سردار کمال، فضائیہ کا افسر اور تین رنگیلے (آخری حصہ)
رینکر اسکواڈرن لیڈر جن کا پورا نام ”چوہدری نزاکت“ تھا۔ عام زندگی میں انتہائی شریف النفس اور بے ضرر شخص تھے بس کسی ماتحت کے سلیوٹ نا کرنے یا بے دھیانی میں اس سے سَر سَر کی گردان نہ سننے پر اُن کا میٹر گھوم جاتا تھا۔
ویسے سب رینکر افسر اتنے گئے گزرے بھی نہیں ہوتے۔ یہ ایک نیچے سے ترقی کر کے اوپر آنے والا ائر فورس کا رینکر افسر ہی تھا جس نے کامرہ میں دہشت گردوں کے حملے میں تباہ ہونے والا طیارے ”ساب 2000“ ، جسے جہاز بنانے والی سویڈن کی ساب کمپنی نے ناقابل مرمت قرار دیا تھا دن رات محنت کر کے قابل استعمال بنا کر نا صرف پاکستان کے کئی ملین ڈالر بچائے تھے بلکہ ساری دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔
فضائیہ کے کچھ ایئر مین ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوران نوکری اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عام کیڈٹس کی طرح کاکول سے پاس آؤٹ ہو کر آرمی افسر بن جاتے ہیں۔ نشان حیدر پانے والے شہدا میجر راجہ عزیز بھٹی اور کیپٹن کرنل شیر خان بھی پہلے پاک فضائیہ میں ایئرمین تھے اور پھر آرمی کے ریگولر کیڈٹس کے ساتھ کاکول سے پاس آؤٹ ہو کر افسر بنے اور وقت آنے پر جام شہادت نوش کرتے ہوئے نشان حیدر حاصل کیا۔
نوابی نے اپنا انتقام برابر کرنے کے لئے چوہدری نزاکت کو بے وقوف بنا کر ایک انتہائی دور اور سنسان جگہ بھیجنے کا جو پلان بنایا تھا۔ وہ کامیاب ہوا۔ چوہدری صاحب کوئی گھنٹہ بھر تو ائر فیلڈ کے پاس اپنی جیپ میں بیٹھے تلملاتے رہے کیوں کہ فلائنگ اور پی آئی اے کے جہازوں کی آمد و رفت کی وجہ سے زمینی گاڑیوں کے لئے سگنل سرخ یعنی ائر فیلڈ پر آنا منع تھا۔ اور یوں یہ بھی سرخ ہوتے رہے۔ گھنٹے بھر بعد یہ بارود خانہ پہنچے تو پتہ چلا کہ نوابی تو وہاں آیا ہی نہیں۔ انہوں نے وہاں موجود عملے سے بہت پوچھ تاچھ کی مگر نتیجہ صفر رہا۔ نزاکت صاحب نے دوپہر کا کھانا چھوڑ، اب نوابی کو رسالے والا میں ڈھونڈنے کی مہم پکڑ لی۔ ان کی بدقسمتی کہ جلدی میں یہ وائرلیس سیٹ بھی ساتھ نہیں لے گئے تھے۔ لگ بھگ دو ڈھائی گھنٹے کی خواری کے بعد جب انہیں کہیں سے نوابی کا سراغ نہ ملا تو یہ نوابی کے افسر اعلیٰ، انجینئرنگ ونگ کے افسر کمانڈنگ کے پاس جا پہنچے۔ ونگ کمانڈر یونس ایک انتہائی قابل پروفیشنل اور اتنے ہی بڑے دل والے شخص تھے۔ انہوں نے نوابی کی شرارتوں کے تناظر میں چوہدری صاحب کی دکھ بھری داستانِ چَچ چَچ کرتے سنی۔ پھر اسی وقت واکی ٹاکی پر نوابی کو آواز دی تو وہ دس منٹ میں ان دونوں کے سامنے تھا۔ ونگ کمانڈر یونس نے نوابی کی اچھی طرح چھترول کی اور چوہدری نزاکت سے معافی مانگنے کو کہا۔ یہ مرحلہ طے ہوا تو نزاکت صاحب کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔ ونگ کمانڈر یونس نے ایک اضافی سزا یہ بھی دی کہ نوابی تین دن تک روزانہ چوہدری صاحب کو کال کر کے تمیز سے معافی مانگے گا۔
اور نوابی کا منہ اُس رات اِسی وجہ سے سوجا ہوا تھا۔
فوج میں سینئر اپنے سے جونیئر لوگوں کا کیریئر تباہ کرنے سے لے کر بہت کچھ ان کے خلاف کر سکتے ہیں (چاہے غلطی سینئر کی ہی ہو) لیکن جونیئر کے پاس ایسی صورت میں انتقام یا حساب برابر کرنے کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔ اور یوں وہ انتقاماً جو کچھ بھی کرتے ہیں چاہے وہ جرم ہو یا شرارتیں، عام طور پر وقوعے کے بعد جونیئر کبھی نہ کبھی پھنس ہی جاتا ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ انتقام تھرڈ پارٹی کے ذریعہ لیا جائے تاکہ سازشی کی طرف شک کم سے کم ہو اور بے گناہی ثابت کرنا آسان ہو۔
اس رات اپنے عزیز دوست کو دیکھ مجھ جیسے ”شریف شیطان“ کا دل چاہا کہ اس ہنس مکھ دوست کے دکھ کا مداوا کیا جائے۔ پوچھا۔ کیا خیال ہے کل چوہدری صاحب سے حساب برابر کیا جائے۔کہنے لگا۔ وہ کیسے؟ میں نے کہا بتانے کا فائدہ اس لئے نہیں کہ اگر معاملہ بگڑا تو تم قسم کھا کر مکر سکتے ہو۔ اور اگر میرا بھید کھلا بھی تو میں سنبھال لوں گا۔ بس اتنا اشارہ دیا کہ جو ڈانٹ آج تم کو پڑی ہے کل چوہدری صاحب کو کسی اور سے پڑے گی اور وہ بھی مفت میں۔
اگلی صبح اپنے بنکر (زمینی تہہ خانے ) میں پہنچ کر چائے پی تو یاد آیا۔ ”نوابی کا انتقام“ ۔
1993 کے اواخر میں اس دن کوئی دس بجے میں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ دفتر سے قریبی ایک غیر آباد جگہ پر موجود ٹیلی فون کی ”ڈی بی“ (ڈسٹری بیوشن بکس جو ماضی میں جگہ جگہ لب سڑک نظر آتے تھے مگر اب فائبر آپٹکس کے بعد شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں) کھولی اور اپنے پاس موجود جیبی ٹیلی فون سے ایک ایسا کنکشن ڈھونڈا، جو سول ٹیلی فون نمبر سے منسلک تھا۔ میں تھا تو کمپیوٹر کا بندہ مگر پیچھے سے الیکٹرانکس اور الیکٹریکل میں ہاتھ سے کام کرنے والا انجینئر، اور برقی آلات کی مرمت تو گھر کی بات تھی تو ایسے ٹیلی فونی کرشموں کی میرے سامنے کیا وقعت تھی۔
پہلے میں نے 17 انکوائری سے نمبر لے کر فیصل آباد ریلوے اسٹیشن کے مال خانے میں فون کیا۔ محمد بوٹا نے کال اٹینڈ کی۔ میں نے پوچھا، میرے نام ”راحیل شاہ“ کے لئے کوئی پھلوں کی پیٹیاں تو نہیں آئیں۔ جواب ملا نہیں۔ خود ہی ایک فرضی بلٹی نمبر بتایا تو اس نے کہا کہ کل رات تک یہاں بلٹی نمبر 118 تھا۔ آج اب تک کچھ نہیں آیا ہے۔
اب سِول نمبر سے میں نے چوہدری صاحب کے رسالے والا کے لوکل نمبر پر کال کی۔ یہ اس لئے ضروری تھا کیوں کہ اُن دنوں بیس کے اندر سے کی جانے والی کال پر فون کی سنگل گھنٹی بجتی تھی جب کہ بیس سے باہر سے آنے والی کال پر ڈبل بیل۔ باقی کالر آئی ڈی کا اس وقت تک وجود نہ تھا۔
سپلائی اسکواڈرن کے انچارج چوہدری صاحب نے ڈبل بیل پر خود فون اٹھایا تو میں نے بڑی تمیز سے انہیں بتایا کہ میں فیصل آباد ریلوے اسٹیشن کے مال گودام سے ”محمد بوٹا“ بات کر رہا ہوں اور یہاں بیس کمانڈر گروپ کیپٹن غفار صاحب کے لئے سنتروں کی پانچ پیٹیاں آئی ہوئی ہیں۔ براہ کرم کسی کو بھیج کر بلٹی نمبر 105 چھڑوا لیں۔ چوہدری صاحب ڈبل بیل پر پہلے ہی الرٹ ہو گئے تھے اور یوں انہوں نے وہ دانہ چگ لیا۔ نمبر بنانے کے شوقین چوہدری صاحب کے لئے بیس کمانڈر کی آنکھوں میں سرخرو ہونے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔
انہوں نے اپنے سب سے مستعد شخص کو سب سے اچھی گاڑی، ساتھ پیسے اور ایک تصدیقی خط لکھ کر دے دیا کہ مال خانے جا کر محمد بوٹا سے سنتروں کی پیٹیاں وصول کر لے۔
مجھے اندازہ تھا کہ ڈرائیور کم از کم بیس سے تیس منٹ میں ریلوے اسٹیشن پہنچ جائے گا۔ یہاں سے میں نوابی کے دفتر پہنچا اور چائے پی کر پندرہ منٹ بعد اسے بتایا کہ تم اب فوراً چوہدری نزاکت کے دفتر پہنچو۔ جتنی چاپلوسی کرو بہتر ہے ساتھ بتا دینا کہ کل جو کچھ ہوا اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ اور کہنا آج یونس صاحب کی سزا کے بموجب فون کی بجائے خود حاضر ہوا ہوں۔ ساتھ اپنا پرانا مسئلہ بھی گوش گزار کر دینا۔ اس کو میں نے یہ بھی بتایا کہ اگر ان کو کسی فون کال آنے کے بعد پریشانی میں دیکھوں، تو انہیں بتا دینا کہ آج بیس کمانڈر سخت غصے میں ہے۔ ”اور پھر لطف اٹھانا“ ۔
وہی ہوا، یہ وہاں پہنچا، اور مٹھی چاپی کر کے معصوم چوہدری صاحب کی گُڈ بکس میں آ گیا۔ اسی اثنا میں ڈرائیور کا بھی فون آ گیا کہ یہاں محمد بوٹا تو ہے مگر بلٹی 105 پہلے ہی کوئی چھڑا کر لے گیا ہے۔ منہ سے بیس کمانڈر کے لئے آنے والے سنتروں کی بات سنی تو نوابی نے ٹکڑا لگایا۔ برا ہوا، کیوں کہ بیس کمانڈر ویسے بھی آج سخت غصے میں ہے۔
چوہدری صاحب نے جھلا کر بندے کو واپس بلا لیا۔ اور نوابی سے کہا کہ بعد میں آنا۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے نوابی کو یک گونہ سکون ملا اور سینے میں بھی کچھ ٹھنڈ پڑ گئی۔ یہ اور بات کہ پورے قصے سے وہ ابھی بھی لاعلم تھا۔
میں نے اپنے حساب سے کوئی گھنٹے بعد ، ”اسی ڈی بی“ پر فون لگا کر اب نزاکت صاحب کے پی اے کو مقامی نمبر سے کال کی اور آواز بنا کر اسے بتایا کہ چوہدری صاحب کو بیس کمانڈر نے فوراً بلایا ہے اور وہ سخت غصے میں ہیں۔
پانچ منٹ بعد میں بیس کمانڈر کے دروازے سے متصل کمرے میں موجود تھا۔ اور چند منٹ بعد وہاں آتے چاچا نزاکت کے پسینے چھوٹتے دیکھ ایک کمینی سی خوشی لے رہا تھا۔
اس کے بعد اندر کیا ہوا ہو گا آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب جب تک بڑے صاحب کے سامنے موجود تھے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور اب ایک اور تیر انتقام کے ترکش سے چلایا۔ اسی ڈی بی پر جاکر پھر چوہدری صاحب کے پی اے کو ڈبل بیل سے کال کی۔ اس دوران میں زنانہ آواز میں بات کرنے کی پریکٹس کرچکا تھا۔
پی اے نے زنانہ آواز سنی تو ویسے ہی بوکھلا گیا کیوں کہ بیس پر کوئی بھی خاتون متعین نہیں تھی اور عام طور پر دوسرے شہر میں موجود افسروں کے گھر سے فون بھی شاذ و نادر ہی آتے تھے۔ لگ بھگ ہنگامی حالت میں، جیسے تار آیا ہو۔
میں نے ایک غصیلی اجڈ عورت کے لہجے میں ناپ تول کر پی اے سے کہا: میں چوہدری صاحب کے گھر سے بول رہی ہوں۔ بات کراؤ۔ اس نے کہا موجود نہیں ہیں۔
میں نے کہا کہ یہاں کوئی عورت گھر پر ایک بچہ لے کر آئی ہے اور خود کو چوہدری نزاکت کی بیوی کہتی ہے انہیں ڈھونڈ کر کہو فوراً گھر بات کریں ورنہ میں بچوں کو لے کر میکے جا رہی ہوں۔
پہلے ہی پریشان چوہدری نزاکت کو جب یہ خبر ملی ہوگی تو خود سوچ لیں ان پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ اُن دنوں کسی بھی شہر سے پنڈی یا لاہور بات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ بندہ تصور ہی کر سکتا ہے کہ ایک دو گھنٹوں تک چوہدری صاحب کی گرتی دیواروں کو اس دن کیسے دھکا لگا ہو گا اور جب بیگم سے اپنی نئی بیوی کا پوچھا ہو گا تو اللہ اللہ کیا سماں پیدا ہوا ہو گا۔
رات کو نوابی کے ساتھ ٹہل خرامی کرتے ہوئے ہلکی آواز میں حرمزدگی کی ساری روداد سنائی تو اس کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے آنسو آ گئے اور ہم دونوں کو اس کمینے پن سے سینے میں ٹھنڈک پڑتی محسوس ہوئی۔ بس دکھ یہ تھا کہ ہم چاچا نزاکت سے پوچھ نہیں سکتے تھے کہ اس دن بیس کمانڈر اور بیگم سے دوران گفتگو، آگ کے کون کون سے دریا پار کیے ۔
اس دن بیس کمانڈر واقعی غصے میں تھا جس کا ایک سبب یہ تھا کہ اگلے دن متعلقہ پائلٹوں نے سرگودھا چلے جانا تھا اور پیچھے بیس کی عارضی کمان ونگ کمانڈر یونس کو ملنی تھی۔ اور سپلائی اسکواڈرن (چوہدری نزاکت کا محکمہ) نے متعدد اہم چیزیں اب تک فیصل آباد سے سرگودھا بھجوانے کا بندوبست نہیں کیا تھا اور اسی طرح متعدد چیزیں جو بیس پر چاہیے تھیں وہ اب تک نہیں پہنچی تھیں۔ یوں یہ یقینی تھا کہ چاچا نزاکت کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہوا ہو گا۔
بہرحال اگلا دن آیا اور گروپ کیپٹن غفار مع تمام پائلٹ عازم سرگودھا ہو گئے جہاں اِن سب لوگوں نے وزیر اعظم بے نظیر کے اعزاز میں ایک پروگرام کو اٹینڈ کرنا تھا۔ ونگ کمانڈر یونس نے پیچھے بچ جانے والے بارہ پندرہ زمینی فوج کے افسران کے ساتھ ایک بیٹھک کی اور بتایا کہ جاتے جاتے انہوں نے بیس کمانڈر سے 5000 روپے لے لئے ہیں جس سے آج رات سب باہر جاکر کھانا پینا کریں گے۔ اس رات شہر میں ڈنر کے بعد مجھے یاد آیا کہ آرٹس کونسل میں ”تین رنگیلے“ ڈرامہ چل رہا ہے اور ابھی شروع نہیں ہوا ہو گا۔ میں نے خیال پیش کیا کہ مقامی ہال میں سنا ہے ایک زبردست مزاحیہ ڈرامہ چل رہا ہے کیوں نہ اسے دیکھا جائے۔ ہم سب بغیر فیملی کے ہیں اور ٹکٹ بھی سستے مل جائیں گے۔ آئیڈیا پسند آیا اور میں ایک بار پھر آرٹس کونسل میں موجود تھا۔
ہمارا محسن ابھی بھی خود کو ہمارے زیر بار سمجھتا تھا۔ اس نے اس بار بھی ٹکٹ کے پیسے لینے سے صاف منع کر دیا۔ اور صوفوں کی تعداد پہلی صف میں بڑھا کر۔ پانچ لوگ آگے اور سات ان کے عین پیچھے ایڈجسٹ کر دیے۔ میری نشست عارضی بیس کمانڈر کے ساتھ بائیں طرف تھی جب کہ دائیں طرف چوہدری صاحب بیٹھے۔ جب کہ نوابی چوہدری صاحب کی بغل میں بیٹھا تھا۔
اب تک میرے ذہن میں کوئی بدمعاشی نہیں تھی، لیکن یکایک ایک اور کمینہ خیال میرے ذہن میں آیا۔ ڈرامہ شروع ہونے میں ابھی وقت تھا۔ میں نے ونگ کمانڈر یونس سے واش روم جانے کی اجازت لی اور گھوم گھام کر، اسٹیج کے عقب میں پہنچ گیا۔ میری نظریں 22 سالہ سردار کمال کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ برتن دھونے والے کالے اسٹیل وول سے بنی مونچھوں کے ساتھ اس نے خوشی خوشی بڑے بھائی کو گلے لگایا تو میں نے کہا اور ”سکھ“ کیا حال ہے۔ یہ نام میں نے فنکشن والے دن ”س اور ک“ کو ملا کر رکھا تھا۔ اس نے جو اباً مجھے ”شکیل تیلی“ کہا۔ (کراچی کے کامیڈین شکیل صدیقی سے مماثلت کی وجہ سے)۔
میں نے کہا کہ سکھڑے ایک کام ہے۔ بولا حکم بھائی جان۔ کہا ہم یہاں ڈرامہ دیکھنے آئے ہیں اور ایک ساتھی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ وہ جو شروع میں ایک سین آتا ہے۔ جب ایک چوہدری کوٹھے پر آتا ہے۔ تو وہاں اصلی نام کی بجائے بس نام چوہدری نزاکت سے بدل دینا۔ باقی ڈائیلاگ ویسے ہی رہیں۔ کہنے لگا سمجھ گیا۔
دوسرے ایک سین میں ایک نازک مزاج ہیجڑا کوٹھے پر آتا ہے تو بات بات میں کہتا ہے کہ ہمارے گروہ کے بہت سارے لوگ ٹی وی فلم کے علاوہ کرکٹ میں بھی ہیں۔ یہاں وہ عبدالقادر کا حوالہ دیتا ہے۔ میں نے سردار کمال سے کہا کہ اس سین میں چاہو تو عبدالقادر کو اڑا دو اور اس کی جگہ ڈال دو کہ ہمارے لوگ تو اب ائر فورس میں بھی افسر بن گئے ہیں۔ نائیکہ حیرت سے پوچھے تو کہہ دینا وہی کیپٹن چوہدری نزاکت۔ میں نے جان بوجھ کر اسے غلط رینک بتایا۔ سردار کمال نے کہا کہ بھائی جان یہ بھی ہو جائے گا۔ میں نے کہا دیکھ لو۔ کیونکہ دونوں ڈائیلاگ دو مختلف اداکاروں کے منہ سے نکلوانے ہیں۔ کہنے لگا۔ تیلی بھائی آپ نے تو تھیٹر اور انتقام میں ہمارے لئے کمائی کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔ اس پر میں نے اسے ایک تیسرے سین کا بھی حوالہ دیا جہاں مزید یہ چیپی لگ سکتی تھی۔ اور اتفاق سے ادائیگی بھی سردار کمال کے منہ سے ہونی تھی۔
یہاں سے میں سیدھا ہاتھ منہ دھونے گیا اور چند منٹ بعد جان بوجھ کر گیلے ہاتھوں اور چہرے سمیت ونگ کمانڈر یونس کی بغل میں بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے تاکہ بعد میں مجھ پر شک نہ ہو۔
ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ایک عجیب بات ہوئی۔ آرٹس کونسل کی انتظامیہ کا ایک رکن اسٹیج پر آیا اور اس نے حاضرین کو بتایا کہ اس وقت ہم میں پاک فضائیہ کے افسران موجود ہیں جو جنگی مشق کے دوران ہماری دعوت پر یہاں تشریف لائے ہیں۔ ہم سب ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور ڈرامے کی کاسٹ اور ڈانسرز کو اسکرپٹ سے ہٹنے کی اجازت دیتے ہیں۔ امید ہے آپ سب انجوائے کریں گے۔
ونگ کمانڈر یونس اس عزت افزائی پر بڑے حیران ہوئے۔
ڈرامہ شروع ہوا تو تھوڑی ہی دیر بعد ، کوٹھے کی بیل بجی۔ کام کرنے والا، ”جھلا (باؤلا)“ لڑکا گیا اور واپس آیا تو نائیکہ نے پنجابی میں پوچھا کہ کون آیا ہے۔ اس نے کہا۔ چوہدری صاحب آئے ہیں۔ ونگ کمانڈر یونس کی رگ ظرافت پھڑکی اور وہ بولے کہ رضی ایک چوہدری تو ہمارے ساتھ بھی بیٹھا ہے۔ میں نے معصومیت سے پوچھا، ”کون سر“ ۔
جھلے نے پھکڑ پن کے ریکارڈ توڑتے کہا۔ وہی چوہدری صاحب جن کے لمبے لمبے بال ہیں پر سر سے گنجے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں اور تماش بینوں کی طرف سے ایک زبردست قہقہہ پڑا۔ ظلم یہ ہوا کہ چوہدری نزاکت واقعی ”گنجے“ تھے۔ فارغ البال۔ اور سامنے ہی بیٹھے تھے۔ اور یہ سونے پر سہاگہ والا ڈائیلاگ میرے بھی علم میں نہیں تھا۔
ونگ کمانڈر یونس نے کہا کہ یار رضی یہ تو بڑا سیدھا اٹیک ہو گیا۔ میں چپ رہا۔ ساتھ دیکھا تو چوہدری نزاکت تلملا رہے تھے۔
نائیکہ نے کہا یہ کون سا گنجا چوہدری ہے۔ جھلے نے کہا وہی لمبے بالوں والا گنجا۔ چوہدری نزاکت۔
اس کے بعد پیچھے بیٹھے عام تماش بین تو کچھ نہ بولے۔ مگر فضائیہ کے افسران نے تالیاں پیٹ پیٹ کر ہال سر پر اٹھا لیا حتیٰ کہ ڈرامہ روک کر فنکار شکریہ ادا کرتے رہے۔ نزاکت صاحب کا حال یہ تھا کہ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے منہ کو مارے شرم چھپایا ہوا تھا جب کہ باقی افسران جس خشوع و خضوع سے تالیاں پیٹ رہے تھے اس سے لگتا تھا کہ وہ سب بھی کبھی نہ کبھی نزاکت صاحب کے متاثرین سلیوٹ میں شامل رہے ہیں اور اس دن اس کمینے پن سے فیض یاب ہو رہے تھے۔
یونس صاحب ہنس ہنس کر پاگل ہو گئے تھے اور جونیئر افسران تالیاں پیٹے جا رہے تھے۔ لوگ بھی سمجھ گئے کہ کوئی اندر کا معاملہ ہے۔ اب ڈرامہ شروع ہوا تو اسٹیج کے آرٹسٹوں کو بھی سمجھ آ چکی تھی کہ ٹارگٹ کون ہے۔
پلان کے مطابق کچھ دیر بعد ہیجڑے (سخاوت ناز) کی آمد ہوئی تو اس نے بتایا کہ ہم میں سے آج ایک مشہور کرکٹر بھی بن چکا ہے۔ عبدالقادر پر ایک عام سا، ”لافٹر“ آیا۔ اب وہ مزید بولا کہ یہی نہیں ہم میں سے ایک تو آج فوج میں بھی بہت بڑا افسر بن چکا ہے اور آج یہاں بھی موجود ہے۔ نائیکہ نے کہا۔ کون۔
کہنا لگا۔ ائر فورس کا نزاکت۔
اور پھر جو تالیاں پیٹی گئیں اور جس طرح ہم لوگ ہی نہیں دوسرے حاضرین نے بھی بظاہر اس فی البدیہہ جگت پر تالیاں پیٹیں وہ منظر دیکھنے والا تھا۔ جب کہ جونیئر افسران کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ عام لوگوں کو بھی اب علم تھا کہ جہاں نزاکت کا نام آئے ہم نے آسمان سر پر اٹھا لینا ہے۔
یونس صاحب کہنے لگے، رضی ذرا پتہ تو کرو اس ”نزاکتی سازش“ کے پیچھے کس خبیث کا ہاتھ ہے۔ میں نے کہا سر۔ ابھی تو ڈرامہ دیکھیں بعد میں خود ہی پتہ چل جائے گا۔ ویسے بھی جس حساب سے جونیئر افسران نے تالیاں پیٹی ہیں ان میں کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ بس حیرت اس بات پر ہے کہ یہاں آنے کا پروگرام تو بنا ہی تھوڑی دیر پہلے تھا تو یہ اسکرپٹ میں تبدیلی جس نے کی، کمال کیا ہے! کہنے لگے، ”یہ تو ہے“ ۔
فنکاروں کو پتہ چل چکا تھا کہ چوہدری نزاکت والی جگت پر سب سے زیادہ داد ملتی ہے چنانچہ اب حال یہ تھا کہ جو فن کار آتا وہ گنجے، ائر فورس، چوہدری یا نزاکت کو ملا کر ایک نئی جگت مارتا اور ہمارا رقیب منہ چھپائے بیٹھا رہتا۔
اللہ اللہ کر کے ڈرامہ ختم ہوا تو سردار کمال نے ہی اسٹیج پر آ کر ہم سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہمارا ڈرامہ پسند کرنے کا شکریہ۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے پہلے سے تیار شدہ اسکرپٹ کی وجہ سے آپ لوگوں میں لگتا ہے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے۔ جس کے لئے میں اور میری ٹیم سردار کمال، فضائیہ کا افسر اور تین رنگیلے معافی چاہتے ہیں۔
سردار کمال نے گردن کے اشارے سے مجھے بیک اسٹیج آنے کی دعوت دی جسے میں نے گردن ہلا کر مسترد کر دیا۔ میں نے جانتے بوجھتے سردار کمال سے ملنے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ چوہدری صاحب یا کسی اور کی عقابی نظر مجھے تاڑ کر میرا کونڈا کرنے کے لئے کافی ہوتی۔ بہر حال میں نے آرٹس کونسل کے اسی دوست کی معرفت اگلی رات سردار کمال سے رابطہ کیا اور اس کا اور نسیم وکی کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بولا بھائی جان شکریہ آپ کا کہ آپ نے بنے بنائے اسکرپٹ میں جس طرح سے معمولی تبدیلی کر کے میلہ لوٹ لیا۔ ہمیں بھی یاد رہے گا۔ بلکہ ہم اب ایسی نام لے کر کی جانے والی فرمائشی دشمنی کی فیس بھی لیا کریں گے۔
31 سال پہلے یہ میری سردار کمال سے آخری دعا سلام تھی۔ اس کے بعد وہ اور نسیم وکی شہرت کی بلندیوں کو چھوتے گئے اور میں ان کی ترقی سے خوش ہوتا رہا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی کامیابیوں کا جشن میں کبھی ان کے ساتھ نہ منا سکا۔
یہ تحریر، زیادہ حقیقت اور کچھ افسانے کا مجموعہ ہے۔ چوہدری نزاکت کا واقعہ اصلی ہے مگر نام فرضی ہے۔ ویسے بھی وہ اللہ تعالی کو پیارے ہوچکے ہیں۔ میں نوابی کی دل جوئی کے لئے ان سے لئے جانے والے انتقام پر آج بھی افسوس کرتا ہوں۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔ انتقام کی ماچس کو جلانا آسان ہوتا ہے لیکن اس سے ہونے والے نقصان کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ بچپن اور نوجوانی میں لئے گئے قدم عقل سے ماورا ہو کر اٹھائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج افسوس کرنے والا میں، دوبارہ اُس وقت میں جائے تو پھر بھی شاید یہی کچھ کرے گا۔
اِس واقعے کے بعد میری اسکواڈرن لیڈر چوہدری نزاکت سے کئی بار ملاقات ہوئی اور میں نے اس دوران ان کی دل جوئی میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ رسالے و الا بیس پر اگلے دن سازشی کی کھوج کی گئی۔ ونگ کمانڈر یونس نے جاسوسی کی یہ ذمہ داری بھی (ان کی نظروں میں) سب سے شریف افسر یعنی مجھے ہی دی۔ میں نے پہلا اور سیدھا شک نوابی پر ہی کرتے ہوئے اس کا نام آگے دے دیا۔ کہنے لگے اس کی لڑائی سے تو میں بھی واقف ہوں۔ مگر نوابی نے سیدھے سبھاؤ ہر طرح قسمیں اٹھا لیں۔ میں نے بھی اسے اگلے کئی دن تک اپنے ملوث ہونے سے آگاہ نہیں کیا۔ یہ اور بات کہ وہ ہر بار میری بات ماننے سے انکار کر دیتا تھا۔
اپنے ابا کے ساتھ تندور پر روٹیاں لگانے والا نسیم وکی، چند سال بعد ہی 1997 میں ڈاکٹر یونس بٹ کے ڈرامے فیملی فرنٹ میں خوشیا کے کردار میں جلوہ گر ہوا۔ اور ”پہچانا۔ نہیں پہچانا“ ۔ کے تکیہ کلام سے دنیا بھر میں پہچانا گیا۔ پاکستانی کرکٹر، متعدد گلوگار، شکیل صدیقی اور نسیم وکی جیسے اسٹینڈ اپ کامیڈین (متعدد اور بھی) نے انڈیا جاکر پاکستان اور اپنی شہرت کو چار چاند لگائے۔ ایک عرصے تک نسیم، کپل شرما شو کا بھی حصہ رہا۔ یوں کروڑوں کمائے۔ دوسروں کو خوشیاں بانٹنے والوں کو مالی طور پر آسودہ دیکھ، خوشی ہوتی ہے۔
فنکشن میں ملنے والے تیسرے دوست بھائی خالد سلیم موٹا، اپنے موٹاپے کی وجہ سے اس وقت کے ایک مشہور ترین کامیڈین تھے۔ جنہوں نے لالی ووڈ میں اس وقت اپنی جگہ بنائی جب انڈسٹری میں لہری، رنگیلا اور منور ظریف کا نام فلمی افق پر جگ مگا رہا تھا۔ خالد سلیم نے اپنا مذاق خود بناتے ہوئے اپنے موٹاپے کو اپنی پہچان بنائی۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی کے سب کو ہنسانے والا شخص آج شوگر کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکا ہے اور لوگوں کو ہنسی بانٹنے والا کس بے بسی کے عالم میں اپنی زندگی کے آخری دن بستر پر گزار رہا ہے۔ سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے۔
ہمارے زیادہ تر آرٹسٹوں کے لئے بھی یہ ایک المیہ ہوتا ہے کہ کیریئر کے عروج میں جب ان پر لکشمی مہربان ہوتی ہے۔ وہ پیسے کو برے وقت میں کام آنے کے لئے بچانے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے اڑاتے ہیں اور پھر جب شہرت کی دیوی اور لکشمی آنکھیں پھیر لے تو زندگی گزارنا مشکل ہوجاتی ہے کیوں کہ اُس وقت اُن کو کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔ یہ ان لوگوں کا بھی قصور ہے کہ اپنے لئے مزدوروں کی طرح کوئی سوشل سکیوریٹی اور ویلفیئر فنڈ قائم کر کے پنشن ٹائپ کا پیکج بھی قائم نہیں کرتے۔ جس میں وہ تھوڑی تھوڑی رقم ہر مہینے جمع کروا کر برے وقتوں میں وہاں سے اپنے لئے ایک گزارہ یا بے روزگاری الاؤنس لیتے رہیں۔ اگر یہ لوگ چاہیں تو ان آرٹسٹوں اور کھلاڑیوں کے لئے میرے پاس ایک مکمل پروگرام موجود ہے۔
کامیڈین فرید خان منہ کے کینسر میں مبتلا رہا۔ عمر شریف بھی سخت بیمار رہا۔ دونوں کے لئے حکومتوں نے مدد کا اعلان تو کیا مگر سرخ فیتے کو پار کرتے جب امداد پہنچی بھی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
کامیڈین لہری صاحب کی بھی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئی تھیں اور وہ بستر پر ہی رہتے تھے۔ لیکن اس حالت میں بھی ایک اور عظیم کامیڈین اور انسان معین اختر نے ان کے گھر کے اخراجات سنبھالے ہوئے تھے اور صرف لہری صاحب کے گھر والوں کو اس کا علم تھا۔ معین اختر کے انتقال کے بعد ، لہری صاحب نے کسی کو انٹرویو دیتے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے معین کے انتقال کے بعد پتہ چلا کہ میری دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں۔
سردار کمال سمیت مسکراہٹیں بکھیرنے والے یہ سب عظیم لوگ بشمول لہری، جیدی اطہر شاہ خان، جمشید انصاری، جمیل بسمل، رنگیلا، منور ظریف، امان اللہ، البیلا، ببو برال، اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، عمر شریف، معین اختر، علی اعجاز، رفیع خاور المعروف ننھا، الن یعنی کمال احمد رضوی، سلیم ناصر۔ اور جانے کتنے ہی نام ہیں جو ہمیں کبھی نہ کبھی تکلیف کے وقت میں ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گئے۔ آج وہ ہم میں نہیں۔ کچھ تو ہمیں یاد بھی نہیں لیکن ان کی دی گئی مسکراہٹوں کے ہم آج بھی مقروض ہیں۔ اللہ تعالی ان سب لوگوں کو دوسرے جہاں میں بھی ہنستا مسکراتا رکھے اور اللہ تعالی بھائی خالد سلیم موٹا اور دوسرے بیمار آرٹسٹوں کے لئے زندگی کو آسان بنائے۔
- لاہور کی فضا میں ایک بہادر ہندوستانی پائلٹ کی ہلاکت – پہلا حصہ - 06/09/2024
- سعودیہ میں کوئی رئیس، کسی غریب کو ٹریفک حادثے میں مار دے تو - 02/09/2024
- جب جب انجینئر رضی ٹریپ نہیں ہوا - 25/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).