حویلی کے راز: منیر مانک کا سندھی افسانہ – 2
گزشتہ سے پیوستہ
میں مسلسل منمناتا رہا، پھر میں نے حکیم صاحب کو دیکھا کہ کہیں اس نے میری بات تو نہیں سن لی۔
خوش قسمتی سے حکیم صاحب ہاون دستے میں دوائی کوٹنے میں مشغول تھا، اپنے خیالات کی دنیا میں گم سم تھا اور میری کہی ہوئی غیر ارادی بات سے بالکل بے خبر تھا۔
اسی لمحے، میری تخیلاتی وادی میں بچپن کی یادوں کا سیلاب امڈ آیا، ایسے کارنامے جو لاشعوری طور پر مجھ سے سرزد ہوئے تھے اور اب وہ موم کی طرح پگھل کر میرے شعور کے نہاں خانوں میں داخل ہو رہے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا، شاید آٹھ یا نو برس کا ، میں حویلی سے لسی لینے کے لئے جاتا تھا۔
مائی ساراں جو حویلی کی سینئر خادمہ تھی، لسی بلونے کا کام کرتی تھی۔
ہر صبح، میں برتن مائی ساراں کے پاس لے جاتا اور لسی لینے کے لئے برتن اس کے قریب رکھ دیتا، گاؤں کے دوسرے بچے، لڑکے اور لڑکیاں بھی لسی لینے کے لئے اپنے اپنے برتن مائی ساراں کے پاس لاتے تھے۔
میں ان تمام بچوں سے بڑا تھا، لسی بلونے کے بعد مائی ساراں ترتیب وار لسی بچوں میں تقسیم کرتی تھی۔
حویلی میں اور بھی بہت سی خادمائیں تھیں جن میں کچھ نوجوان، کچھ ادھیڑ عمر کی اور کچھ ضعیف العمر تھیں، ہر ایک کو اپنا اپنا کام سونپا گیا تھا اور وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی کام میں مشغول رہتی تھیں۔
بڑی بی ہر وقت جھولے میں جھولتی تھی ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی دائمی مرض لاحق ہو گیا جو اس کے چلنے پھرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
سائیں دانیال شاذ ہی حویلی کا چکر لگاتے تھے ویسے وہ اکثر کراچی اور لاہور میں اپنی شاندار قیام گاہوں میں رہا کرتے تھے۔
سائیں دانیال کی چھوٹی بیٹی شہر بانو حویلی میں سب کی توجہ کا مرکز تھی اور ہمہ وقت حویلی میں مستیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتی تھی، صحن میں کبھی ادھر سے ادھر چھلانگ لگاتے لطف اندوز ہوتی تھی۔
سائیں دانیال کی اولاد نرینہ نہیں تھی ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں، چھوٹی بیٹی شہربانو تھی اور سب اس کا بہت خیال رکھتے تھے، اس وقت وہ نو، دس سال کی تھی، اس کا گول چہرہ اور صاف رنگ تھا اور گڑیا جیسی بڑی سیاہ آنکھیں۔
اس کی جڑواں بھویں تلوار نما تھیں، یہ اس کے حسن میں مزید اضافہ کرتی تھیں، جب کوئی خادمہ اس کے لمبے بالوں کو کنگھی کرتی تھی تو اس کا ماتھا نصف ماہتاب کی طرح چمکتا تھا۔
شاہو کی بڑی بہن جنت بی بی بھی اسی حویلی میں رہتی تھی وہ شاہو سے تقریباً تین چار برس بڑی تھی، اس کے چہرے کے خد و خال شاہو سے ملتے جلتے تھے۔ اگر شاہو کونپل کی مانند تھی تو جنت بی بی بھی بہار کے پھول کی طرح تھی جس کی نرم و نازک کونپلیں اور خوشبو ہر کسی کی توجہ کا مرکز تھی۔
میرے ذہن میں بچپن کی یادیں دریائے سندھ کی مانند رواں تھیں۔ ان دنوں شاہو بھی جوان تھی اور جنت بی بی کی طرح اس کی بھی شادی قرآن شریف سے کی گئی تھی، کیونکہ ان کے والد کا خیال تھا کہ رشتے داروں میں ان کے لیے کوئی موزوں رشتہ نہیں ہے۔
افواہ یہ بھی تھی کہ ان کی شادی اس لیے بھی قرآن سے کی گئی تاکہ کل ان کے لیے جائیداد کی تقسیم کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ان کی دادی جان بھی اس کی شادی کی تقریب میں شامل تھیں اور ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ جنت بی بی کو عروسہ کی طرح سجایا گیا تھا، اسے عروسی لباس بھی پہنایا گیا تھا، اس کے ہاتھوں میں مہندی لگائی تھی اور جھولے میں ایک جانب قرآن رکھا گیا اور دوسری طرف اسے بٹھایا گیا تھا، قرآن شریف کے قریب اگر بتیوں کو بھی جلایا گیا تھا جس کی وجہ سے پورا کمرہ معطر تھا۔
ایک دوشیزہ جو وہاں موجود تھی، وہ ایک ایسے احساس کی کیفیت سے گزر رہی تھی کہ جنت بی بی کے نوخیز خواہشات اور خواب اگر بتی کی طرح سلگ رہے ہیں اور سلگتے سلگتے راکھ ہو جائیں گے۔
جاری ہے۔
- شمالی علاقہ جات کی سیر ( 5 ) - 06/08/2024
- شمالی علاقہ جات کی سیر۔( 2 ) - 03/08/2024
- شمالی علاقہ جات کی سیر (1) - 31/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).