ہوادان سے: جہان فانی سے گذر گیا


انتہائی افسوس کے ساتھ خبر دی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا کے بطل جلیل، دار ارقم ٹک ٹاک سے سند یافتہ شہر کے نامور فیس بُکیے، ایکس والے مجاہد اور واٹسیپ گروپس کے جری سپاہی ای (الیکٹرانی) وفات پا گئے۔ اس اچانک موت کا سبب فائر وال میں الجھ کر جھلسنا تھا۔ مرحوم کو فوری طور پر بین الاقوامی گیٹ وے لے جایا گیا جہاں انہیں وی پی این ٹریٹمنٹ دی گئی مگر زخم کاری ہونے کے باعث وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی وفات سے کوئی ای (الیکٹرانک) خلا تو پیدا نہیں ہوا مگر سوشل میڈیائی دروغ ٹیم افسردہ ہے۔ نماز جنازہ کل شام باغِ ٹک ٹاک پر ادا کی جائے گی۔ فیس بک پر ان کے فالوورز کی بڑی تعداد نے باہر نکلنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے موبائل فون پر ہی سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ مرحوم کی یاد میں 3 دن تک کچھ پروفائل سرنگوں رہیں گے تعزیتی پیغامات اور سیاہ ماتمی جھنڈے لہرائے جائیں گے۔

آئیے ان کی مصروف مختصر زندگی اور ہمہ شمہ جدوجہد پر نظر ڈالتے ہیں۔ آپ کی پیدائش گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ایم ایس این میں بذریعہ ای میل ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق وہ ایک بڑے آپریشن کے بعد پیچیدگیوں کے ساتھ ڈاؤن لوڈ کیے گئے۔ انسٹالیشن کے وقت سانسیں درست طرح بحال نہ ہونے کے سبب آپ کو ابتدائی طور میسینجر چیٹ باکس آکسیجن دی گئی اور ساتھ ساتھ یاہو ڈاٹ کام کا ورد بھی جاری رکھا گیا۔ بچپن میں مختلف ویب سائٹس سے تعلیم حاصل کرتے وقت آپ کی سوچ مسلسل انگڑائیاں لیتی رہی اور بار بار کلک دبا کر اسے بمشکل زندہ رکھا گیا۔

ابتدا ہی سے آپ بذریعہ ایس ایم ایس جملہ حلقہ مندوں کو ہر روز صبح پابندی کے ساتھ اصلاحی پیغامات ارسال کرتے تھے۔ وہ اینالوگ کے مقابلے میں ایم ایس این کال یا وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول اور پھر اینڈرائیڈ طریقۂ تعلیم پر بھروسا کرتے تھے۔ درجہ بدرجہ ٹو جی، 3 جی اور 4 جی آگے بڑھتے اور گوگل جماعتیں عبور کرتے وقت انہیں اپنے اندر کلبلاتے کاسترو، منڈلاتے منیلا اور صدام کے سے صدمے کا احساس ہونے لگا۔ جلد ہی وہ خود پرچے گویرا ہونے کا گمان کرنے لگے۔

اپنے آخری ایام میں لبرل ہونے کا دعوا کرتے وہ خود بخود خدا پر ایمان لے آئے۔ مرحوم اپنے آبائی شہر حیدرآباد کے ایک اجڑے ہوادان سے اپنی گنجلگ نظریاتی جنگ لڑتے اور لوگوں کو ورغلانے پر کمر بستہ رہے۔ تاہم نیچے سڑک پر گزرتے سیاہ و سفید ڈالے دیکھ کر ان کا دم خشک ہوجاتا تھا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ انہیں دنیا کے تمام سماجی سیاسی اور معاشی مسائل کا ادراک ہے اور ان کی ذات میں چھپے صفات ہی ان روز افزوں مسائل کا گوناں حل ہیں۔

ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے مدرسۂ مارک ذکربرg میں داخلہ لیا اور امتیازی سند کے ساتھ فیس بک اسٹینڈرڈ پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لئے آپ واٹسیپ روانہ ہو گئے جہاں آپ کی ملاقات وقت کے علاماؤں اور خودساختہ دانشوروں سے ہوئی۔ بچپن میں والدین آپ کو ڈاکٹر انجینئر یا پائیلٹ بنانا چاہتے تھے مگر آپ بڑے ہو کر پاپا کی پری، لاڈلی نجمہ اور نٹ کھٹ نیشا بن کر لڑکوں کا دل چراتے رہے۔ دوران سروس خوش قسمتی سے انہیں اپنے ہی جیسے چراغ پا سیانوں دیوانوں اور چغد چراندیوں کے گروپس میں بات بے بات پخ اڑانے اور جگت جگالی کا بھرپور موقع ملتا رہا۔ یوں وہ اپنے تئیں اپنی ہی ذات میں انجمن بلکہ باؤلی غزالہ ہو گئے۔ جب ٹک ٹاک کا توتی بولنے لگا تو آپ بھی طوطی بن کر ٹک ٹاک کے پنجرے میں قید ہو گئے اور چوری کھانے لگے۔

مرحوم کو محلے کی ریڑھی پر آلو پیاز کے نرخ کا علم نہیں تھا مگر وہ جرمن مارک اور جاپانی ین کی کڑیاں ملاتے امریکی ڈالر کی عنقریب تباہی کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ عین وائی فائے نوجوانی میں انہیں علمیت کا ہیضہ ہوا جس کا علاج اسٹیو جاب بھی کرنے سے قاصر رہے۔ ان کا اسٹیٹس واہ وا کے ڈونگروں سے برستا تھا۔ آپ کو اکثر عقل کی قے اور دانش کے دست لگ جاتے تھے۔ ان کے بے باک افکار کی ننگی تلوار مخالفین کی دلیلوں کی گردنیں اڑاتی تھی۔

جا بجا حسرتوں کی ریح خارج ہونے کے سبب گروپس ایڈمن بارہا انہیں ایگزٹ کرتے رہے مگر بلا مشروط معافی مانگ کر وہ اپنا عشق لئے پھر آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتے۔ اس بے جا بے فکری اچھل کود اور عقل کے ساتھ مشت زنی کے کھلواڑنے متعدد بانجھ بحث پیدا کیں اور گروپ میں آپسی تنازعات انڈوپاک تناؤ کی سی کیفیت میں تنے رہے۔ آج تک سوشل میڈیا پر کسی مباحثے کا حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مرحوم اپنے خیالات میں دائمی قبض کا شکار بھی تھے۔

مرحوم بچپن ہی سے ہشیار محنتی اور زیرک تھے۔ صوفے پر دراز اپنے ذہن کو ورزش کراتے اور طرح طرح کی ویب سائٹس سے دانش کے موتی جمع کرتے اور پھر حلقۂ یاراں میں تیر کی طرح بے پر کی اڑاتے رہتے۔ ان کے اپنے چھوڑے ہوئے پھسپھسے شگوفے تو آگے مقبولیت نہ پا سکے تاہم کہیں اور سے ریسیو اینڈ فارورڈ کا سلسلہ جاری رہا۔ اکثر انقلاب کے داعی ہونے کا وہم انہیں گھیرے رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ خود کو باغیوں کی اگلی صف میں خیال کرتے۔

ان کے انقلابی شعری سفر کا سلسلہ اقبال سے شروع ہو کر براستہ فیض و فراز کی منزلیں پار کرتے حبیب جالب تک جا پہنچا۔ سوائے اپنے ارد گرد کی حقیقتوں کے انہیں باقی دنیا و مافیہا کی خبر پریشان رکھتی تھی۔ سدرۃ اولی کو وہ اپنی دسترس میں سمجھتے تھے۔ سودا سلف لانے میں بے اعتباری اور خاندانی مشاورت میں گھر والوں کی بے اعتمادی کے باوجود وہ عرب بہار سے لے کر یوکرین وار اور غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ قتل عام سے لے کر چین امریکہ مسابقت پر اعتماد سے رائے دیتے۔

ماضی قریب میں ان کے پسندیدہ موضوعات سری لنکا اور بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں بدلی جانے والی حکومتیں اور الٹے جانے والے تخت رہے۔ موت سے قبل وہ تخت یا تختہ کا خواب دیکھتے اور دوسروں کو شورش پر اکساتے رہے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قدرت نے انہیں کسی عظیم کام کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے لئے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوام کے اذہان کے فاتح اور جمہور کی سوچ کو مسخر کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تا مرگ برقیات وہ انبوہ کثیر کو ایک منظم قوم میں تبدیل کرنے کے صرف نعرے مارتے رہے گھر والوں سے بے نقط سننے کے بعد بالآخر دہی لانے کے لئے باہر نکلتے وقت ان کے ایک پیر کی چپل ہمیشہ ادھر ادھر ہوجاتی تھی جو خانگی امداد کے بعد چارپائی یا کرسی کے نیچے سے اپ لوڈ کی جاتی تھی۔

کیوں کہ برقی مراسلات بذریعہ انٹرنیٹ آسمانوں میں اڑتے پھرتے جاتے اس لئے وہ خود کو ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ کی عملی تفسیر سمجھے نرم فومی کرسی پر بیٹھے رہے۔ اپنی نظر میں آپ تدبر کے گردوں سے ٹوٹا اک ستارہ تھے جو قصر سلطانی کی جڑوں میں نشیمن تلاش رہا تھا۔ ان کے بقول ”انہیں سوائے اپنے ساری دنیا کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے“ ۔ ویسے تو اب تک کی آخری خواہش کے مطابق عن قریب ان کے گھر کو چیئرمین ماؤ کے گھر کا سا رتبہ و تقدس ملنا حتمی تھا مگر بعد از رحلت کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی ہے۔ سوائے دو چار حقیقی دوستوں کی طرف سے بصد اصرار چسپ کیے گئے رسمی پیغامات اور ایفیگیز کے ان کا کمنٹس باکس بالکل خالی ہے ؛ ان کے اصلی بھیجے کی طرح۔ دعا ہے کہ خدا ان کے برقی درجات بلند فرمائے اور یو ٹیوب بریں پر ملین لائکس عطا ہوں۔ مل کے بولو آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments