سفر تو آغاز ہو چکا ہے: ایک پہر نجیب احمد کی شاعری کے ساتھ
اُڑ نہ جائیں پھر درختوں سے ہرے پتوں کے غول
اِک یہی ڈر تھا، مرا کچھ اور سرمایہ نہ تھا
اس پُر تاثیر شعر کی وجدانی کیفیت کی گونج میں جھومتے ہوئے، سرمائے شمالی سے ٹھٹھرتے اِس شفّاف دن کی آخری ساعتوں سے ہم نگاہ، میری آنکھیں آسمان کے وسیع رنگین کینوس پر آج جو براہِ راست فضائی مظاہرہ دیکھ رہی ہیں وہ حیرت انگیز بھی ہے اور دل کش بھی۔ فلیم بورو کی نِیم شہری آبادی سے گریزاں اس تنہا پارک میں قطار در قطار ایستادہ پیڑوں کی بُھوری شاخوں سے یک دم ہی یہ غول فضا میں بلند ہو گئے ہیں۔
پرندوں کی قطاریں آسمانوں کی طرف اڑنے لگیں
اِس سے پہلے کہ ذہن آنکھوں کو یقین دلا سکے کہ پیڑوں سے اجتماعی اُڑان بھرنے والے یہ ان گنت ننھے ننھے وجود دراصل پتّے نہیں پرندے ہیں، فضا عجیب پُراسرار سی سرسراہٹوں سے گونجنے لگی ہے۔ ان گنت پرندوں کے پروں سے پھوٹتا آہنگ جہاں سماعتوں کو پُر کیف رِدھم سے آشنا کر رہا ہے وہاں ذوقِ دید پر یکے بعد دیگرے نقش نقش نِت نئی تصویریں بھی آشکار کر رہا ہے ؛ ابھی ایک کمان کی شکل اُبھری اور اب ایک بڑے سے تِیر کی صورت بن گئی۔ اُفق کی نارنجی سی لالی کے پیش منظر میں ایک لمحے کو ڈولتی ہوئی کشتی کا منظر تھرتھرایا اور دوسرے ہی لمحے اڑان کی ترتیب نے ایک عظیم پرندے کا ہیولہ سا اجاگر کر دیا۔ ”سٹار لنگز مرمریشن“ کے تصور سے بے پرواہ کیسے فن کار پرندے ہیں یہ جو آسمان کے پردے پر اپنا ہنر نقش کرنے میں مگن ہیں! کسی صلے، کسی داد، کسی بھی پذیرائی کی خواہش کے بغیر بس اپنی ہی موج میں، پروں میں ہوا کے رنگ چھپائے فضاؤں کی سرد خاموشی کو فطرت کی ان سُنی سمفنی سے مرتعش کر رہے ہیں اور گنگنا گنگنا کر گویا دعوت دے رہے ہیں۔
پروں کو رنگ کشا آسمان پر دیکھیں
پر تو سبھی پرندے رکھتے ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات کے لیے انہیں مائلِ پرواز بھی رکھتے ہیں مگر پرندوں کے یہ غول جانے کیوں مجھے مختلف سے لگ رہے ہیں۔ ان کی پرواز دوسروں کی اڑانوں سے الگ شان رکھتی ہے۔ دوسرے پنچھی ان فنکار پرندوں سے ان کی پرواز کے حُسن کا راز پوچھیں تو وہ یقیناً چہچہانے لگیں گے کہ
اڑان کے لیے کچھ اور بھی تو لازم تھا
لیے اُڑے گی کہاں تک یہ مشتِ پر مجھ کو
اور کچھ کیالازم تھا بھلا؟ پر ہی تو درکار ہوتے ہیں پرواز کے لیے اور وہ ان کے پاس بھی ہیں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ فضائے آسماں میں اپنا وجود منوانے کے لیے، اپنی پہچان کی پرواز کے لیے پر ہی نہیں کچھ اور درکار ہوتا ہے۔ مثلاً فن، مثلاً ہنر
صرف پر ہی نہیں کافی ہوتے
آسماں پر نظر آنے کے لیے
وہ پرندے بھلا کیونکر حقیقی اڑان کا لطف پا سکتے ہیں جو
ہنر پرواز کا بھولے ہوئے ہیں
ان پرندوں کو جاننا اور ماننا ہو گا کہ ہنر مند پرندوں کی پرواز کسی اور طرح کی ہوتی ہے، ان کا سفر کچھ اور ہوتا ہے، ان کی منزل کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ منزل ہوتی بھی ہے یا نہیں، کسے خبر! پھر بھی ہوا کی جھلملاتی موجوں میں لہراتے، گنگناتے یہ من موجی پرندے سطر سطر یہ اظہاریہ لکھتے جاتے ہیں
ہم لوگ تو اک موج کی جھلمل میں رواں ہیں
منزل کے لیے محوِ سفر کوئی نہیں ہے
یہاں ذہن مضطرب ہوتا ہے :یہ کیسے راہی ہیں! میں تو انہیں از خود رفتہ سے سالک سمجھا تھا کسی راہِ سلوک کے مست درویش مگر اپنے کرتب دکھا کر یہ تو پذیرائی فن کے بھی طلب گار نکلے۔ یہ چاہتے ہیں کہ
سبھی سلوک، سبھی فن، سبھی ہنر دیکھیں
تو گویا یہ بات سچ ہے کہ
ہوائے نم، ہوسِ نام، حرصِ نام و نمود
اڑان بن کے پرندوں کے پر میں رہتے ہیں
دل ذہن سے متفق نہیں۔ اسے جانے کیوں یقین ہے کہ یہ تو وہ درویش ہیں جو مسافت میں رختِ سفر پر بھروسا نہیں رکھتے بلکہ وہ تو کہتے ہیں
اڑنے کے ارادے ہیں تو پر ساتھ نہ رکھنا
اس یقین اور اس عزم کو رہبر بنانے والوں کی پرواز کا اعزاز یہ ہوتا ہے کہ آسمان ان کا ہم پرواز ہو جاتا ہے۔ گویا منزل ساتھ محوِ سفر ہوجاتی ہے :
پنچھی اڑتے تھے ہواؤں میں نجیبؔ
آسماں ساتھ اڑا کرتا تھا
آسماں کس کے ساتھ اڑتا ہے؟ ان کے ساتھ جو پر نہیں رکھتے یا جو پر تو رکھتے ہیں مگر ان پر بھروسا نہیں کرتے؟ جیسے وہ درویش سالک جو دنیاوی اسباب تو رکھتے ہیں مگر روحانی مسافت میں ان پر بھروسا نہیں کرتے، ان کی نظر صرف اور صرف اپنے محبوب و مطلوب کی راہ پر لگی ہوتی ہے۔ یہ درویش پرندے بھی خوب جانتے ہیں کہ امکان کے سات سمندر دکھانے والا کون ہے اور اڑان کا یارا دینے والا کون ہے، ان کا بھروسا فقط اسی پر ہے۔ اسی لیے فضاؤں میں بل کھاتے، ڈولتے ہوئے، پروں کو بند کرتے اور کھولتے ہوئے وہ عطا کرنے والے کی عظمت کے سفید سفید اعترافیہ لہرئیے بھی لوحِ نیلگوں پر تخلیق کرتے جاتے ہیں
ہم کو سات آسماں دکھا کر
یارا بھی اڑان کا دیا ہے
اور اس اڑان میں اگر کوئی ان کا رفیق ہوتا ہے تو وہ اپنا ہی شوق ہوتا ہے، اپنی ہی آگ ہوتی ہے، اپنی ہی روانی ہوتی ہے جو کنارے توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے، حدود سے نکل کر ہر سُو پھیلنا چاہتی ہے، آوارہ خُو ہَوا کی طرح
حدودِ صحنِ گلشن سے نکل کر
ہَوا گلیوں میں چلنا چاہتی ہے
وہ گلیاں جن میں رنجِ عُمر کا مارا اداس پنچھی پھیرا کرتے ہوئے صدا لگاتا ہے
گلیوں میں رول دیں نہ مرے بال و پر مجھے
ویسے بھی پروں پر بھروسا کرنے والے کو ہمہ وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ
کہیں بکھیر نہ دیں میرے بال و پر مجھ کو
پہلے تو یہ ڈر پر کھولنے کے راستے میں حائل رہتا ہے اور پھر جب اس ڈر کو پاٹنے کی ہمت کر ہی لی جائے تو اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ پر کھلنے کا عمل ہی فراموش ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں بس یہ نوحہ ہی ہواؤں میں رقم رہ جاتا ہے کہ
تمام عمر مگر کھل سکے نہ پر میرے
اب المیّہ یہ بھی ہے کہ ہنر ور پنچھی صرف اپنے پر کھولنا ہی نہیں چاہتا بلکہ وہ انہیں کھولنا بھی ادا سے چاہتا ہے، وہ گرفتاری ٔرمز سے آزادی چاہتا ہے اور چاہتا بھی ہے تخلیقی ڈھنگ میں، امکان کے رنگ میں، ہنر کے آہنگ میں۔ اسی لیے کہتا ہے
رنگوں میں کھول، اے مرے رنگِ ہنر مجھے
اب کبھی تو ہنر کا رنگ اس کے سامنے ہواؤں کے روپ میں ابھرتا ہے اور کبھی دریا کی لہروں میں متشکل ہوتا ہے۔ فن کا دریا بھی عجب کڈھب دریا ہے کہ جس میں پانی بیک وقت دونوں سمتوں میں بہتا ہے ؛ دو رُخا بہاؤ! یہ جاننا آساں نہیں کہ کون سی رو کس طوفان میں جا گرائے گی یا کس سمندر سے جا ملائے گی۔ کون سی رو سچی ہے اور کون سی جھوٹی، کون دوست ہے اور کون دشمن! کون بتائے۔ مگر یہ دریا عبور کیے بغیر چارہ بھی تو نہیں :
اک رو مری ساتھی ہے تو اک رو میری دشمن
دریائے ہنر پار کیا جائے نہ مجھ سے
فن کار یا تخلیق کار کے اندر گریز و آمادگی کی یہ دو لہریں ہمہ وقت تصادم آمادہ رہتی ہیں۔ انہیں دل اور دماغ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور فکر اور احساس کا بھی۔ انہیں انسان کی داخلی دنیا میں کارفرما دیوانگی اور فرزانگی کی دو متضاد قوتیں بھی کہہ سکتے ہیں اور۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی زبان میں دکھ سہنے والے فرد اور تخلیق کرنے والے ذہن کی کشمکش سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ لمحہ ٔ تخلیق کے دوران میں ان دونوں میں کامل فاصلہ ہی فن کار کی کاملیّت کی دلیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ عرصۂ فن کے کچھ ہی مسافر اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ یہ کشمکش، یہ داخلی تصادم ازل سے جاری ہے اور دراصل
یہ تاریخ ِ محبت ہے
اور اس تاریخ ِ محبت کی عبارتیں ایک ایسے دشت پر رقم ہیں جو خود کتاب میں ڈھل چکا ہے مگر ستم یہ ہے کہ:
یہ دشت کب کتاب ہوا، کچھ خبر نہیں
مگر یہ خبر کسی نہ کسی کو ، کسی نہ کسی صورت ضرور مل گئی کہ اس دشتِ تاریخ محبت کے وسط میں کہیں ایک دریا ہے اور یہ کہ:
یہ دریائے تواتر ہے
مسافر جھولتے پُل پر بندھی رسّی پکڑ کر فن کا دریا پار کرتے ہیں
سفر اتنا کٹھن اور طویل۔ اتنا پُر خطر اور پُر فریب ہے کہ مسافر کہہ اٹھتا ہے
سنسنی سی سفر میں رہتی ہے
نظریات، اعتقادات اور تضادات کے ہمّت شکن جھکڑوں میں جھولتے اظہار کے مصرع مصرع پُل پر خیال کے نازک گلاب کا سفر اور وہ بھی دریائے فن کی منہ زور دو طرفہ روانی کے مقابل! مگر کیا کیجے! مشکل یہ ہے کہ جہاں اس جاں گُسل سفر کا اختتام ہوتا ہے وہیں سے نجیبؔ شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ اور وہ جو زرِ ملال سی چمک پروں میں سمیٹے :
پرندے پانیوں کے ساتھ چلتے تھے
”سٹار لنگز مرمریشن“ کے تصور سے بے پرواہ وہ سب درویش فنکار پرندے آسمان کے پردے پر اپنا ہنر نقش کرنے لگتے ہیں! کسی صلے، کسی داد، کسی بھی پذیرائی کی خواہش کے بغیر بس اپنی ہی موج میں، پروں میں ہوا کے رنگ چھپائے فضاؤں کی سرد خاموشی کو فطرت کی ان سُنی سمفنی سے مرتعش کرنے لگتے ہیں اور خوابوں سے ہم آہنگ دُھن سے استفسار کرنے لگتے ہیں :
کہاں سے آغاز ہو سفر کا
کہ
سخن تو آغاز ہو چکا ہے۔
- قدیمی باشندوں سے معافی کا قومی دن - 06/10/2024
- مشترکہ محبوبہ اور مولوی صاب - 28/09/2024
- آگ کتنی روشن ہے: اختر حسین جعفری صاحب کی نظم پر ایک تاثریہ - 23/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).