"متن ،قرات اور نتائج”:تعارفی مطالعہ


تخلیق، تنقید اور تحقیق ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں سے ایک بھی کمزور پڑ جائے تو ادب کا معیار تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ محاسن و معائب میں فرق کرنا ،اوصاف و اقدار کا تعین کرنا اور موازنہ و ترجیح اس کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ شوماخر نے اپنی کتاب “Elements of Critical Theory”میں تنقید کے حوالے سے جس چیز پر زیادہ زور دیا ہے ،وہ غیر جانب داری(Unbiasedness)ہے۔معاصر عہد میں کئی ایسے ناقدین ہیں جن کے ہاں تنقید و تحقیق میں یہ عنصر مفقود ہے لیکن ایم خالد فیاض کی تنقیدی و تحقیقی تحریروں میں تنقید کے دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ غیر جانب داری غالب عنصر کے طور پر موجود ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے منصب کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔اگر موجودہ عہد کے ناقدین کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو ایم خالد فیاض معاصر عہد میں تنقید و تحقیق میں معتبر ناموں کی فہرست میں شامل ہے جنھوں نے محنت ، مطالعے اور ذہانت سے اپنی گراں قدر صلاحیتیوں کو منوانے میں طویل وقت نہیں لیا۔ کم مدت میں وہ ادب کے سنجیدہ قارئین میں اپنا نام اور وقار پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان سے میرا پہلا تعارف "غلام عباس :فکرو فن” کی بدولت ہوا اور دوسرا تعارف ان کا ششماہی رسالہ "تناظر” بنا۔ اس وقت سے اب تک ان سے محبتوں اور خلوص کے سلسلے قائم ہیں۔ ان کے اب تک کئی ادبی کام منظر ِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک، حال ہی میں اشاعت پذیر ہونے والی کتاب "متن،قرات اور نتائج”ہے۔

ایم خالد فیاض کئی برسوں سے ملک کے مؤقر ادبی جرائد میں تنقیدی و تحقیقی مضامین قلم بند کر رہے ہیں۔ ان میں بیشتر مضامین ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں جنھیں کتابی صورت میں بعنوان” متن،قرات اور نتائج”اکٹھا کر دیا گیا ہے۔مذکورہ کتاب میں مضامین کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے حصے میں عالمی ادیبوں کی تخلیقات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ادب اثرات کے اعتبار سے حدود سے ماورا ہے اور جغرافیے اور وقت کی حدود کو توڑ کر ان مٹ نقوش مرتسم کرتا چلا جاتا ہے۔کوئی بھی فن پارہ اس وقت تک عالمی ادب میں شامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے لسانی اور ثقافتی ماحول سے نکل کر دوسرے لسانی اور ثقافتی ماحول میں قبولیت اختیار نہ کر لے۔وہ زمین ، زمان اور زبان کی حد بندیوں سے ماورا ہوتا ہے۔

یہی وہ ادب ہوتا ہے جو مستقبل کے ادبی رجحانات کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔ایم خالد فیاض کو اس بات کا احساس ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی عالمی ادب پر گہری نظر ہے۔انھوں نے کتاب کے اس حصے میں آٹھ ایسے مضامین شامل کیے ہیں جن کا تعلق عالمی ادب سے ہے۔پہلا مضمون یونان کے جزیرے لیسبوس سے تعلق رکھنے والی شاعرہ سیفو کی شاعری کا احاطہ کرتا ہے۔ذہن میں رہے کہ “Lesbian” کی اصطلاح کا تعلق بھی اسی جزیرے کی نسبت سےرائج ہے حالانکہ یونانی اس سے پہلےTribien” “کا لفظ عورتوں کی ہم جنسیت کے لیے استعمال کرتے تھے۔

سیفو نے اس جذبے کا اظہار اپنی شاعری کے ذریعے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔یونانی علم و ادب کی ماہر مس میری برنارڈ نے ان کے کلام کو مرتب کیا ہے۔ایم خالد فیاض نے ان کی شاعری سے ہم جنسیت سے ہٹ کر دیگر موضوعات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سے قبل میرا جی ، سلیم الرحمان اور ڈاکٹر سعید احمد نے اردو تنقید میں سیفو کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے۔کتاب کے اس حصے کا دوسرا مضمون بودلئیر کی نثری نظموں کے مجموعے”پیرس کا کرب” پر رقم کیا گیا ہے۔

اس مجموعے کی نظمیں جدید شہروں میں پیدا ہونے والی المناکیوں اور تلخیوں کو اپنا موضوع بناتی ہیں۔ اس نے شہری زندگی کی تلخیوں اور المناکیوں کے بیان میں بوڑھے کرداروں کا سہارا لیا ہے۔اس حوالے سے ” بوڑھی عورت کی مایوسی” ،”بوڑھا مداری”،”بیوائیں”،”کھڑکیاں”اور "کھوٹا سکہ” جیسی نظموں کے حوالے درج کیے گئے ہیں۔ تیسرا مضمون ہندوستان کے معروف شاعر ٹیگور کے تصورِ موت پر رقم کیا گیا ہے۔ اس مضمون کے مطالعے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ٹیگور کے ہاں نہ تو محض رجائیت ہی رجائیت ہے اور نہ ہی یاسیت ہے بلکہ دونوں کا امتزاج ہے جو ان کی تخلیقات کو خاص رنگ عطا کرتا ہے۔

اس حصے کا اگلا مضمون معروف امریکی ادیب مارک ٹوئن کی کہانی”دعائے جنگ” پر لکھا گیا ہے۔اس کہانی میں وہ جنگ جیسی لعنت پر صدائے احتجاج بلند کرتا نظر آتا ہے۔ایم خالد فیاض نے اسے اردو قارئین سے متعارف کرانے کے لئے اس کہانی کو اس لیے بھی منتخب کیا ہے کہ جنگ کے خلاف تحریر کیے گئے احتجاجی ادب میں یہ اہم مقام کی حامل ہے جو جنگ کے خلاف نفرت ابھارنے اور فکر و شعور کو جلا بخشنے میں معاون ہے۔اس حصے کے اگلے مضمون میں معروف نائجیرین ادیب چینوا اچیبے کے ناول”A Man of the People” ( عوام کے نمایندہ) کو موضوعَ بحث بنایا ہے۔

مذکورہ ناول نائجیریا کی آزادی کے بعد کی صورتِ حال کا خوب صورت عکاس ہے۔ ایم خالد فیاض نے اسے کرداری کشمکش کا ناول قرار دیا ہے جس میں کرداروں کی کشمکش سے سامراج کے ان عزائم کو بے نقاب کیا گیا ہے جس کے تحت وہ عوامی سطح پر سیاسی غفلت اور لا علمی کو فروغ دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا ہے۔ برتولت بریخت کے افسانے ” ملحد کا اوور کوٹ” پر نقد بھی کتاب کے اس حصے میں شامل ہے۔ مذکورہ افسانے میں سولہویں صدی کی ایک معروف سائنسی شخصیت”گیارڈانو برونو” کی شخصیت کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اس افسانے میں بریخت یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اعلیٰ اور ارفع کردار کا مظاہرہ کرنے کے لئے کسی مذہب کا روایتی پیرو ہونا ضروری نہیں مزید براں تاریخ میں جتنے لوگوں کو ملحد قرار دے کر مارا گیا ہے یا مارنے کی کوشش کی گئی ہے ان کے عقب میں مذہبی پیشوائیت اور ان کی ہمنوا حکومت موجود رہی ہے۔اگلے مضمون میں مصنف نے دنیا کے پہلے پکارسک ناول سے متعارف کرایا ہے۔پکارسک ناول ایک آوارہ گرد کی آوارگی کی کہانی ہوتی ہے جس میں معاشرے کی Anti-Culturalصورتِ حال کو دکھایا جاتا ہے۔

پلاٹ کسی منطقی یا ارتقائی صورت میں پروان چڑھنے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ مختلف قصے جو آپس میں مکمل ہوتے ہیں انھیں جوڑ لیا جاتا ہے۔پکارسک ناول کی شعریات کا کلیدی اصول یہ ہے کہ اس میں معاشرے کا وہ رخ پیش کیا جائے جو اخلاقی زوال پذیری کا عکاس ہو۔اس مضمون میں ” لاثارو دے تور میس ” کو دنیا کے پہلے پکارسک ناول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اس کا مصنف ڈی گوڈی مینڈوزا خیال کیا جاتا ہے جس پر بعض ناقدین کا اختلاف بھی موجود ہے۔

محمد سلیم الرحمان نے اسے ” چلتا پرزہ” کے عنوان سے ترجمہ کر کے فضلی سنز ،کراچی سے شائع کیا تھا۔ کتاب کے اسی حصے میں پرتگالی ادیب حوزے سارا ماگو کے ناول “Death With Interuption” کے ترجمے کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس ناول کو پرتگالی زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔ اسے انگریزی زبان میں Margaret Jull Costaنے ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی سے اردو روپ اسے مبشر احمد میر نے دیا ہے۔اس کے علاوہ احمد مشتاق نے حوزے کے ناول Blindnessکو اندھے لوگ کے نام سے اردو روپ دیا ہے۔مضمون نگار کا خیال ہے کہ ہمیں انگریزی کو اصل متن خیال کرنے کے بجائے اس کے اصل متن پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا چاہیے۔

مذکورہ کتاب کے دوسرے حصے میں افسانوی ادب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس میں کرشن چندر، غلام عباس ، خواجہ احمد عباس ،احمد ندیم قاسمی ، امرتا پریتم ، حسن عسکری ،قرۃ العین حیدر،عبداللہ حسین ، عمر میمن ،نیّرمسعود اور طاہرہ اقبال جیسے اہم فکشن نگاروں کی تخلیقات پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے۔اس حصے کے پہلے مضمون میں افسانہ کو بطور صنف زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ افسانہ اور ناول میں اشتراک کے باوجود فرق موجود ہے جسے اس مضمون میں دلائل اور تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

افسانے کی شناخت کے لیے اختصار اور وحدت تاثر کو ضروری قرار دیا گیا ہے جس کے بغیر افسانے کی شناخت ناممکن ہے۔اس حصے کا آخری مضمون ” نائین الیون اور اردو افسانہ” کے عنوان سے کتاب کا حصہ بنا ہے اس مضمون میں اردو کے تین اہم افسانوں "ایک سائیکلو سٹائل وصیت نامہ” از منشا یاد ،”ابنِ آدم” از خالدہ حسین اور”نیند کا زرد لباس” از زاہدہ حنا کو نائن الیون کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کا تیسرا حصہ سعادت حسن منٹو کی تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے جسے گوشۂ منٹو سے موسوم کیا جائے تو میرے خیال میں غلط نہ ہوگا۔ منٹو اردو افسانے کا ایسا نام ہے جسے جھوٹ، فریب ، ریا کاری اور نمایش سے نفرت ہے۔وہ معاشرے کی ان اقدار کو تشکیک کی نظر سے دیکھتا ہے جو کھوکھلی بنیادوں پر استوار ہیں یا جو وقت کے ساتھ فرسودگی کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس گوشے میں منٹو کے کردار موذیل ، حنیف ، باسط اور پھوجا حرام دا کو زیرِ بحث لانے کے ساتھ ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک نئی تعیبر اور محاکمہ کرنے کا جتن کیا گیا ہے۔ اس حصے کے آخر میں منٹو کے وژن کو موضوع بنایا گیا ہے جو شمیم حنفی کے اس بیان کا ردِ عمل ہے کہ منٹو کے ہاں کوئی بڑا وژن نہیں ہے۔

کتاب کا چوتھا حصہ شاعری پر تحریر کیے گئے مضامین کا احاطہ کرتا ہے جس میں اقبال ، فیض ،حسرت موہانی ، مختار صدیقی ، ن م راشد اور اختر الایمان جیسے شاعر شامل ہیں۔ آخر میں نثری نظم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔شاعری اور اس کے تراجم تہذیبوں کے ثقافتی عناصر کی لین دین میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی شاعری قارئین کے فکر و شعور کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ایم خالد فیاض بڑی شاعری اس شاعری کو خیال نہیں کرتے جس میں کائنات سے سمجھوتہ کرنے کا عنصر موجود ہو۔ ان کے خیال میں بڑی شاعری کائنات اور زندگی کے تصادم سے جنم لیتی ہے جس میں فکر جذبہ ، احساس اور فنی شعور بیک وقت کار فرما دکھائی دیتے ہیں۔ اسی حصے کے آخر میں نثری نظم کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر بھی بات کی گئی ہے۔

کتاب کا پانچواں حصہ متفرق موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان میں سے پہلا مضمون "جدیدیت کی تحریک :مستقبل کے امکانات”کے تحت قلم بند کیا گیا ہے۔مصنف نے اس میں جدیدیت کے خدو خال متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغربی جدیدیت میں ماضی سے ناراضی ، حال سے بے زاری اور مستقبل سے نا امیدی کے رجحانات موجود ہیں۔ فرد نے سماجی اور معاشرتی فلسفوں سے منھ موڑ کر فرد کے وجود اور نفس سے متعلق فلسفوں پر دھیان دینا شروع کر دیا۔ اردو میں وجودیت کا اظہار کافی بعد میں ہوا جو ترقی پسندی کے ردِ عمل کے نتیجے میں سامنے آئی لیکن وہ مارکسزم کے اثرات سے کلی طور پر آزاد نہیں رہ سکی۔

اگلا مضمون مؤرخ کے لئے تہذیبی اور سماجی شعور کی اہمیت کے حوالے سے قلم بند کیا گیا ہے جس میں مصنف تاریخ کو محض سنین اور مصنفین کے ناموں کے مجموعے ماننے سے انکاری ہے۔ اس کا خیال ہے کہ تاریخ مرتب کرتے ہوئے تاریخ نگار کو معاصر سماجی و تہذیبی شعور اور ادبی علوم کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ "غیر افسانوی نثر کی تدریس:نیا تناظر”کے عنوان سے ایک اور اہم مضمون اس حصے میں شامل ہے۔ مصنف کے نزدیک عموماً جامعات میں ایسی نثر جس میں کہانی کا عنصر موجود ہو اسے افسانوی نثر کی ذیل میں رکھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے اور وہ نظر جس میں کہانی پن موجود نہ ہو اسے اسالیبِ اردو نثر کے ذیل میں پڑھایا جاتا ہے جس سے اجتناب برتا جا نا نہایت ضروری ہے۔

نثر کی تدریس نظم کے مقابلے میں مشکل ہے لیکن مسئلہ یہ ہے بہت سے مدرس نثر کو بھی نظم کی شعریات کے تناظر میں پڑھاتے ہیں جب کہ نثر کی اپنی شعریات متشکل ہو چکی ہے۔اگلا مضمون ” وارث علوی کا حالی ” کے عنوان سے کتاب میں شامل ہوا ہے جس میں وارث علوی کی کتاب "حالی ، مقدمہ اور ہم ” کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔وارث علوی معاصر ناقدین کی تشریحاتِ حالی سے نا مطمئن تھے۔ انھیں ان ناقدین پر اعتراضات تھے جس کے نتیجے میں وارث علوی کا حالی کی تنقید پر تجزیہ سامنے آیا۔ وارث علوی نے حالی کے ناقدین کا مدلل انداز میں دفاع کیا ہے جسے اس مضمون میں سمیٹا گیا ہے۔

اس کتاب کے چھٹے اور آخری حصے میں دو مضمون شامل ہیں۔ پہلا مضمون ” فرائیڈ، جنگ،تہذیب اور انسانی جبلت” کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔اس مضمون میں ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے جنگ کے حوالے سے نظریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔فرائیڈ کے مذکورہ نظریات اس کے مضمون” جنگ اور موت سے متعلق کچھ خیالات” اور اس کے خط جو اس نے آئن سٹائن کے خط کے جواب میں لکھا تھا، اخذ کیے گئے ہیں۔ مضمون دلچسپ نکات لئے ہوئے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس حصے کا دوسرا مضمون ” عصری تاریخ کا قضیہ” کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ابھی تک ہم خیال کرتے آئے ہیں کہ تاریخ کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے جبکہ اب ہم اس سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ اب تاریخ ماضی کی ہی نہیں ہوتی بلکہ حال اور مستقبل بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ایم خالد فیاض نے عصری تاریخ کے تصور کو اس مضمون میں مہارت سے واضح کیا ہے اور تاریخ کے حوالے سے کئی اہم نکات سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

"متن ، قرات اور نتائج” ڈاکٹر ایم خالد فیاض کی ایسی کتاب ہے جو اپنے قاری کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔انھوں نے جو تجزیے پیش کیے ہیں اس سے ہم معاصر عہد کے ادب کی صورتِ حال کا نہ صرف بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اس کی سمت نمائی بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصے سے اردو تنقید میں احتشام حسین ،ممتاز حسین ،وارث علوی اور دیوندر اسر کے بعد جو فکر و نظر اور تعقل کا فقدان نمایاں تھا اس کمی کو بھی مذکورہ کتاب سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ان مضامین سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عتیق اللہ، قاضی افضال حسین ، شافع قدوائی اور آصف فرخی کی روایت کے امین ہیں جو آگے بڑھ کر ان کے کام کی سمت کو مزید واضح کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments