ظفر اقبال کے کلام میں تمثال کاری
ظفر اقبال نام اور تخلص ظفر کرتے ہیں۔ 27 ستمبر 1933 ء کو بہاول نگر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ضلع اوکاڑہ کے معزز زمیندار تھے۔
ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاول نگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی سکول اوکاڑہ سے 1950 ء میں کیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور سے پاس کیا اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔
ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لاء کالج جامعہ پنجاب لاہور سے پاس کیا۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کردی۔ وہ ایک مرتبہ اوکاڑہ بار ایسوسی ایشن اور دو مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔
ظفر اقبال ظفر کو شعر کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور احساس، اسلوب کی شائستگی کا ہنر بھی ہے۔ وہ شاعری کے جمالیاتی معیارات اور فنی لوازمات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔
حقانی القاسمی کے مطابق:
ظفر اقبال کی غزلیہ شاعری کا کسی بھی تنقیدی زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو وہ ان تمام معیارات پر کھری اترے گی جو اچھی اور عمدہ شاعری کے لیے تعین کیے گئے ہیں۔ موضوع کی معنویت، اسلوب کی تخلیقیت اور زبان کی صفائی اور سلامت کے اعتبار سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری پختہ نظر آتی ہے ”
تصانیف
غبار آلود سمتوں کا سراغ وہم و گمان اطراف ھے ہنو مان تجاور تساہل
اب تک (کلیات غزل کے تین حصے )
خشت زعفران ہرے ہنیرے آب رواں گلافتاب رطب و یابس سر عام
تفاوُت ترتیب تماشا عیب و ہنر
اعزاز
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔
ہوتا ظفر ان میں کوئی رنگ حقیقت
ویسے تو سبھی خواب سہانے ہیں تمہارے
تمثال کاری
” شاعر اپنے داخلی جذبے کو الفاظ کی شکل دے جس سے قاری کے تخیل میں کوئی متحرک تصویر یا منظر آ جائے اسے تمثال کاری کہتے ہیں“ ۔
”تمثال در اصل وہ تصویر ہے جو شاعری کے مطالعے سے ذہن میں تشکیل پاتی ہے“
اقسام
بصری تمثال کاری
سمعی تمثال کاری
حرکی تمثال کاری
عضویاتی تمثال کاری
ظفر اقبال کے کلام میں تمثال کاری
ہر پھول سے ٹپکنے لگا ہے لہو ظفرؔ
مجھ کو جراحتوں کا شجر دے گیا ہے وہ
دراصل پھول مسرت اور تازگی کی علامت ہے لیکن ظفر اقبال نے اپنی شاعری میں انسانی زندگی سے اس کے گہرے رشتے کو بیان کیا ہے ہر پھول سے لہو کا ٹپکنا ہر اس شعر کے اندر تمثال کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تھک کے بیٹھوں تو آسمان چھولوں
گر یقین ہو تو میں گماں چھولوں
اس شعر کے اندر آسمان کو چھونا تمثال ہے آسمان تک رسائی در اصل ایک گماں ہی تو ہے مگر یقین کی بلندیوں سے آسمان کو چھوا جاسکتا ہے۔
زمین بچھائے ہوئے آسمان اوڑھے ہوئے
میں چل رہا ہوں سفر کی تھکان اوڑھے ہوئے
اس شعر کے اندر آسمان اوڑھنا بطور تمثال کاری موجود ہے۔ زمین و آسمان دونوں ہم رشتہ ہیں اور انسانی وجود سے ان دونوں کا گہرا رشتہ ہے اور شاید اسی رشتہ کی طرف شاعر نے خوبصورت انداز میں اشارہ کیا ہے
ہر اک نگاہ کو حیرت میں ڈال دیتا ہوں
زمین کی تہہ سے میں سورج نکال دیتا ہوں
اس شعر میں ظفر اقبال نے تمثال کاری کا استعمال کیا ہے۔ زمین کی تہ سے سورج نکالنا بطور تمثال ہے۔
اندھیرا ہے میری بستی میں ہر سو
میں سورج بن کے رہنا چاہتا ہوں
درج بالا شعر کے اندر ”سورج بن کر رہنا“ ظفر اقبال نے بطور تمثال استعمال کیا ہے
دل میں شاداب جو شجر تھا ظفرؔ
خشک ہو کر بکھر گیا مجھ میں
ظفر اقبال نے درخت کا رشتہ دل کی شادابی و تازگی اور ارتقاء سے جوڑا ہے۔
لوگ کہتے ہیں بستی انساں
آدمی ہیں یہاں تو پتھر کے
پتھر استقامت اور طاقت کا مظہر ہے۔ ظفر اقبال نے پتھر کو اپنی شاعری میں مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔
درج بالا شعر کے اندر ظفر اقبال نے آدمی کو پتھر کا قرار دیا ہے۔ پتھر کے آدمی بطور تمثال استعمال ہوا ہے۔
آگ سی محسوس ہوتی ہے بدن میں
ذہن میں گویا کمانیں ٹوٹتی ہیں
انسانی زندگی سے آگ کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہیں۔ ظفر اقبال نے اپنی شاعری میں مختلف معنویتوں میں شاعری کو جگہ دی ہے۔
اس شعر کے اندر بدن میں آگ محسوس کرنا اور ذہن کے اندر کمانوں کا ٹوٹنا ”بطور تمثال استعمال ہوا ہے۔
ایڑیاں میری اگلتی ہیں لہو
کیسی راہوں کا سفر آیا ہے
ظفر اقبال نے ایڑیوں سے لہو کا اگلنا بطور تمثال استعمال کیا ہے۔
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں ظفر ؔ
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے
درج بالا شعر کے اندر ”دھوپ کی پتیاں“ ظفر اقبال نے بطور تمثال استعمال کیا ہے۔ ظفر اقبال اپنی شاعری میں فنی لوازمات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔
مدتیں ہو گئیں، خالی ہیں یہ بنجر آنکھیں
اس زمیں پر وہ کوئی پھول اُگاتا آ کر
بہت یہ کُہنگی و خستگی بھی غور طلب ہے
مجھے پسند نہیں ہے لفظ کو خضاب لگانا
بجھا بجھا سا جو اس طرح سے یہ نقش سخن ہے
کچھ اس میں چاہیے تھی ساری آب و تاب لگانا
خواہشیں پھڑا پھڑا رہی ہیں، ظفرؔ
قیدیوں کو رہا سمجھنا، کیا
اُمڈتے آ رہے پھولوں کا وہ سیلاب سا کوئی
نظر تقسیم ہو جانی، نظارہ اور ہو جانا
اب راستہ بھی ان کو دکھانا پڑے گا آپ
چنگھاڑتی ہوئی جو یہ اندھی ہوائیں ہیں
بجھے ہوئے ہیں ستارے، زمیں چمکتی ہے
جو اس طرح سے تو شاید نہیں چمکتے ہیں
ہوا جو رکنے لگی ہے تو چل پڑے ہیں درخت
جہاں بھی ہو یہ روانی وہیں چمکتی ہے
رات کو ساتھ رواں رہتا ہے اک پارہ ابر
اک ستارہ یونہی بے خواب رہا کرتا ہے
ظفر اقبال ظفرؔ
خواہشیں پھڑا پھڑا رہی ہیں، ظفرؔ
قیدیوں کو رہا سمجھنا، کیا
ظفر اقبال ظفرؔ
بہت یہ کُہنگی و خستگی بھی غور طلب ہے
مجھے پسند نہیں ہے لفظ کو خضاب لگانا
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).