بک ریویو : دھوپ میں لوگ (ناول)


Loading

غسان کنفانی کا ناول، ”دھوپ میں لوگ“ فلسطینی ادب کے اہم شاہکاروں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقات میں ناول، مختصر کہانیاں، ڈرامے، بچوں کی کہانیاں، ادبی تنقید، اور سیاسی تحریریں شامل ہیں۔ کنفانی فلسطین کی آزادی کے ترجمان تھے اور ہفتہ وار اخبار، الہدف (مقصد) کی ادارت کرتے تھے۔ اپنی بیشتر افسانوی تحریروں میں، کنفانی جدیدیت پسند بیانیہ تکنیک استعمال کرتے ہیں تاکہ اجنبیت، جلاوطنی، اور قومی مزاحمت کے موضوعات پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ تاہم، کنفانی کے کام کو ان کے کئی ہم عصر مصنفین سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ ان کی ان موضوعات کو مشرق و سطیٰ کے سیاق و سباق سے بالاتر کر کے انہیں عالمگیر بنانا ہے۔

یہ ناول تین فلسطینی پناہ گزینوں کی کہانی پر مشتمل ہے جو اپنے آبائی وطن سے فرار ہو کر ایک نئی زندگی کی تلاش میں عراق سے کویت جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی کا مرکزی نقطہ ان کی جدوجہد اور مشکلات ہیں جو وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے برداشت کرتے ہیں۔

ناول کا بنیادی موضوع فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور مایوسی ہے۔ اس میں تین کرداروں کی کہانی بیان کی گئی ہے : ابو قیس، اسد، اور مروان۔ یہ تینوں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اب ایک بہتر زندگی کی تلاش میں ہیں۔ کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ تینوں افراد بصرہ پہنچتے ہیں اور وہاں سے کویت جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔

ابو قیس ایک بزرگ شخص ہے جو اپنی زندگی میں کئی مشکلات سے گزرا ہے۔ اس کا کردار فلسطینی عوام کی قوت برداشت اور امید کی علامت ہے۔ اس کے اندر اپنے وطن کی محبت اور واپسی کی خواہش بہت گہری ہے۔

اسد ایک جوان اور پرعزم نوجوان ہے جو کسی بھی قیمت پر اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا کردار جوان نسل کی عزم و حوصلہ کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے مستقبل کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔

مروان ایک نوجوان ہے جو اپنے خاندان کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑتا ہے۔ اس کا کردار خاندان کی محبت اور قربانی کی علامت ہے۔

غسان کنفانی نے ”دھوپ میں لوگ“ میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی کی حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ یہ ناول نہ صرف ایک داستان ہے بلکہ ایک سیاسی بیانیہ بھی ہے جو فلسطینی مسئلے کی گہرائیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ کہانی کے ذریعے مصنف نے دکھایا ہے کہ کیسے فلسطینی عوام اپنے حقوق اور وطن کی واپسی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اس ناول میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ علامتی ہے اور یہ کہانی کو مزید گہرائی اور معنویت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ”سورج“ کو ایک اہم علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو گرمی، مشکلات اور چیلنجز کی نمائندگی کرتا ہے۔ سورج ایک فطری علامت ہے جو فلسطینی پناہ گزینوں کو درپیش سخت حقائق کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہذا، اسے ایک سیاسی استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو جلاوطن فلسطینیوں کی ”جہنمی“ زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس روشنی میں، سورج کے موضوع کا علامتی استعمال کنفانی کے نوآبادیاتی دور کے مزاحمتی ادب کا احتجاجی پیغام ہے۔ یہ تکلیف، تنہائی، نا امیدی، اور بے بسی کی بدترین دنیا کو پیش کرنے کے لیے سخت حقیقت پسندی کو استعمال کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ کنفانی کی افسانوی تحریروں میں، سورج براہ راست درد، اجنبیت، اور مصائب کی نمائندگی کرتا ہے، بجائے اس کے کہ اسے امید، روشنی، اور تجدید کی علامت کے طور پر دیکھا جائے جیسا کہ عموماً ادبی اور اساطیری تشریحات میں ہوتا ہے۔ روشنی اور پیدائش کی نمائندگی کرنے کے بجائے، کنفانی کی افسانوی دنیا میں سورج نقصان اور موت کی علامت ہے

کچھ لوگوں نے اس ناول کے اختتام پر سخت تنقید کی ہے، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ کنفانی نے بے بس فلسطینیوں کو کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔ تاہم، ایک زیادہ قائل کرنے والی تشریح عرب قومیت کی اس وقت کی حیثیت کو مدنظر رکھے گی جب یہ ناول لکھا اور شائع ہوا تھا۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں، عرب قومیت۔ یعنی یہ سیاسی اور فلسفیانہ عقیدہ کہ تمام عرب ایک قوم بن جائیں گے۔ سیاستدانوں اور کارکنوں کی گفتگو پر حاوی تھا۔ لیکن اگر عرب قومیت محض ایک نظریہ سے زیادہ کچھ تھی، تو پھر فلسطینیوں کو ایک دوسرے عرب ملک میں داخل ہونے کے لیے اپنی جانیں کیوں خطرے میں ڈالنی پڑتیں؟ اگر تمام عرب ایک ہی قوم تھے، تو فلسطینی اب بھی مہاجرت کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں۔

ناول میں کرداروں کی تشکیل اور ان کے اندرونی جذبات کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ ہر کردار کی اپنی ایک الگ کہانی ہے جو مجموعی کہانی کو مکمل کرتی ہے۔ ناول کے واقعات کی ترتیب اور کہانی کی رفتار قاری کو مسلسل دلچسپی اور تجسس میں مبتلا رکھتی ہے۔ مصنف نے کہانی کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری ہر لمحہ کہانی کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔

غسان نے ناول میں بہت سنجیدہ اور حساس موضوعات کو چھیڑا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور ان کی مایوسی کو بہت گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ سنجیدگی کہیں کہیں قاری کو بوجھل پن کا احساس بھی دیتی ہے۔

ناول کا خاتمہ بہت جذباتی اور اثر انگیز ہے۔ تینوں کرداروں کی موت ایک بہت بڑا دھچکا ہے جو قاری کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ تاہم، یہ خاتمہ کہانی کی حقیقت پسندی اور مصنف کے پیغام کو مزید موثر بناتا ہے۔

غسان کنفانی کا یہ ناول ایک شاہکار ناول ہے جو فلسطینی عوام کی مشکلات اور ان کی جدوجہد کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ یہ ناول نہ صرف ادب کے شائقین کے لئے بلکہ ہر اس شخص کے لئے قابل مطالعہ ہے جو فلسطینی مسئلے کو سمجھنا چاہتا ہے۔ غسان نے اس ناول کے ذریعے ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ مشکلات کے باوجود امید اور جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔

Men in the Sun
اس خوبصورت ناول کا ترجمہ مرحوم محترم شاہد حمید صاحب نے کیا تھا اور اسے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments