی فرائض میں شامل نہیں ہے۔

مجھے پتہ نہیں کہ یہ میڈیکل سروس پاکستان میں میسر ہے یا نہیں لیکن مجھے بہت اچھا لگا۔

پیار کرنے والے لوگوں کی دعاؤں کے علاوہ ایسے پروفیشنل مگر ذاتی تعلق کیلئے میں اس معاشرے کا تہِ دل سے ممنون ہوں۔

 6  مئی 2024

آ کے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے

دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں

مرے ہمسایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

(شکیب جلالی)

27 مئی 2024

” آپ کا سٹیشن آ گیا ہے، اتر جائیں پلیز "

‘درد خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا’

(آج عرفان کی تیسری برسی ہے)

ہندوستانی، برطانوی اور ہولی وُڈ فلموں کے خوبصورت اداکار، عرفان خان نے مرنے سے دو سال پہلے اپنے دوست کو لندن سے، جہاں وہ ایک ہسپتال میں ایک لاعلاج مرض  کی وجہ سے داخل تھے، ایک خط لکھا تھا جس میں اپنی نادر بیماری کے علاوہ اپنی کچھ ذاتی باتیں کی تھیں اور چند تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔

انھوں نے خط میں لکھا تھا کہ اس دنیا میں ‘غیر یقینی ہی یقینی ہے’

‘اور پھر ایک دن احساس ہوا کہ میں ایسی کسی چیز کا حصہ ہی نہیں ہوں جو کسی چیز کے یقینی ہونے کا دعوی کرے۔ نہ ہسپتال نہ سٹیڈیم۔۔۔ دل نے کہا کہ صرف غیر یقینی ہی یقینی ہے۔’

انھوں نے لکھا کہ امید و بیم کے درمیان انھیں ایک عجیب قسم کی آزادی کا پہلی بار احساس ہوا جس نے انھیں خود سپردگی اور بھروسے کے لیے تیار کر دیا ہے۔

اور یہ کہ وہ بہت سے منصوبے اور خواب لیے اپنی ہی ترنگ میں تیزی سے چلتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ٹکٹ کلکٹر نے پیٹھ پر تھپکی دی کہ

‘آپ کا سٹیشن آ رہا ہے پلیز اتر جائیں۔’

https://www.bbc.com/urdu/entertainment-44543860


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments