سنہری خیمہ بستی: شکست تخت پہلوی (8)
پرسیپولس میں جشن تاج پوشی کا تصور گیارہ سال پہلے شجاع الدین شفا نے پیش کیا جو ایرانی اسکالر تھے۔ شاہ نے اس کی منظوری دے دی اور ایک بجٹ کمیٹی بنا دی لیکن ملک میں غیر یقینی حالات اور وسائل کی کمی کی وجہ سے منصوبے کو پورا ہونے میں دس سال لگ گئے۔ 1970 کے موسم سرما میں شاہ نے اعلان کیا کہ وہ ایک ایسا جشن منانے کا اہتمام کر رہے ہیں جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ یہ جشن پرسیپولس میں ہو گا جو داریوش کی وسیع سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ شاہ کو پرسیپولس سے عقیدت بھی تھی اور ایرانی تاریخ سے رومانس بھی۔ وہاں ایک خیمہ بستی کی تجویز پیش کی گئی۔
شاہ کو خیمہ بستی کا خیال بہت اچھا لگا۔ جہاں بیرونی ممالک سے آئے مہمانوں کے قیام کا انتظام کیا جانا تھا۔ سال 1520 میں فرانس کے بادشاہ فرانسس اول نے انگلینڈ کے ہنری ہشتم کے لیے بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ ایک خیمہ بستی بنائی تھی اور یہ فیسٹیول یورپ کا مقبول ترین فیسٹیول تھا۔ ایران کی متعلقہ وزارت نے اس جشن کا تخمینہ 100 ملین ڈالر لگایا۔ اس میں ایک تہائی ایران کے دولتمند افراد نے چندے کے طور پر دیے۔ ایک تہائی وزارت نے دیے اور باقی کا تہائی جشن کے لیے جو بچت کی جا رہی تھی، وہاں سے آیا۔ شاہ پر مخالفین نے شدید تنقید کی انہیں ظالم آمر کہا گیا کہ بیش قیمت پکوان مہمانوں کے لیے منگایا جا رہا ہے اور ملک کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ شاہ اس پر برہم ہوئے ”تو میں اپنے مہمانوں کو کیا کھلاؤں؟ نان اور مولی؟“ ۔
جلد ہی یہ بات سامنے آ گئی کی اخراجات کا تخمینہ سو سے بڑھ کر تین سو میلن ہو گیا۔ ملکہ فرح نے جشن کی تیاریوں میں خود دلچسپی لی اور بہت سے کام اپنے ذمے لے لیے۔
جشن کی خبروں نے سوشلسٹ گروپوں کو متوجہ کر لیا جو سرحد پار کر کے فلسطین کے مزاحمتی کیمپوں میں جو عراق، لبنان اور جنوبی یمن میں قائم تھے پہنچ گئے۔ وہاں انہیں ہتھیار بھی ملے، آتش گیر مواد بھی اور اس کو کیسے پلانٹ کیا جاتا ہے، بنک میں ڈاکے، اغوا اور ہائی جیک کرنے کی ٹریننگ بھی ملتی۔ مزاحمتی حملے ہونے لگے۔ نومبر 1970 میں امریکہ کے سفیر کو امریکن سفارت خانے کے باہر سے اغوا کرنے کی کوشش ہوئی۔ تین مہینے بعد صوبہ گیلان میں سیاھکل میں ایک گوریلا حملہ ہوا۔ حملہ آوروں میں صرف ایک زندہ بچا جس کا نام حمید اشرف تھا۔ وہ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ بنک ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا۔ بنک کے لوٹے ہوئے پیسوں سے وہ ہتھیار خریدتا اور اپنے گروہ میں تقسیم کرتا۔ اسے ماڈرن روبن ہڈ کہا جانے لگا۔ ریاست ان باغیوں سے سختی سے نمٹی۔ سینکڑوں مشکوک افراد جو انتہا پسند اور حکومت مخالف تھے ان کو گرفتار کیا گیا۔ ستمبر کے اواخر میں چار مسلح افراد نے شاہ کی بہن اشرف کے بیٹے شہرام کو تہران میں اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اس قسم کے واقعات روکنے کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔ ایک اسپیشل اینٹی ٹیرر کمیٹی بنی جس میں ساواک، ژندرامے اور ملٹری انٹلیجنس شامل تھیں۔
12 اکتوبر 1971 بروز منگل صبح گیارہ بجے شہر شیراز کے باہر پاسارگارد کے مقام پر فضا ایک سو ایک توپوں کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ شاہ کے ساتھ ان کا خاندان، حکومتی افسران، فوجی جنرل اور قبائلی سردار بھی تھے۔ شاہ کے لیے یہ لمحات بہت اہم اور قیمتی تھے۔ وہ بچپن سے ہی کوروش کی عظمت اور وسیع سلطنت سے حد درجہ متاثر رہے تھے۔ اپنے تیس سالہ حکمرانی میں یہ لمحہ ان سب سے قابل فخر لمحہ تھا۔ ٹیلیویژن ناظرین نے دیکھا کہ شاہ فوج کے کمانڈر ان چیف کی یونیفارم میں سینے پر میڈل سجائے فخر سے سر بلند کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایک دل پذیر تقریر کی اور ان کی آواز جذبات سے مغلوب تھی۔ ”اے کوروش، شاہ عظیم، شاہوں کے شاہ، ہخامنشی شاہ، ایران کے شاہ، میں ایران کا شہنشاہ اپنی اور اپنے لوگوں کی طرف سے آپ کو اپنا سلام پیش کرتا ہوں۔ آج ایرانی پرچم بلند ہے اسی طرح جیسے پرانے عظیم زمانے میں تھا۔ ایران دنیا کو سلامتی اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ جو شمع آپ نے روشن کی تھی اسے کوئی طوفان بجھا نہیں سکتا۔ کوروش اعظم آپ ابدی نیند میں ہیں۔ ہم بیدار ہیں اور ہمیشہ بیدار رہیں گے“ ۔ شاہ کے پیچھے ان کا ولی عہد کھڑا تھا اور ان کے ساتھ فرح روایتی سفید اور سبز لباس میں ملبوس سر پر زمرد اور ہیروں کا تاج پہنے فخر سے کھڑی تھیں۔ فرح جشن کی تیاریوں کے سلسلے میں کئی ماہ کام کے دباؤ میں رہیں اور انہوں نے سگریٹ نوشی اور مسکن دوا استعمال کرنی شروع کردی۔ ان کے وزن میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔
واشنگٹن پوسٹ کو فرح نے ایک انٹرویو دیا۔ انٹرویو لینے والے نے دیکھا کہ ملکہ بہت دبلی اور تھکی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ میک اپ بھی ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے چھپا نہ سکا۔ جشن کے سلسلے میں وہ خود پر لگائے گئے الزامات کا دفاع کر رہی تھیں ”لوگ تنقید کرنے میں حق بجانب ہیں لیکن جشن کی تیاری دس سال پہلے سے ہو رہی تھی، میں اس میں بہت بعد میں شامل ہوئی۔ وہ بھی اس لیے کہ شاہ چاہتے تھے کہ میں شریک ہوں۔ لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے پاس خیمے بنانے والے نہیں تھے۔ خیمے ڈیزائن کرنے والے بھی نہیں تھے۔ پھر سب کچھ بہت جلدی کرنا پڑا۔ مجھے وقت ہی نہیں ملا کہ میں خود یہ سب دیکھتی۔“ وہ اپنا پسندیدہ سگریٹ ولسن سلگا کر بولیں ”آپ کو اپنی قسمت کو مان لینا چاہیے۔ آپ جیسے ہیں اس پر خوش رہیں۔ دباؤ اور تھکن میں کمی آجاتی ہے جب آپ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں“۔
بایں ہمہ ایک شخص پرسیپولس میں موجود نہیں تھا لیکن بے خبر نہیں تھا۔ 13 اکتوبر 1971 کو آیت اللہ خمینی نے نجف سے ایک گرج دار بیان دیا اور شاہ کی خوشیوں کو گہنا دیا۔ پہلی بار کھل کر کہا کہ وہ ایرانی بادشاہت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ طرز حکومت اسلام کے منافی ہے۔ جشن میں دنیا بھر سے لیڈر اور حکمران آئے تھے لیکن خمینی کی نظر میں یہ سب نامناسب تھا۔
”یہ حکومت زبردستی مسلط کی گئی ہے جو چوروں کی حکومت ہے جس کا مقصد صرف اپنی خواہشات کی تکمیل ہے۔ جب اس سے نجات ملے گی تب ہی لوگ خوشی سے جشن منائیں گے یہاں کوئی محفوظ نہیں۔ بادشاہت ایران کی تاریخ کا ایک سیاہ دور ہے۔ ایرانی بادشاہوں نے نسل کشی کی ہے۔ اور انسانی سروں کے مینار بنائے ہیں۔ پادشاہی بدترین طرز حکومت ہے اور انسانیت کے لیے شرم ناک ہے“ ۔
آیت اللہ خمینی نے کہا وہ شاہ کی حکومت میں زندہ رہنے کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ ساتھ ہی اپنے ڈیڑھ لاکھ مذہبی طالب علموں اور اسکالرز کو متحد ہو کر اس شیطانی نظام کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہونے کا کہا۔
پرسیپولس کی سنہری خیمہ بستی میں مہمان شاہان، صدور، وزرائے اعظم اور معززین ایک دوسرے سے مل رہے تھے بلکہ گھل مل رہے تھے۔ شاہ خوش تھے کہ جشن کامیاب ہے لیکن کچھ لوگ ناخوش بھی تھے کہ مغربی ممالک سے چند سربراہان شریک نہیں ہوئے۔ امریکی صدر نکسن نے اپنے مشیروں کی ہدایت پر نہ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ سیکیورٹی کے مسائل تھے۔
فرانس کے یوں تو ایران کے ساتھ عمدہ تجارتی تعلقات تھے لیکن صدر جارج پومپیدو بھی نہیں گئے جب انہیں یہ پتہ لگا کہ وہ مہمانوں میں کسی نچلی نشست پر بیٹھیں گے۔ جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے بھی معذرت کرلی۔ برطانوی سفیر نے نخوت سے کہا ”ہماری ملکہ بین الاقوامی ’جمبوری‘ میں شرکت نہیں کرتیں“ برطانیہ کو خلیج فارس سے رائل نیوی نکالے جانے کے بعد سے پرانی پرخاش تھی۔ مزید توہین کرتے ہوئے برطانوی ولی عہد نے بھی اپنی فضائیہ کی مشقوں کو ملتوی کرنے سے انکار کیا۔ لیکن ملکہ کے شوہر پرنس فلپ اور بیٹی شہزادی این کو بھیج دیا گیا۔ حسب معمول وہ دونوں بدمزاجی کا مظاہرہ کرتے رہے۔
سنہری خیمہ بستی میں تین بڑے خیمے تھے اور 59 قدرے چھوٹے خیمے ان کے اطراف میں درآمد شدہ سرو کے درخت۔
سنہری خیمہ بستی میں سیکیورٹی کے خاص انتظامات تھے۔ چاروں طرف خاردار باڑ لگی ہوئی تھی اور الیکٹرانک مانٹرینگ کا سسٹم تھا۔ سب مشین گنوں سے لیس سینکڑوں سپاہی تعینات تھے۔ ایک مہمان نے کہا ”پورا ایریا دیوار برلن جیسا نظر آتا ہے“۔ خیموں کی کھڑکیاں بلٹ پروف تھیں۔ پوری زمین کی کئی مہینوں تک صفائی ہوتی رہی تاکہ زہریلے سانپ، چھپکلیاں اور دوسرے حشرات الارض کو ختم کیا جا سکے۔ پوری خیمہ بستی فرانس سے منگائی گئی تھی۔ 120 جہازوں پر لاد کر یہ خیمے لائے گئے۔ مہمانوں کے طعام کے لیے ہر روز تازہ چیزیں منگائی جاتیں۔ جن خیموں جن میں مہمانوں نے ٹھہرنا تھا وہ پوری طرح ایر کنڈیشنڈ اور خوبصورت آرام دہ فرنیچر سے آراستہ تھے اور سجاوٹ کے لئے کرسٹل فرانس سے آیا تھا۔ فرانس کے تاجروں کے دن بہت مصروف گزرے۔ سارا سامان طیاروں سے ایران بھیجا گیا وہاں سے ٹرکوں پر لاد کر جشن کے مقام تک۔ فرانس کے میکسم ریستوراں سے بہترین کیٹرنگ کروائی گئی۔ خدمتگاروں کے لیے خصوصی قیمتی وردیاں بنائی گئیں۔
اپنے اپنے خیمہ گھروں میں فروکش ہونے کے بعد کچھ مہمانوں نے آس پاس کے پڑوسیوں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کیے اور ملاقاتیں کیں۔ کچھ بڑے خیمے کی طرف گئے جو کلب تھا جہاں لنچ اور کاک ٹیلز کا اہتمام تھا۔ ایک موقع پر یونان کے بادشاہ کانسٹنٹائن اور ڈنمارک کے بادشاہ فریڈریک کے سر آپس میں ٹکرا گئے جب وہ دونوں نیچے گرے ہوئے پھولوں کا ایک گلدستہ اٹھانے کے ایک ساتھ جھکے۔ بادشاہ فریڈریک کے ساتھ کچھ مزید بدمزگی بھی ہوئی جب پہرے داروں نے دیکھا کہ ایک شخص پرانے فیشن کا لباس پہنے کلب میں داخل ہونے کی ’کوشش‘ کر رہا ہے۔ انہیں مشکوک سمجھ کر روکا گیا اور شناختی دستاویز مانگیں۔ بادشاہ نے جیبیں ٹٹولیں کچھ نہ ملا اور اندر داخل ہو گئے۔ گارڈ نے انہیں پکڑ لیا لیکن عین وقت پر کسی نے بادشاہ کو پہچان لیا کہ وہ ڈنمارک کے بادشاہ ہیں۔ ایتھوپیا کے اسی سالہ بادشاہ ہیل سلاسی اپنے پالتو کتے کو آوازیں دیتے دیکھے گئے جو کہیں بھاگ گیا تھا۔ اس کے گلے میں ہیروں سے بنی کالر تھی۔ امریکی نائب صدر زیادہ تر اندر ہی رہے۔ انہوں نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔
14 اکتوبر کی شام ڈائننگ خیمے میں ایک بڑے ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ شاہ نے اس کی میزبانی کی۔ کچھ بدانتظامی رہی۔ سب سے پہلے آنے والے کنگ فریڈریک تھے۔ شاہ اور شاہ بانو سے مل کر انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ انہیں کہاں بیٹھنا ہے۔ وہ زور سے بولے ”کیا کوئی مجھے بتائے گا کہ مجھے کہاں جانا ہے؟“ مہمانوں کی آمد کے اعلان میں بھی غلطیاں ہوئیں۔ امریکہ کے نائب صدر کو افغانستان کا نمایندہ پکارا گیا۔ ہال میں کوئی موسیقی نہیں تھی۔ باہر تیز آندھی کی آواز آ رہی تھی۔
کھانے کی میز پر شاہ ڈنمارک کی ملکہ کے ساتھ آئے اور فرح ایتھوپیا کے ہیل سلاسی کے ہمراہ تھیں۔ اسی طرح مہمانوں کے جوڑے بنے لیکن کسی کے پاس کسی سے کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ گرانڈ ڈنر ساڑھے پانچ گھنٹے تک چلا۔ اس کے بعد آتش بازی ہوئی جو پو پھٹنے تک جاری رہی۔ آتش بازی شروع ہوئی تو ہال میں اچانک تاریکی چھا گئی، الیکٹریشن سوئچ آن کرنا بھول گیا۔ مہمانوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ فرح سب سے زیادہ پریشان تھیں انہیں لگا یہ دہشت گردی کا حملہ ہے۔ ”یہ آتش بازی کس احمق کا کام ہے؟“ فرح نے چلا کر کہا جو مہمانوں نے بھی سن لیا۔ وزیر اعظم علم نے جواب دیا ”کچھ غلط نہیں ہوا“۔ ان کی آواز بھی بلند تھی ”سب کچھ پلان کے مطابق ہو رہا ہے“۔ شاہ اس پر چپ رہے اور اپنی ملکہ کے دفاع میں نہیں بولے۔ اگلے دن بھی جشن جاری رہا اور مہمانوں کو ایرانی تاریخ کے مختلف ادوار سے متعارف کرایا گیا۔
پرسیپولس شیراز سے اب تہران روانگی ہوئی۔ بروز ہفتہ شاہ نے یادگار شہیاد کا افتتاح کیا جس کا ڈیزائن پہلوی اور ساسانی شہنشاہیت کے نشان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سے اگلے دن انہوں نے ایک لاکھ شائقین کے لیے ایک اسٹیڈیم کا افتتاح کیا۔ 1974 میں ایران ایشین گیمز کی میزبانی کرنے والا تھا۔پرسیپولس جشن نے علما میں بے چینی پھیلا دی۔ ان کے نزدیک یہ جشن سراسر شعائر اسلام کے خلاف تھا۔ جلاوطن ایرانی طلبا نے اس جشن کو کسی اور ہی انداز میں دیکھا۔ انہوں نے شاہ کو ایک تلخ لیکن طنزیہ مبارکباد کا بیان دیا کہ شاہ نے ان کا کام بہت آسان کر دیا۔ اپنے جرائم خود ہی سامنے لے آئے۔ غربت کے خلاف جرائم اور عوام کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے جرائم۔
شاہ نے ان الزامات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ 18 اکتوبر بروز پیر شاہ نے سعد آباد میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں 20 ملکوں سے 136 رپورٹروں نے شرکت کی جن میں سے اکثر شاہ کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے جیسے نرسری اسکول میں چھوٹے بچے کہانی سنتے ہوئے ٹیچر کے گرد بیٹھے ہیں۔ شاہ نے تقریب پر اٹھنے والے اخراجات کا دفاع کیا اور اسے ترقی کہا۔ (جاری ہے)
- تیل کا بادشاہ: شکست تخت پہلوی (10) - 26/08/2024
- پہلوی ترقی: شکست تخت پہلوی (9) - 15/08/2024
- سنہری خیمہ بستی: شکست تخت پہلوی (8) - 31/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).