چھپی صلاحیتیں


کہتے ہیں کہ کہانیاں ہمیں سبق سکھانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں اس لیے انہیں پھیلانا چاہیے۔ ایسی ہی ایک کہانی چند روز قبل نظر سے گزری کہ ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کے لئے دو مٹکے تھے جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔

اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جس طرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہو ہے مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لے کر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں ان دو سالوں میں میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا اگر تم میرے پاس نہ ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نہ پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

دوران ملازمت ہمارے بینک میں ایک افسر ایسا ہوا کرتا تھا جس کے رویے اور حرکات سے سب نالاں تھے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے جاتا اور مسجد میں سو جاتا۔ اچانک کئی کئی دن چھٹی کر لیتا کئی مرتبہ غیر حاضر بھی رہا۔ لاپرواہی اور عدم توجہی کی باعث بڑی بڑی غلطیاں سرزد کر بیٹھتا کبھی کوئی بنک کا ڈاکومنٹ یا چیک گم کر دیتا کبھی کسٹمرز سے تلخ کلامی کرنے لگتا گو بنک ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرتا مگر اس کی عیال داری اور غربت پر ترس کھا کر اسے برداشت کیا جاتا جس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ نہ تو ترقی کر سکا اور نہ ہی اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو سکا۔

اسے جب میرے پاس تعینات کیا گیا تو پہلی ہی ملاقات میں مجھے اس کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ ہو گیا اور مجھے یہ احساس ہوا کہ اگر اس سے اس کی مرضی اور دلچسپی کا کام لیا جائے تو اس میں کارکردگی دکھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ بسا اوقات ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہوتی بس تھوڑی سی پالش کر کے اس کی چھپی صلاحیتوں کو باہر نکالنا ہوتا ہے۔ وہ پڑھا لکھا تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے بنک منیجرز بوڑھے اور میٹرک پاس ہوا کرتے تھے لیکن وہ تو بنک میں گریجویشن کرنے کے بعد آیا تھا اور وہ بھی ڈائریکٹ گریڈ تھری افسر جو لوگ سالوں بعد بنتے تھے۔

اس نے مجھے بتایا کہ پہلی مرتبہ اسے اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے منیجر کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں اس کی نفسیات سمجھ چکا تھا۔ میرے والد مرحوم حیات تھے میں نے ان سے مشورہ کیا تو کہنے لگے اس کے دوست اور ہمدرد بن جاؤ اس سے محبت کا سلوک کرو۔ اسے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ آپ اس کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں اور اس کی ذات سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ بتاؤ تم کیا کام کرنا چاہتے ہو تو وہ بولا میں بنک سے باہر نکل کر آزادی اور اپنی مرضی سے کام کرنا چاہتا ہوں۔

میں نے کہا ٹھیک ہے مارکیٹ جاؤ ٔاور لوگوں سے ملو اور انہیں بنک کے لیے ڈیپازٹ اور بزنس کا کہو۔ پورا دن فری رہو مگر دو اکاؤنٹ ضرور کھلوانا پڑیں گے وہ ٹھک سے راضی ہو گیا شاید وہ یہی چاہتا تھا؟ اسے اس کے قبل کسی منیجر نے مارکیٹ جانے کو نہیں کہا تھا۔ چند دنوں ہی میں مجھے احساس ہو گیا کہ وہ بنک بزنس کے لیے بڑا کام کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بنک بزنس میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کی تعریف ہونے لگی حوصلہ افزائی نے اس کی کارکردگی میں مزید اضافہ کر دیا۔

وہ چند ہی دنوں میں نہ صرف ترقی کر کے برانچ منیجر بنا بلکہ اسے بے شمار ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اسی طرح میرا ایک اور ساتھی بینکار جنرل بینکنگ میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا تو ناکامی کی باعث اسے سزا کے طور پر آڈٹ کے محکمہ میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ لیکن وہاں جاکر اس کے جوہر ایسے کھلے کہ وہ ایک وقت میں آڈٹ چیف بن گیا اور پورے جنرل بینکنگ کے سسٹم کو چلاتا تھا اور وہ بنک کا بہت بڑا نام شمار ہونے لگا۔ اس لیے ضروری نہیں کہ کوئی اگر کسی فیلڈ میں ناکام ہے تو وہ ہر جگہ ہی ناکام رہے گا۔

بہت سے لوگ جس طرف رخ کرتے ہیں وہ ہر جگہ ہی کامیابیاں سمیٹ لیتے ہیں اور ہر جگہ ان کا ایک نیا اور کامیاب روپ سامنے آتا ہے میرے ایک دوست اور ساتھی چھبیس سال گزار کر حبیب بنک سے ریٹائر ہوئے۔ پریشان تھے کہ اب ٹائم کیسے پاس کیا جائے؟ پھر سوچا کیا کیا جائے؟ بہترین بینکار تھے سینئر وائس پریزیڈنٹ کے عہدہ پر تعینات رہے فالتو وقت ملا تو بچپن کے پرانے شوق پینٹنگ اور مصوری کا خیال آیا پھر آغاز کیا۔ تو پتہ یہ چلا کہ ان میں تو ایک بہت بڑا آرٹسٹ چھپا ہوا ہے۔

آج وہ ایک بڑے انٹرنیشنل آرٹسٹ ہیں جن کی تصاویر کی نمائش پوری دنیا میں ہو رہی ہے اور کے شہ پارے بڑے قیمتی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں کی سینٹرل لائبریری اور بہاولپور آرٹس کونسل کے علاوہ گونگے بہرے بچوں کے اسکول میں آرٹس اور پینٹنگ کی مفت کلاس لے رہے ہیں پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کے بے شما ر شاگرد آج ان سے یہ قیمتی فن سیکھ رہے ہیں۔ قومی اور بین الا اقوامی سطح پر جتنا نام اور عزت آج وہ بطور آرٹسٹ کما رہے ہیں بنک ملازمت میں رہتے ہوئے وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ ان کا یہ فن بینکنگ کے ہجوم میں دب کر کہیں کھو گیا تھا۔ جو ذرا سی توجہ سے نکھر کر سامنے آیا ہے۔

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی یا خوبی یا خصوصی صلاحیت ضرور چھپی ہوتی ہے۔ لیکن کسی خاص وجہ سے وہ خوبی یا صلاحیت سامنے نہیں آ پاتی۔ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی خامی یا کمی میں ایک خوبصورت خوبی بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ جبکہ ہماری یہی خامیاں معذوریاں اور ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کے لئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بھی بناتا ہے ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں اور کمی کے ساتھ ہی قبول کریں ہمیں ایک دوسرے کی ان میں چھپی خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جن کو وہ اپنی خامیوں اور معذوریوں، مصروفیت کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔

اسی طرح جسمانی اور ذہنی معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کے لئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دودھ خراب ہو جائے تو دہی بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں دہی دودھ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ اگر یہ اور بھی خراب ہو جائے تو یہ پنیر میں بدل جاتا ہے۔ پنیر دہی اور دودھ دونوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور اگر انگور کا رس کھٹا اور خراب ہو جائے تو یہ شراب میں بدل جاتا ہے جو انگور کے رس سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔

آپ برے نہیں ہیں کیونکہ آپ نے غلطیاں کی ہیں۔ غلطیاں وہ تجربات ہیں جو آپ کو ایک شخص کے طور پر زیادہ قیمتی بناتے ہیں۔ کرسٹوفر کولمبس نے ایک بہت بڑی بحری غلطی کی تھی جس کی وجہ سے اسے امریکہ دریافت ہوا۔ الیگزینڈر فلیمنگ کی ایک نادانستہ غلطی نے اسے پینسلین جیسی عظیم ایجاد کرنے پر مجبور کیا۔ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اپنے آپ کو نیچا نہ ہونے دیں۔ یہ کوئی سادہ پریکٹس نہیں ہے جو صرف کامل بناتی ہے۔ یہ وہ غلطیاں ہیں جن سے ہم سیکھتے ہیں اور یہی دراصل یہی وہ خوبی ہے جو ہماری کمزوریوں کے پیچھے چھپی ہے اور ہمیں زندگی میں کامل بناتی ہے۔ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو تلاش کریں اور لوگوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ان کی مدد کریں۔ یہی کمال انسانیت ہے۔ ”کسی دردمند کے کام آکسی ڈوبتے کو اچھال دے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments