بیٹی مقدس! تم جاہل یا اجڈ نہیں ہو
میں اکیلے سفر کر سکتی ہوں، مردوں کے بیچ ملازمت کر سکتی ہوں، اپنا گھر بار اکیلے چلا سکتی ہوں، کسی پیزا ہٹ یا ہوٹل میں بطور ویٹر کام کر سکتی ہوں، اپنے ماں باپ اور خود کا خیال رکھنے کے لیےہر وہ کام کر سکتی ہوں جو کوئی بھی مرد کر سکتا ہے۔ میرے والد اور والدہ دونوں ٹی بی کے مریض ہیں، ان کی میڈیسن لینے کے لیے میاں چنوں سے کوسوں دور اکیلے وین کے ذریعے سفر کرتی ہوں۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے علاقہ میں کوئی میڈیکل سٹور نہیں ہے؟
جواب میں کہنے لگی جی بالکل ہے۔ لیکن ہمارے پاس میڈیسن خریدنے کے لیے اتنے زیادہ پیسے نہیں ہوتے، یہاں ایک امیر کبیر شخص ہے جو غرباء کو مفت میڈیسن دیتا ہے تو میں مقررہ تاریخ پر میڈیسن لینے پہنچ جاتی ہوں، اتنی ساری مشقت کے پیچھے میری سوچ یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی بہت کمائی سے میرے والدین پیٹ بھر کے کھانا کھا لیں، بجلی و گیس کے بل آسانی سے ادا ہو جائیں اور یہ مشکل وقت آسانی سے کٹ جائے۔ والدین کی دوائی میں بھی وقفہ نہ آئے اور گھر کا نظام اور راشن پانی بھی آسانی سے چلتا رہے۔
اس سے زیادہ کی فی الحال خواہش نہیں ہے۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے بڑے بھائی نہیں ہیں؟
اس نے نظریں جھکاتے اور آنسو چھپاتے ہوئے کہا کہ بڑے بھائی کی شادی ہو گئی تھی وہ بچوں سمیت لاہور شفٹ ہو گئے اور اپنی زندگی میں مگن کاروبار دنیا میں مصروف رہتا ہے، ہم ایسے سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں اور پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سر، بس اسی چھپن چھپائی میں زندگی بسر ہو رہی ہے۔
اور دوسرا بھائی ہے وہ مستریوں کے ساتھ مزدوری وغیرہ کرتا ہے، تھوڑا بہت کما لیتا ہے اور کچھ نا کچھ میں کر لیتی ہوں بس زندگی کا پہیا یونہی گھومتا رہتا ہے۔
اتنے سخت اور مشکل حالات کے باوجود کیا تم اپنی زندگی سے خوش ہو یا زندگی سے کوئی گلا ہے؟
میرے سوال کے جواب میں کہنے لگی مجھے بالکل بھی کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے، شروع شروع میں تو ایسا لگتا تھا کہ ان حالات میں زندگی سسک سسک کر ہی کٹے گی۔
اب تو زندگی کی احسان مند ہوں کہ جس نے مجھے جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے، تھوڑی سی عمر میں وہ سب سکھا دیا جو بہت آگے جا کے سیکھنا تھا۔
اب تو زندگی ایک طرح سے ایڈونچر لگتی ہے، ہر روز کچھ نیا سیکھتی ہوں، مردوں کے رویوں سے خاصی حد تک آشنائی ہو چکی ہے، جب کوئی مرد مجھ سے مخاطب ہوتا ہے تو میری چھٹی حس فوری بتا دیتی ہے کہ فلاں مجھے کن غلیظ نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ پہلے تو بہت کچھ عجیب لگتا تھا اور میں قادر مطلق سے کبھی کبھی تنہائی میں رو کر شکوہ کرنے لگتی تھی
”اے مالک تونے مجھے ایک خاتون کے روپ میں ہی کیوں پیدا کیا ہے؟“
اب تو خیر ایک عادت سی ہو گئی ہے، جو چیز مجھے تھکنے یا ہارنے نہیں دیتی وہ میرے پاپا مما کا مجھ پر اعتماد اور بھروسا ہے، اسی اعتماد کے سہارے میں ساری زندگی بغیر کسی سہارے کے بسر کر سکتی ہوں اور میں نے خود سے عہد کر رکھا ہے کہ کبھی اپنے بوڑھے والدین کا سر جھکنے نہیں دوں گی۔
میٹرک کرنے کے بعد تم نے مزید نہیں پڑھا، کیا کبھی مزید پڑھنے کی خواہش نے انگڑائی نہیں لی؟
کہنے لگی کہ مجھے میٹرک کیے کم و بیش چار سال بیت چکے ہیں، کئی بار سوچتی ہوں لیکن حالات نے اجازت نہیں دی۔ گھر کے حالات بہتر ہو جانے کے بعد ضرور آگے پڑھوں گی۔ فی الحال تو زندگی نے وقت سے پہلے اس قدر میچور بنا دیا ہے کہ آسانیاں سمیٹنے کے بعد بھی شاید میں زندگی کے احسان نہ اتار پاؤں۔
تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا اس سماج میں لڑتے لڑتے، کیا خیال ہے زندگی تلخ ہے اور سماجی رویوں کے متعلق تُمہارا کیسا تجربہ رہا؟
جواب میں کہنے لگی کہ زندگی تو خیر بہت تلخ ہے، نجانے کتنی بار ٹوٹ کر بکھری ہوں، اکیلے میں روئی ہوں، سسکیاں لے کر تڑپی ہوں لیکن گھر کے حالات دیکھ کر خاموشی سے خود کو سمیٹ لیتی ہوں۔ بخوبی جانتی ہوں کہ اب میں ہی مما پاپا کے لیے امید کی ایک کرن ہوں، ان کی ایک طرح سے آس ہوں اور ان کے چہرے پر مسکان کا سبب ہوں۔ جہاں تک سماجی رویوں کی بات ہے اس کی تو خیر اب عادی ہو چکی ہوں، نجانے کتنے مرد عجیب و غریب نگاہوں سے روزانہ گھورتے ہیں، جہاں بھی کام کیا ہے اس بات کا دھڑکا یا ڈر تو ہر وقت لگا رہتا ہے کہ تمہیں اس سماج میں صرف جنسی مشین سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے تو روزانہ نجانے کتنے مرد مجھے طوائف یا چالو سمجھ کر غلیظ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کیا پتا کہ زندگی کی تلخیوں نے اسے اس احساس سے ہی ماورا کر دیا ہے ”کہ وہ ایک خاتون ہے“
اس کی وین کا وقت ہو چلا تھا اور وہ ایک طویل عرصے کے بعد اپنے اسی تعلیمی ادارہ میں مجھ سے ملاقات کرنے آئی تھی جہاں سے اس نے اپنے میٹرک کے امتحان کی تیاری کی تھی۔ شاید وہ ماضی کے ان بے فکرے سے دنوں کی یاد تازہ کرنے آئی تھی جب وہ اپنے سائیکل پر سوار ہو کر اکیڈمی پڑھنے آیا کرتی تھی۔
میں نے اسے بتایا کہ مجھے تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ تم ایک بہادر بیٹی ہو اور زندگی بڑی بہادری سے گزارو گی۔
وہ جاتے ہوئے ہنسی اور پر اعتماد انداز میں کہنے لگی، جی سر بالکل۔
زندگی کے تلخ تجربات نے مجھے بہادر بنا ہی دیا ہے۔
جب وہ چلی گئی تو میری آنکھیں نم ہو گئیں اور خود کلامی کے انداز میں خود سے مخاطب ہوا کہ بیٹی مقدس میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ اس سماج کے برائے نام اور کھوکھلے دانشور تو تمہیں جاہل اور اجڈ سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک 95 فیصد خواتین جاہل ہیں۔
یہ تو تم سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں تم ان کے سامنے کھڑی نا ہو جاؤ۔ جب کبھی تمہیں موقع ملتا ہے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے کا ، تو یہ فوراً سے سہم جاتے ہیں اور تمہاری بلند آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کھوکھلے دانش گردوں کو بڑے اچھے سے پتا ہے ” کہ جو تم جانتی ہو وہ یہ نہیں جانتے“
اس سماج کی ہر ”مقدس“ جانتی ہے کہ تم کتنے باکردار ہو؟ سوشل میڈیائی یوٹیوبر اور ٹی وی اسکرین پر دانشوری کے مکھوٹے میں خواتین کو اخلاقی بھاشن دینے والے یہ پارسا عملی زندگی میں خواتین کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ بہت اچھے سے جانتی ہیں۔
ان پارساؤں کو اسی بات کا تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی مقدس اس سماج کے مرد کی اصل کہانی نا لکھ ڈالے، کہیں پورا سچ نا بتا دے۔
- میرے پاس فی الحال تم ہو۔ - 20/03/2025
- مولانا طارق جمیل، انجینئر مرزا فیکٹر اور ارشاد بھٹی - 18/03/2025
- کیا اوریا مقبول جان کی شخصیت ہماری مجموعی بیوروکریسی کی آئینہ دار ہے؟ - 17/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).