ہم اور ہماری انا


Farrukh saleem Canada

بعض دفعہ انسان کی کامیابیاں اور اکثر اوقات اس کی اچھائیاں بھی اس کی ذات میں ایک خاص قسم کا زعم اور تکبر پیدا کر دیتی ہیں اور وہ خود کو دوسروں سے بہتر اور ممتاز سمجھنے لگتا ہے۔ اسے ایگو کہا جاسکتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم کی جو ماشا اللہ ایک بہت اچھے اور اہم عہدے پر فائز ہیں۔ ہر شخص اس بات کو مانتا ہے کہ وہ بہت ایماندار اور دیانتدار شخصیت ہیں۔ لیکن وہ خود اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورا ہر وقت اور اتنی شدت سے پیٹتے رہتے ہیں کہ ان کے محکمے میں اوپر سے لے کے نیچے تک ہر شخص ان سے بیزار ہے۔ وہ ہر ایک کو خاص طور سے نئے ملاقاتیوں کو بناتے ہیں کہ وہ کتنے ایماندار ہیں۔ اپنی چائے تک گھر سے لاتے ہیں، دفتر کی چائے تک ان کے لئے حرام ہے۔ دفتر کی گاڑی بالکل استعمال نہیں کرتے جب کہ ان کے دفتر کے اکثر اصحاب دفتر کی گاڑی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں پر ہر وقت تبریٰ بھیجتے رہتے ہیں۔ اپنی کئی ماتحتوں کی سالانہ رپورٹ اسی بات پر خراب کر چکے ہیں۔ ان کے اپنے حساب سے ان کے علاوہ ان کے دفتر کا ہر کارندہ رشوت خور اور جہنمی ہے وغیرہ وغیرہ

جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے، بچے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شور مچاتے ہیں تاکہ وہ اپنے والدین کی توجہ مبذول کر سکیں۔ لیکن یہی بچے بڑے ہونے کے بعد اپنے تشخص کو منوانے کے لئے لوگوں کی توجہ چاہتے ہیں۔ یہ بچے کی ایگو ہے۔ گھریلو خواتین کی اپنی ایگو ہوتی ہے، بزرگوں کی اپنی، فنکاروں کی اپنی اور پیشہ وروں کی اپنی ایگو ہوتی ہے۔ مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہر دور میں بعض بہت اچھے ادیب اور شاعر اپنے فن کے زعم میں دوسرے اچھے اور بڑے شاعروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ گروپ بندیاں رہتی ہیں اور ادبی چشمکیں چلتی رہتی ہیں۔ ماضی میں اردو کے بہت سے مشہور شعراء کی ہمارے سامنے مثالیں ہیں۔

سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

ایک اور مثال ہے

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

بطور مجموعی ہماری ایگو ہماری شخصیت کا وہ حصہ ہے جو نظر آنا چاہتی ہے، سامع چاہتی ہے، عزت کی خواہاں اور ہر وقت اہمیت دیے جانے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گھر، دوستوں کے درمیان، ملازمت پر ، غرض کہ ہم جہاں بھی ہوں ہمیں اہمیت ملے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، یہ ہماری ایک نفسیاتی طلب ہے اور اس کا تعلق طاقت سے ہے۔ ہماری ایگو جتنی بڑی یا توانا ہو گی، ہمیں یہ باور کرائے گی کہ ہم نہیں دیگر لوگ ہماری زندگی میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

اپنی ایگو کو پہچاننے اور اس کی چالوں سے بچنے کے لئے خاصی محنت اور شعوری کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ بہت ہوشیار اور بھیس بدلنے میں بھی بہت مہارت رکھتی ہے۔ اکثر اوقات آپ کو اپنے جذبات کو آپ کے سامنے اس طرح پیش کرتی ہے کہ آپ کو لگے کہ وہ آپ کے اپنے جذبات ہیں۔ آپ کو اس بات سے خبردار ہونا چاہیے کہ آپ کا سب سے بڑا اور چھپا دشمن آپ کی اپنی ایگو ہے۔ آپ کو دھوکا دینے کے لئے آپ کی ایگو کے پاس یوں تو کئی پوشیدہ ہتھیار ہیں لیکن اس میں سے موثر دو ہتھیار سمجھے جاتے ہیں ایک تو انسانیت کی علمبرداری اور دوسرے مذہب کی خدمت جسے وہ اپنے فائدے کے لئے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ایگو رکھنے والے لوگ خود کو مذہب کا ایک ادنیٰ خادم قرار دیتے ہیں اپنے انداز میں مذہب کا پرچار کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو مطعون کرتے اور انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔

اس بات کی وضاحت کے لئے معروف لکھاری اشفاق احمد صاحب کی تحریر سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے

” نیا نیا دین پڑھنا شروع کیا تھا۔ نمازیں وقت پر ادا ہونے لگیں۔ اذکار، نوافل، تلاوتِ قرآنِ۔ میوزک کی جگہ دینی لیکچر، پردہ۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی۔ زندگی میں سکون تھا لیکن اب سکون کی انتہا ہونے لگی۔ تشکر سے دل بھر گیا۔ جہاں ایک طرف سب کچھ پرفیکشن کی طرف جا رہا تھا، وہاں ساتھ ہی ایک بڑی خرابی نے ہلکے ہلکے دل میں سر اٹھانا شروع کیا۔ تکبر! جی یہی شیطان کی چالیں ہیں۔ اول تو دین کی طرف آنے نہیں دیتا۔ اگر اس مرحلے میں ناکام ہو جائے تو ریاکاری کروا کے نیکی ضائع کرواتا ہے، دل میں تکبر ڈال کر ضائع کرواتا ہے۔ مجھے یہ تو نظر آتا تھا کہ فلاں نے تین ہفتے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں کی، فلاں لڑکی نے پردہ نہیں کیا، لیکن مجھے یہ بھول جاتا کہ رائی جتنا تکبر مجھے جہنم میں نہ گرا دے۔ مجھے یہ تذکرہ کرنا تو یاد رہتا کہ فلاں نے داڑھی تو رکھ لی اور نماز ادا نہیں کی، مجھے یہ بھول جاتا کہ کسی کی غیبت کر کے مردار بھائی کا گوشت کھانے کا مرتکب تو میں بھی ہو رہا ہوں۔ ”

یہ ایک عام زندگی کی معمولی سی مثال ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہماری ایگو ہمیں کس طرح سے بھیس بدل کر گمراہ کرتی ہے۔

آپ کی ایگو آپ کو یہ باور کراتی ہے کہ آپ لوگوں کا بہت خیال کرتے ہیں، ان کے حقوق کے علم بردار ہیں، سماجی انصاف پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور اس کے چیمپین ہیں اور اسی وجہ سے آپ اپنے طور پر اس بات کا بھی کریڈٹ لیتے ہیں کہ آپ اربابِ اختیار کو چیلینج بھی کرتے رہتے ہیں اور موجودہ سسٹم کی خامیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ آپ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ سسٹم میں کہاں کہاں کمزوریاں اور خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں کے سامنے خیالی اور کتابی مفروضے قابلِ عمل حل کی شکل میں پیش بھی کرتے رہتے ہیں اور ارباب و اختیار کی عقل پر ماتم بھی کرتے رہتے کہ وہ آپ کے ان انقلابی خیالات سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ یوں آپ خود کو ایک طرح سے موجودہ سسٹم سے الگ کر لیتے ہیں، ایک طرح کا باغی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سسٹم کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد میں تنہا مصروف ہے۔ اس تمام تگ و دو سے آپ اپنی بہت سی خامیوں پر کامیابی سے پردہ ڈال دیتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ دوسری طرف منتقل کر دیتے ہیں اور اپنے بہت سے خوف اور تحفظات سے وقتی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

انا پرست لوگ خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے یا اپنی اہمیت جتانے کے لئے کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کسی ایسی آبادی یا ایسے علاقے میں رہائش اختیار کرنا پسند کریں گے، جس کا نام سنتے ہیں لوگ مرعوب ہو جائیں۔ ایک ممتاز ایڈریس پر رہائش اختیار کرنے کے لئے اگر ان کے وسائل نہیں بھی ہیں تب بھی وہ اس کے لئے کوشش کریں گے۔ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات کا اظہار کرتے رہیں گے اور آپ کو بتاتے رہیں گے کہ وہ اس طرح کے لوگوں سے کتنے قریب ہیں۔ وہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ ان کے بچے دوسرے بچوں سے تعلیم، ادب آداب، کھیل اور دیگر نصابی سرگرمیوں میں کتنے بہتر ہیں، ان کے بچوں کا دوسروں کے بچوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔

ایک صاحب کسی محفل میں کسی دوسرے صاحب کو بتا رہے تھے شور خاص طور سے ٹریفک کا شور مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا۔ بہت کوشش کی لیکن آخر کار تنگ آ کر میں نے شہر کے باہر رہائش اختیار کر لی ہے۔ ایک بنگلہ لے لیا ہے۔ آنے جانے میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے، فیملی کے لئے بھی ایک اور گاڑی خریدنی پڑی۔ خرچہ تو ضرور بڑھ گیا ہے لیکن مجھے اب دماغی سکون ہے۔ مکان بھی کھلا ہے۔ چار بیڈ روم ہیں۔ اب ہمارے پاس کھلی جگہ ہے۔ بہت بڑا بیک یارڈ ہے۔ دو تین سو لوگوں کی پارٹی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ آپ آئیں نہ کسی وقت آپ کو گھمائیں پھرائیں بار بی کیو کریں مزا آئے گا۔ میں نے ایک ٹریکٹر بھی لے لیا ہے اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے۔

اب آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ شوروغل کی آڑ میں وہ آپ تک کیا بات پہنچانا چاہ رہے ہیں

انا پرستوں اور ایگو زدہ لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں، اس لئے کوئی بھی شخص ان کو نئی بات نہیں سکھا سکتا اور یوں وہ اپنے آپ پر سیکھنے اور آگے بڑھنے کے دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرتے رہنے کے لئے ڈینگیں مارتے رہتے ہیں اور زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جن کی شخصیت کمزور ہے، اندر سے خوفزدہ ہیں یا ان کے پاس خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے کسی قسم کی اہلیت نہیں، وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے اور اپنی انا کی تسکین کے لئے اکثر دروغ گوئی یا دھونس دھڑلے سے کام لیتے ہیں۔

وہ تمام لوگ جو خود کو بہتر بنانے کے خواہاں ہیں، اپنی انا سے ہوشیار اور چوکنا رہتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں کسی منفی رائے سے برانگیختہ ہو نے کے بجائے اپنی ذات کا تجزیہ کرتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں

ذیل کا سوال نامہ جو آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ آپ میں انا اور خود پرستی کے کتنے جراثیم ہیں۔

1۔ آپ خود کو دوسروں پر تنقید کرنے سے باز رکھتے ہیں ہاں /نہ
2۔ آپ لوگوں کو ”ٹھیک“ کرنے کے مواقعوں سے گریز کرتے ہیں ہاں /نہ
3۔ آپ لوگوں کے مسائل، درد اور ان کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں /نہ
4۔ آپ دوسروں کو شک کا فائدہ دیتے ہیں ہاں /نہ
5۔ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ ”میں غلطی پر تھا“ ہاں /نہ
6۔ آپ خود سے اور دوسروں سے محاذ آرائی سے پرہیز کرتے ہیں ہاں /نہ
7۔ آپ نفرت کے جذبات کو محبت اور خلوص سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں /نہ
8۔ آپ معافی مانگنے میں پہل کرتے ہیں ہاں /نہ
9۔ آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ہاں /نہ
10۔ آپ کو اپنی زندگی کے مقصد اور سمت کا پتہ ہے ہاں /نہ
11۔ آپ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو احترام دیتے ہیں ہاں /نہ
12۔ آپ لوگوں کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آتے ہیں، ان کےساتھ بھی جو آپ کے ماتحت کام کر رہے ہیں ہاں /نہ

آپ کے جتنے زیادہ سے زیادہ جواب ہاں میں ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ میں خود آگاہی کا عنصر ہے۔ آپ یقین کریں کہ آپ بہتر ہیں لیکن اس میں بہتری کی بہرحال گنجائش موجود ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments