جنرل فیض حمید: ولی عہد ہونے کی سزا

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


ہم صحافی لوگوں میں لاکھ نظریاتی اختلافات ہوں لیکن ایک بات مشترک ہے کہ جب بھی کبھی بڑی خبر آئے گی ہم میں سے کوئی ضرور کہے گا یہ خبر تو میں نے دو سال پہلے بریک کر دی تھی اور اگر چھاپی نہیں تھی تو نیوز روم میں یا پریس کلب میں دوستوں کو بتا دی تھی کہ یہ ہونے جا رہا ہے۔

زندگی نے پہلی دفعہ موقع دیا ہے کہ میں بھی کہہ سکوں کہ جب میرے اسلام آباد کے سنئیر صحافی کہہ رہے تھے کہ جنرل فیض حمید اگلے سپہ سالار ہوں گے اور جب تحریکِ انصاف کا ہر کارکُن اپنے لیڈر عمران خان اور جنرل فیض حمید کی جوڑی کو کرن ارجن بنا کر پیش کر رہے تھے جو اپنے سیاسی دُشمنوں کو تہس نہس کر دیں گے۔ تو میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی تھی کہ جنرل فیض حمید کتنے ہی قابل ہوں وہ سپہ سالار نہیں بن پائیں گے۔

میں ایک انتہائی بے خبر صحافی ہوں، اسلام آباد اور پنڈی کے اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیاں مجھ تک نہیں پہنچیں اس لیے جب فیض حمید آئی ایس آئی کے سربارہ بنے تو صرف فیض آباد والے دھرنے کے سلسلے میں اُنکا نام سُنا تھا۔ اُسکے علاوہ اُن کے بارے کُچھ نہیں جانتا تھا۔

سنئیر صحافیوں کی ایک دعوت میں موجود تھا۔ ایک انتہائی باخبر صحافی جو عرصہ ہوا سگریٹ چھوڑ چُکے ہیں لیکن کوئی بڑی اور بُری خبر آجائے تو سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے سگریٹ مانگا میں نے پوچھا سر خیریت۔

انھوں نے کہا کہ فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی بن گیا ہے۔ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ بہت ہی سخت گیر ہیں۔ میڈیا پر مُشکل وقت آنے والا ہے۔ پھر ایک دو واقعات سُنائے گئے جس میں جنرل صاحب نے ایسی زبان استعمال کی تھی جو کسی اخبار میں نہیں چھپ سکتی تھی۔

میں نے اپنی بے خبری میں تسلی دی کہ ہمیں روز بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے ایسے میں کوئی فیصل ایدھی جیسی شخصیت کو تو یہ عہدہ دینے سے رہا، ظاہر ہے کوئی سخت لونڈے کی طبعیت والا جنرل ہی آئی ایس آئی کا سربراہ بنے گا۔

ساتھ ہی بے خبری میں یہ تسلی بھی دی کہ آپ لوگ تو جنرل حمید گُل اور جنرل شجاع پاشا جیسی شخصیت کو بھگت چُکے ہیں جنرل فیض حمید آپ کا کیا بگاڑے گا۔

اُس کے کُچھ عرصہ بعد ہی محترم سہیل وڑائچ نے ایک طویل مضمون لکھا، عنوان اُس کا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ تھا جس میں انھوں نے پاکستان میں مستقبل کی فوجی اور سیاسی قیادت کا نقشہ کھینچا۔ انھوں نے جو بھی لکھا پی ٹی آئی کے متوالوں نے اُس میں سے اپنے سنہری مستقبل کی جھلک دیکھی۔ وہ یہ تھی کہ پہلے چھ سال جنرل باجواہ اور عمران خان، اُس کے بعد سپہ سالار جنرل فیض حمید اور عمران خان اور اُس کے آگے جنرل آصف غفور اور عمران خان۔ خواہشوں سے بنے اس نقشے میں یہ طے نہیں تھا کہ کون کس کو بنائے گا۔

میں نے متعدد بار عرض کی کہ آپ کو فوج سے اختلافات ہوں جیسا کہ موجودہ حکمرانوں کو تب تھے، یا فوج سے عشق ہو جیسا کہ پی ٹی آئی کے کارکُنوں اور رہنماؤں کو تب تھا، لیکن فوج نہ تو جمہوری ادارہ بنے گا نہ بادشاہت۔ یہاں سپہ سالار کا فیصلہ نہ آپ کے ووٹ لے کر کیا جائے گا، نہ ہی یہاں پر کسی کو ولی عہد مقرر کیا جا سکتا ہے۔

فرض کریں جنرل باجوہ اور عمران خان نے مل کر طے کر بھی لیا تھا کہ جنرل فیض حمید اگلے سپہ سالار ہوں گے تو باقی درجن بھر اُمیدوار جنرل حضرات کیا سر جھکا کر فیصلہ مان لیں گے اور چُپ چاپ گالف کھیلنے آئیں گے۔

فوج کو اس بات پر ناز ہے کہ ترقیاں صرف میرٹ پر ہوتی ہیں۔ نواز شریف کا بھائی وزیر اعظم بن سکتا ہے، بھٹو کا پوتا وزیرِ خارجہ بن سکتا ہے لیکن جنرل باجوہ چاہیں بھی تو اپنے کسی بھتیجے کو کور کمانڈر نہیں لگوا سکتے، یا کوئی جنرل مشرف اپنے بیٹے کو ڈی جی آئی ایس آئی نہیں لگا سکتا۔

زیادہ سے زیادہ اپنے کسی چہیتے افسر کو اس عہدے کے لیے تیار کر سکتے ہیں لیکن آخر میں فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے۔ اُس کے پاس جو بھی اختیار ہو وہ اُسی کو چُنے گا جو ذرا تابعدار نظر آتا ہو اور سپہ سالار بن کر وہ وزیر اعظم کو ساتھ وہی کرے گا جو جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل باجوہ تک کرتے آئے ہیں۔

تو جس مُلک میں ایس ایچ او لگنے کے لیے سفارش، سازشیں چلتی ہوں تو وہاں سپاہ سالار کی کُرسی کے لیے باقی قابل اور سخت گیر جنرل میدان کیوں کھلا چھوڑیں گے۔

پی ٹی آئی اور فوج کی پیار کہانی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کا ہر متوالہ اپنے آپ کو کور کمانڈر سمجھنے لگا، جنرل فیض حمید کی تصویر دل میں لگا کر گھومنے لگا لیکن جب اصلی کور کمانڈروں سے واسطہ پڑا تو یہ پیار کہانی دردناک ہوتی چلی گئی، پہلے تم نے ہم سے ہمارا محبوب جنرل چھینا، پھر ہمارے قائد کو جیل میں ڈالا اب یہ ٹوٹے ہوئے دل جائیں کہاں؟

پرانے بادشاہ بھی اپنا ولی عہد مقرر کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ ایک بیٹے کو ولی عہد مقرر کریں گے تو باقی بھائی دشمن کو جائیں گے۔ اس لیے پہلے بادشاہت کے باقی دعوے داروں کا بندوبست کرتے تھے۔

کبھی کبھی کسی شیر خوار شہزادے کو بھی ولی عہد بنانا پڑتا تھا تو ڈر ہوتا تھا کہ محل کے اندر چھپا کوئی دُشمنی اُس کے دودھ میں زہر نہ ملا دے۔ جنرل فیض حمید کو بھی ولی عہد بنا کر یہ غلطی کی گئی، اُن کے ایسے دُشمن پیدا کر دیے گئے جو اُن کی خواراک میں قطرہ قطرہ زہر ملاتے رہے اور اب ہمارا مستقبل کا مسیحا سلاخوں کے پیچھے ہے (اُمید ہے کہ کسی آرام دہ آفیسر میس میں ہوں گے) کہ ہمارا فاتح کابل تو اصل میں ایک قبضہ گروپ کا سرغنہ نکلا۔

خدا مستقبل کے ولی عہدوں کو ایسے انجام سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments