شمالی علاقہ جات کی سیر ( 5 )


مری پاکستان کا خوبصورت سیاحتی مقام ہے، ہم کشمیر سے مری شام پانچ بجے پہنچے۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، مری ٹھنڈا تھا، لیکن وادی سوات کے بحرین اور کالام جیسا ٹھنڈا نہ تھا، ٹھنڈی ہوا، گہرے بادل اور سر سبز پہاڑوں نے مری کو دلفریب بنایا ہوا تھا۔

مری میں قیام کے لیے بہت زیادہ ہوٹل ہیں، ہم جیسے ہی ہوٹلز کی لوکیشن پہ پہنچے تو پہلے سے کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے، وہ ہمیں ہوٹلز کی طرف لے گئے، شاید ان کو اس کام کے عوض ہوٹل والے کچھ پیسے دیتے ہیں اور وہ اس طرح پھر گاہک ڈھونڈتے ہیں۔ چند ہوٹلز گھومنے کے بعد ، ہم نے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا۔

تھوڑی دیر سستانے کے بعد چائے شائے پی، وقفے وقفے سے بارش ہونے لگی۔ بارش نے مری کے موسم کو مزید خوشگوار بنا دیا، ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر گھومتے رہے، رات کا کھانا کھانے کے بعد بازار چلے گئے۔

مری کا بازار اونچائی پر ہے، بازار تک پہنچنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، شاندار قسم کا بازار ہے، ساتھ میں بڑے بڑے ریستوران ہیں، اس دن تو بہت زیادہ رش تھا، اس کی وجہ اتوار تھا، آس پاس کے کافی لوگ اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ گھومنے آئے ہوئے تھے، جب ہم بازار پہنچے تو اس وقت بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

وہاں کئی دکانیں ایسی تھیں جن کے بورڈز کے اوپر لکھا ہوا تھا ہر چیز ون ڈالر میں کہیں پر ون ڈالر 250 تو ، کہیں پہ ون ڈالر 275 لکھا تھا، جیسے ہمارے ہاں ریڑھیوں والے اعلان کرتے ہیں کہ ہر مال، ہر شے 20 روپے، یہ دراصل گاہک کو متوجہ کرنا تھا، اصل میں ایسا نہیں تھا، ایک قسم کا فراڈ تھا، دکان میں داخل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ دکان کی محض پانچ سے دس فیصد عام چیزیں ون ڈالر کی ہیں۔ باقی چیزیں آسمان چھوتی قیمت کی تھیں۔

ایک ساتھی بتا رہے تھے کہ وہ جوس پینے کی غرض سے دکان پہ گئے، انھیں آم کے جوس کا گلاس 800 میں جب کہ چائے 200 روپے میں مل رہے تھے، ہم ملکہ کوہسار مری کی تاریخی اور خوبصورت عمارت جی پی او بھی گئے، جی پی او کے قریب اوپر کی جانب ایک کیفے تھا، جس میں لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے میوزک کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، رات کا سماں تھا، ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ بھی جاری تھا، اوپر سے میوزک کی مدھر آواز نے ماحول کو دلکش بنا رکھا تھا۔

ایلیٹ کلاس فیملیز کا تانتا بندھا ہوا تھا، مجھے مری میں بازار کا ماحول زبردست لگا لیکن چیزوں کی بے لگام قیمتوں نے مایوس بھی کیا۔ ہم دیر تک وہاں مٹر گشت کرتے رہے، مری کے بازار رات گئے تک کھلے رہتے ہیں، لوگوں کی ایک بھیڑ تھی جہاں ہر کوئی اپنی دنیا میں محو تھا۔

مری کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ اسلام آباد تھا، ہم اگلے دن تقریباً 1 بجے اسلام آباد پہنچے، اسلام آباد آتے ہوئے ہمیں راستے میں چھتر پارک بھی نظر آیا، اسلام آباد میں حبس تھا، گرمی اپنے جوبن پر تھی۔

ہم امام بری سرکار کی مزار پہ گئے۔ مزار کے احاطے میں ہم جیسے ہی داخل ہوئے تو ہمیں گرمی کی شدت میں کمی محسوس ہوئی، ہم تھوڑی دیر کے لیے مزار کے احاطے میں بیٹھے رہے۔ یہاں سے سیدھا ہم ویو پارک اسلام آباد گئے، تھوڑی دیر کے لیے وہاں گھومے لیکن حبس نے ہمیں بے حال کر دیا ہم وہاں سے اٹھے اور سیدھا پاکستان میوزیم گئے، پاکستان میوزیم کے ہال میں داخلے ہوتے ہی ٹھنڈک محسوس ہونے لگی کیونکہ وہاں اے سی لگے ہوئے تھے۔

پاکستان میوزیم کے تمام پورشنز ہم نے گھومے، یقین مانیں پاکستان میوزیم گھومنا مجھے بہت اچھا لگا۔ بہت سی معلومات حاصل ہوئی، مختصر یہ کہ جنگلی حیات، آبی حیات، حشرات اور معدنیات وغیرہ کے بارے میں بہت معلومات حاصل ہوئیں، اس کے بعد ہم لوک ورثہ گئے، شومئی قسمت لوک ورثہ بند تھا، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ سوموار کو ان کے ہاں چھٹی ہوتی ہے، یہاں سے ہم شکر پڑیاں گئے، پاکستان عجائب خانہ جانے کا ارادہ تھا، مگر سوموار کو وہ بھی بند ہوتا ہے۔

ہم بہت تھک گئے تھے، ہوٹل میں کمرہ لیا، تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا، رات کا کھانا کھایا، رات کو اسلام آباد کا موسم خوش گوار ہو چکا تھا۔

اگلی صبح جب ہم بیدار ہوئے تو اسلام آباد میں بارش ہو رہی تھی، بارش زوروں پر تھی، ہمیں فیصل مسجد جانا تھا، لیکن بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی، ہم برستی بارش میں گاڑی پہ فیصل مسجد کی طرف نکل پڑے۔

جب ہم وہاں پہنچے تو بارش ہو رہی تھی، ہم بھیگتے ہوئے فیصل مسجد گئے، ہم بارش میں مسجد کے احاطے میں گھومتے رہے، کل تک تو ہمیں گرمی اور حبس نے بے حال کر دیا تھا، لیکن بارش نے اسلام آباد کے موسم کو خوش گوار بنا دیا تھا، آدھے پونے گھنٹے بعد بارش تھم گئی۔

ہم نے یہاں تصاویر لیں، چہل قدمی کی اور یہاں سے ہم گولڑہ شریف پیر مہر علی شاہ کی مزار پر گئے۔

بارش مکمل طور پر تھم چکی تھی، موسم سہانا ہو چکا تھا، دربار میں ہم جیسے ہی داخل ہوئے، کلام مہر علی شاہ مدھر آواز میں پڑھا جا رہا تھا، کیا آواز تھی، کیا اشعار تھے، ماحول میں صوفیت کا ایک رنگ چڑھا ہوا تھا۔

ہم پیر نصیرالدین نصیر کی مزار پر بھی گئے جو پیر مہر علی شاہ کے قریب مرجع خلائق ہیں، اسی احاطے میں دو تین اور مزار بھی تھے، ہم کلام مہر علی شاہ سے محظوظ ہوتے رہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، تقریباً ایک گھنٹے تک ہم وہاں رہے، اسلام آباد کے چند ایک اور مقامات بھی گھومے۔

تین بجے ہم اسلام آباد سے لاہور کے لیے بذریعہ موٹر وے ایم 2 روانہ ہوئے، راستے میں ہمارے ساتھیوں میں سے ایک نوجوان ساتھی شوکت علی نے ساتھیوں کو ”میاں جی ہوٹل“ پر چائے پلائی۔

شوکت، کریم اور عظمت علی ان نوجوانوں کے پاس اچھے موبائلز ہیں، جو اس سفر میں ساتھیوں کی اچھی اچھی تصاویر نکالتے رہے، یہ کریڈٹ ان تینوں کو جاتا ہے۔

رات نو بجے ہم لاہور پہنچے،

لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو پرانے زمانے میں لوپور کہا جاتا تھا کیونکہ اسے لو نے آباد کیا تھا اور اس کے جڑواں بھائی کُش نے قصور کو آباد کیا تھا، لو اور کُش دونوں ہندو دیوتا رام کے دو بیٹے تھے جن کا ذکر ہندو مذہبی کتاب رامائن میں تفصیل سے ہوا ہے، لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔

میری ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ لاہور جاؤں گا تو داتا صاحب ضرور جاؤں گا، سو میں نے پہلے پہل داتا صاحب کی حاضری بھری، عقیدت مندوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، کچھ احاطے میں سوئے ہوئے تھے، کچھ ذکر اذکار میں مشغول تھے، تعمیراتی کام کی وجہ سے مزار کا ایک حصہ بند تھا، دربار میں بڑا پرسکون ماحول تھا۔

لاہور میں بھی گرمی اپنے جوبن پر ہے، ہم نے رات ہوٹل میں قیام کیا، رات گئے تک لاہور کھلا رہتا ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے لاہور کیسا شہر ہے تو میں کہوں گا لاہور بہت اچھا شہر ہے، مگر لاہور کے باسی کم اچھے ہیں، فراڈ بہت زیادہ ہے، چالاک قسم کے لوگ، اجنبیوں کو تو جھٹ پہچان لیتے ہیں، پھر منہ مانگے کرائے، یا بار بار آ کر تنگ کرنا، داتا دربار پر جوتے رکھنے والے بھی کسی دادا گیر سے کم نہیں، جوتے رکھتے وقت جب آپ ان سے معاوضہ پوچھیں گے تو کہیں بھائی جی جو مرضی دے دیں لیکن واپسی پہ فی جوڑا ساٹھ روپے ڈیمانڈ کریں گے، اگر آپ بحث کریں گے تو وہ بدمعاشی پہ اتر آتے ہیں۔ میں نے یہ نوٹ کیا، وہ سب کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہے تھے، انتظامیہ اس پر کیوں خاموش ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟

ہم انار کلی بازار گئے، بچوں کے لیے کچھ سامان خریدا، ہر چیز دستیاب ہے، لیکن مسئلہ پیسوں کا ہوتا ہے، ہم نے اپنے بجٹ کے حساب سے جو خریدنا تھا خریدا۔

جب ہم مینار پاکستان، شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد گھومنے گئے تو وہاں پتہ چلا کہ اہل تشیع کے چہلم کی بابت مجالس اور میٹنگز ہیں، سو تین دنوں کے لیے ان مقامات کو بند کیا گیا ہے۔

اس سفر میں ہمارے ساتھ ایک خوبرو اور زندہ دل ڈرائیور استاد محمد اکبر پندرانی ہیں، پورے سفر میں بڑے Cooperative رہے، ان کے ساتھ سفر اچھا رہا۔

اب ہم لاہور سے ملتان کی طرف رواں دواں ہیں، ہمارے دس دن کے بھاگم بھاگ ٹرپ کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔

تاسف یہ ہے کہ اس پورے سفر میں ماسوائے بحرین سوات میں کوئٹہ کیفے کی چائے کے علاوہ ہمیں کہیں بھی اچھی چائے نہیں ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments