جاپانی لوگ کیسے ہوتے ہیں


لاس اینجلس سے ہماری ٹوکیو کی فلائٹ تقریباً دس گھنٹے کی تھی۔ ٹوکیو کے نریتا انٹرنیشنل ائرپورٹ پر میرا کزن میرا منتظر تھا۔ یہ پچیس سال پہلے جاپان آیا تھا اور ساتھ میں صرف دعائیں اور خود پر بھروسا۔ بہت محنت کی اور اب اپنا گاڑیوں کا شو روم ہے۔ آتے ہی جاپانی لڑکی سے شادی کر لی اور اب تک دونوں کی شادی کو بائیس سال ہو گئے ہیں۔ اگلے دن میرے کزن نے مجھے پورا ٹوکیو دکھایا اور گھومتے گھومتے رات کے تقریباً نو بج گئے۔ کیوں کہ میرا یہ کزن میرا ہم عمر ہے، اس لیے بہت بے تکلفی ہے۔ میں نے پوچھا، یار پورا دن گزر گیا اور رات ہو گئی، تمھاری بیوی نے ایک کال بھی نہیں کی۔ اس نے کہا کہ پاکستانی بیوی ہوتی تو کرتی۔ جاپانی لڑکیوں کی یہی خاص بات ہے۔ اسے پتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔

میں نے پوچھا کہ جاپانی بھابھی سے تمہاری ملاقات کیسے ہوئی۔ کہنے لگا، میں ٹرین اسٹیشن پر چائے لے رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک جاپانی لڑکی انگریزی کی کتاب پڑھ رہی ہے۔ میرے علم میں تھا کہ جاپانی لڑکیاں انگلش سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ میں نے ہیلو کیا اور انگریزی میں بات شروع کر دی۔ یہ بہت متاثر ہوئی کہ تمہیں انگلش آتی ہے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے ساری تمھاری کہانی اپنے اوپر رکھ کر سنا دی کہ کس طرح میں نے ٹوفل کا امتحان دیا۔ میرا داخلہ امریکی یونیورسٹی میں ہو گیا تھا لیکن میں جاپان آ گیا۔ میں نے نمبر مانگا تو اس نے اپنا نمبر تو نہیں دیا لیکن مجھ سے میرا نمبر لے لیا۔ میں انتظار کرتا رہا لیکن کال نہیں آئی۔ تقریباً تین مہینے بعد فون آیا اور پھر ہم ملے اور آج بائیس سال ہو گئے ہیں شادی کو۔

میں نے کہا تمہارے تو مزے آ گئے۔ ہنسنے لگا پھر کہا، ایک بات بتاؤں۔ میں نے کہا بولو۔ یار یہ جاپانی بڑی ڈسپلن قوم ہے۔ شوہر کو بھی ایک رات پہلے یا صبح بتانا پڑتا ہے کہ اس کا جنسی اختلاط کا پروگرام ہے۔ وہ سوچے گی، اپنے پورے دن کی مصروفیات کو مد نظر رکھ کر پھر بتائے گی کہ ہاں یا ناں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ بہن بھائی سو رہے ہیں۔

میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کاش کہ پاکستانی مرد بھی اپنی بیویوں سے ان کی مرضی پوچھتے۔ کبھی عورت بیمار بھی ہو سکتی ہے، کبھی اس کا بھی من نہیں کرتا، کبھی وہ بھی تھکن سے چور ہو سکتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد، عورت کو انسان ہی کب سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو جسم سے آگے کون دیکھتا ہے۔

بالکل صحیح کہا تم نے لیکن ایک اور بات بتاؤں۔ میں نے کہا بولو۔ اگر جاپانی لڑکی نے حامی بھر لی تو پھر اس کی کوئی حدود نہیں ہوتیں۔ وہ محبت میں پوری کی پوری داخل ہو جاتی ہیں۔ آپ اس کے لیے بادشاہ سے کم نہیں ہوتے۔ وہ آپ کے جوتے بھی اتار کر کونے میں سلیقے سے رکھے گی لیکن اس کی مرضی کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نے کہا اسی کا نام تو محبت ہے۔

جاپان آنے سے پہلے ہم نے اپنے اس کزن کو بتا دیا تھا کہ ہم نے اس کی جاپانی بیوی کے لئے پرفیوم لے لیا ہے۔ کچھ اور چاہیے تو بتاؤ۔ کہنے لگا کہ تم نے خرید لیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایک بات بتاؤں۔ ہم نے کہا ارشاد حضور۔ کہنے لگا کہ جاپانی لوگ پرفیوم کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ تقریباً چار سال پہلے میں نے اپنی بیوی کو پرفیوم دیا تھا اور وہ اب تک چل رہا ہے۔ جاپانی لوگ اس لئے پرفیوم نہیں لگاتے کیوں کہ دوسروں کو اس سے الرجی ہو سکتی ہے۔ وہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بہت تیز خوشبو نہیں لگاتے۔ لیکن تمہیں کبھی بھی جاپانی کے پاس سے بدبو نہیں آئے گی کیونکہ یہ لوگ دن میں دو مرتبہ نہاتے ہیں۔ ایک سونے سے پہلے اور دوسرے صبح اٹھ کر ۔

ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر پرفیوم ہم خود رکھ لیتے ہیں اور جیولری کا تحفہ دے دیتے ہیں۔ اس نے کہا یہ ٹھیک رہے گا۔ ہم نے کہا کچھ امریکن چاکلیٹس بھی لی ہیں تمھارے بچے کے لئے تو سن کر ہنسنے لگا۔ بتانے لگا کہ یار یہاں کی پوری قوم چاکلیٹ کی شوقین نہیں ہے۔ یہ لوگ بالکل میٹھا نہیں کھاتے۔ یہاں کے بچے میٹھے میں گاجریں کھاتے ہیں۔ ہم نے کہا اچھا چاکلیٹس بھی نکال دیتے ہیں۔ تم بتاؤ پھر کیا لائیں؟ میرے کزن نے جواب دیا کہ تم اگر کچھ لانا ہی چاہ رہے ہو تو لاس اینجلس ڈاجرز کی بیس بال ٹیم کی شرٹ لے آؤ۔ میرا بیٹا بہت شوق سے بیس بال دیکھتا ہے اور ڈاجرز کا فین ہے۔ ہم نے کہا بالکل لے آئیں گے۔

جاپانی قوم بہت صفائی پسند ہے۔ ہم نے ایک دفعہ کیلا کھایا اور پھر آدھے گھنٹے تک چھلکا پھینکنے کی جگہ ڈھونڈتے رہے۔ بہت ہی مخصوص مقامات پر انہوں نے کچرا پھینکنے کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ میرے کزن نے بتایا کہ ایک دفعہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ سگریٹ پی رہا تھا۔ سگریٹ پینے کے بعد میں نے اس کو سڑک کے کنارے پھینک دیا۔ شام کا وقت تھا، میں نے سوچا کون دیکھے گا۔ لیکن کہیں اوپر بلڈنگ سے ایک ضعیف خاتون نے دیکھ لیا۔ وہ نیچے آئی، اس کے ہاتھ میں جھاڑو اور کچرا اٹھانے کا پین تھا۔ اس نے ہماری طرف دیکھا، سگریٹ اٹھائی اور خاموشی سے واپس چلی گئی۔ یار ناصر، مجھے اتنی شرمندگی ہوئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے کبھی کہیں کچرا نہیں پھینکا۔ اسی طرح کی کئی باتیں اور واقعات ہیں کہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

جاپان میں ہم نے ٹوکیو، کیوٹو، نارا، کوبے، ہیمےجی اور ہیروشیما کے علاقے دیکھے۔

ہیروشیما کے پیس پارک اور اس کے میوزیم میں امریکہ کے خلاف کہیں بھی کوئی بھی نفرت آمیز چیز دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسی ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا لیکن اسی میوزیم کے اندر وہ امریکی حکومت کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ امریکہ نے سارے تاریخی ریکارڈز اور بم گرانے کی مکمل تفصیلات جاپانی حکومت کو فراہم کیں تاکہ اس پیس میوزیم میں رکھی جا سکیں۔

جاپانی حکومت نے جہاں بم گرا تھا وہاں کا نام پیس میموریل پارک رکھا ہے۔ وہاں کوئی جاپانی فوجی نہیں کھڑا ہے۔ وہاں پھول ہی پھول رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ نفرت اپنے بچوں کو منتقل نہیں ہونے دی۔ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments