عطیہ سید کے فکشن کا اسلوب


اُسلوب وہ سر چشمہ ہے یا وہ فن ہے جو ادب کو غیر ادبی تحریر سے جدا بھی کرتا ہے اور ممتاز بھی اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلوب فنکار کی شخصیت کا مظہر بھی ہوتا ہے کیونکہ اسی پیرائے میں فنکار کی شخصیت کی تمام تر رعنائیاں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ”اُسلوب سے مراد بات کو بلیغ انداز میں پیش کرنا ہے اور وہ تمام وسائل کو استعمال کرنا مراد ہے جن سے کوئی ادبی تحریر موثر ثابت ہو سکتی ہے۔“ (ڈاکٹر سید عبداللہ)

سخن کی مہارت رکھنے والے مصنفین اپنے ادبی فن پاروں میں خوبصورتی، جذباتی گہرائی اور ادبی تخلیق کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ عطیہ سید کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو گوہر ِنایاب جیسا اسلوب رکھتے ہیں کیونکہ ان کی زبان دل کو چھو جانے والی دلکش اور فنی طور پر شاندار ہوتی ہے جو قاری کو ایک گہرے جمالیاتی تجربے کا احساس دلانے کے ساتھ مصنفہ کی امتیازی فکری حقیقت سے بھی آشنا کرتی ہے۔

عطیہ سید کا اُسلوبی آئینہ ایک منفرد جمالیاتی فریم کے اندر اپنے فلسفیانہ، نفسیاتی، سماجی، روحانی اور تہذیبی عناصر کو سموئے ہوئے ہیں۔ ”اسلوب کی مثال ایک ایسے آئینے کی ہوتی ہے جو سورج کی شعاؤں کو دیوار پر اس صورت میں منعکس کرتا ہے جیسی اس کے ساخت ہوتی ہے۔ اگر آئینے کی شکل چکور ہے تو وہ ایک چکور روشن ہیولا دیوار پر جم جائے گا۔ گول ہے یا تکونی تو اسی انداز میں دیوار پر انعکاس کرے گا“ ۔ (ڈاکٹر اعجاز راہی)

عطیہ سید کے اسلوب کے آئینے کو مندرجہ ذیل نکات کی روشنی میں یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
موضوعات
؞نفسیات

عطیہ سید ایک ماہر نفسیات شناس افسانہ نگار ہیں جو کرداروں کی نفسیات، ذہنی حالت، سوچ اور باطنی کشمکش کی مکمل تفصیل بیان کرتی ہیں۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں انسانوں کی نفسیات ایک انتہائی اہم موضوع ہوتا ہے جس میں وہ انسان کی ذات کے اندر کے تاریخ گوشوں کا منفرد جائزہ لیتی ہیں، شعور اور لاشعور کی کشمکش کو پیش کرتی ہیں اس کے علاوہ شعبہ ِ نفسیات کی اصطلاحات کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا افسانہ ”آخری کہانی“ ایک ایسے مصنف کی روداد ہے جو ایک ناخوشگوار بچپن گزارتا ہے جس کا اس کی ذہن کی نشو و نما پر گہرا اثر پڑتا ہے اور انہی ذہنی الجھنوں اور شراب کی زیادتی کے سبب وہ زندگی کے آخری ایام میں بھی ایک باطنی، ذہنی اور جسمانی جدوجہد سے گزرتا ہے۔

” وہ بطور نفسیات شناس ادیب ہونے کے جانتا تھا کہ اس کے اور ڈاکٹر کے درمیان جو کشمکش جاری تھی وہ شخصیات کے ٹکراؤ کا مظہر ہے۔ لیکن اس غیر جانبدار نفسیاتی تجزیے کے باوجود اس گرما گرم جنگ میں ملوث تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہسپتال میں آنے کے بعد سے اس کے اندر صدیوں کا ذخیرہ زہر ایک نقطے پر مرکوز ہو چکا تھا اور وہ نقطہ تھا چیچک زدہ چہرے والا، کینہ پرور، اکڑا ہوا ڈاکٹر۔“

افسانہ ”میری میرا“ امریکہ کے مصنوعی ماحول کی آب و ہوا میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس کو بچپن میں والدین کی محبت اور شفقت نہیں ملی اور وہ اپنے باپ کی عمر کے شخص کے ساتھ تعلق میں وابستہ ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ وہ منشیات کی ضد میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ عطیہ سید نے یہاں ڈپریشن کو جس مہارت کے ساتھ تمثیلی شکل دی ہے وہ قابلِ ذکر ہے اور انسان کے وجود پر کیسے یہ اثر انداز ہوتا ہے جس میں جسمانی طور پر بھی جمود طاری ہو جاتا ہے شعوری طور پر بھی خلا بن جاتا ہے اس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ عطیہ سید لکھتی ہیں :

” جمود کو ایک بے جان مادے کی ایک بنیادی خاصیت سمجھا جاتا ہے، مگر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ زندہ باشعور اجسام میں بھی موجود ہے، جو اکثر اوقات دبی رہتی ہے، یا ہم اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے لیکن یہ گھات میں رہتی ہے اور موقع پاتے ہی حملہ آور ہوتی ہے پھر ہمیں اس سے باقاعدہ ذہنی حتی کہ جسمانی طور پر لڑنا پڑتا ہے۔ میں باقاعدہ اس کشمکش کو اپنی نسوں، میں پھٹوں، غرض کے جسم کے انگ انگ میں محسوس کرتی تھی۔ میرا کوئی کام کرنے کو جی نہ چاہتا تھا کہیں آنے جانے ملنے ملانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوتی تھی بننے سنورنے سے کوئی رغبت محسوس نہ ہوتی میں دفتر سے چھٹی لے کر گھر میں بند ہو جاتی۔“

شعبہِ نفسیات کی ایک شاخ جرم کی نفسیات کے متعلق ہے اور عطیہ سید کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں جرم کی نفسیات کی بھی انتہائی باریک بینی کے ساتھ دقیق مشاہدہ کرتے ہوئے اور ایک علمی تجزیہ پیش کیا ہے جس میں ”چھ بچے کی خبر“ اور ”حکایات خونچکاں“ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ شعبہ نفسیات کی بہت سی تھیوریز کے نظریات ایسے ہیں جو عطیہ سید نے اپنے کرداروں کے رویوں اور ان کی سوچوں اور ان کی الجھنوں کے ذریعے پیش کے ہیں، وہ بھی ایک ادبی شکل میں۔ یہ بھی عطیہ سید کا ایک منفرد علمی و ادبی خزانہ ہے کہ اگر ان مشکل تھوریز کو سمجھنا ہو تو عطیہ سید کے کرداروں کے ذریعے ایک کہانی سنانے کی تکنیک کے ذریعے سے بہت بہتر طریقے سے ان نکات کو ذہن نشین کیا جا سکتا ہے جو یہ تھیوریز پیش کرتی ہیں۔

اس نقطہ کے تحت ان کا دلکش افسانہ ”پری زاد“ میں ٹونی کے کردار میں ”ایرکسن کی نفسیاتی ترقی کے مراحل“ کے جو سٹیجز ہیں ان میں سے پانچواں جو سٹیج ”شناخت بمقابلہ الجھن“ کا واضح طور پر بیان پیش کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کہ اس نفسیات کے شعبے میں جو ’لیبلنگ‘ کا مسئلہ ہے اس کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا افسانہ ”آنسو کا نمک“ میں تصورات کی تھیوری کو بہت ہی عمدہ اور جمالیاتی پرسوز انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ایک لڑکی خود کو ایک بوڑھی کام کرنے والی، غیر شادی شدہ خاتون سے تصور کرتی ہے اور اس قدر شدید طریقے سے کہ اس کے سارے دکھوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے جو کے اس تھیوری کے مطابق ایک خطرناک تصور ہے۔

عطیہ سید نے عورتوں کی نفسیات کو اپنے افسانوں میں کئی زاویوں سے پیش کیا ہے، وہ فیمینزم کی تاریخ اور نظریات کا بھی مکمل علم اور تجزیہ رکھتی ہیں۔ وہ افسانے کے جن کے مرکزی کرداروں میں عورتوں کی سوچ، زاویے اور نفسیات کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں ”اڑتا پرندہ اور سنہری مچھلی“ جو غیر شادی شدہ اور شادی شدہ عورتوں کی زندگی و جذبات کا تقابلی تجزیہ پیش کرتا ہے۔ ”آنسو کا نمک“ جو ایک لڑکی کے ارمان، حیا، خاموشی اور تخیل کا دل آویز بیان ہے۔

”پچھل پائی“ جس میں ایک گھریلو بیوی کی نفسیات کو نمایاں کیا گیا۔ ”دو چھڑیاں“ جو دو پرجوش سہیلیوں کے نوجوانی کے جوش، خواب، اور قسمت کی ستم ظریفی کا بیان ہے۔ ”بیلاروما“ جو روم کے جمالی ماحول میں دو دوستوں کی آزادی، بے فکری، خود میں مست اور سیاحت کے رنگوں میں محو رہنے کا بیان ہے۔ ”سبز اندھیرا“ جو ایک عورت کی نیکی اور بدی کے ملے جھولے امتیازات کا ذکر ہے۔ ”کرسمس کی شب“ اور ”برگزیدہ“ میں عطیہ سید نے عورت پر ہونے والے معاشرتی ظلم و ستم کو ایک دلکش ادبی فانوس میں پیش کیا ہے۔

عطیہ سید کے ادبی کام کی تحقیق سے یہ نقطہ بھی سامنے آتا ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کے نفسیاتی اور طبی پہلووٴں کے بارے میں مکمل علم رکھتی ہیں اور اس کی نفسیاتی وجوہات کو بیان کرتی ہیں۔ ان کا ناول ”عبار“ اسی موضوع پر مبنی ہے اور افسانوں میں ”عشق تمام“ ۔

سماجی مسائل کے جیسے نسلی امتیاز نچلے طبقے کے مسائل، خواتین کے مسائل، سیاسی مسائل ان موضوعات پر بھی عطیہ سید نے اپنے علم و تحقیق سے تخلیقی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے افسانے لکھے۔ جس میں ان کا شاہکار افسانہ ”شہر ہول اول نمبر پر ہے جو امریکی معاشرے کی مصنوعی آب و ہوا کو ظاہر کرتا ہوا وہاں کے گھٹے ہوئے ماحول کا نقشہ ادبی رنگ میں پیش کرتا ہے۔

”خاموشی“ جو انتہائی دل کش، طنز و مزہ کی فضا میں بر صغیر کے جاہلی پیروں کی کار فرمائیوں کا ذکر کرتا ہے، ان کی بد نیتی کو دبے ہوئے انداز میں بے نقاب کرتا ہے۔ ”تتلی“ جو نچلے متوسط طبقے کی بھوک، پیاس افلاس اور ذہنی پسماندگیوں کا مدعا لیے ہوئے ان کے تمام مسائل پیش کرتا ہے۔ افسانہ ”ایک عام معمولی آدمی“ کہ جس میں مارکزم کے نظریات رکھنے والا شخص سرکاری ہسپتال کے خیراتی وارڈ کی غیر مناسب انتظامیہ اور آکسیجن کی کمی کے سبب موت کا شکار ہوتا ہے۔

افسانہ ”چھ بجے کی خبر“ امریکہ کے بنیادی مسائل سفید فارم اور سیاہ فارم کا مشہور زمانہ نسلی امتیاز کا بیان ہے جو عطیہ سید نے ان کی جڑوں کی تہ تک جا کر مشاہدہ کرنے کے بعد نہایت مہارت کے طریقے سے پیش کیا ہے۔ افسانہ ”پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو“ کراچی میں پھیلتی پھلتی ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور اس طرح کے دیگر مسائل کو بے نقاب کرتا ہے افسانہ ”بلقیان کا بت“ اور ”دشت، بارش اور رات“ ان پہاڑی علاقوں کے مسائل اور رنجشوں اور تکلیفوں کو اُجاگر کرتا ہے جو شہروں میں بسنے والے ترقی یافتہ لوگوں کے علم میں نہیں ہے۔

زبان

عطیہ سید نے اپنے افسانوں میں زبان کی چاشنی و فراوانی کے ساتھ ساتھ اس میں تنوع بھی دیا ہے جو ان کی زبان کے مختلف پہلوؤں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی زبان کا استعمال مختلف انداز اور اُسلوب میں ہوتا ہے جو کہ ان کے ادبی کام کو زیادہ جاذب نظر، دلچسپ، خوبصورت اور موثر بناتا ہے۔ بعض مقامات پر زبان نہایت ہی تخلیقی اور وجدانی بھی محسوس ہوتی ہے۔

عطیہ سید ایسی خوبصورت زبان کی تارکشی کرتی ہیں کہ جو قاری کے دل و دماغ کو نغمہ ساز بن کر چھو لیتی ہے ان کے الفاظ کا انتخاب جملوں کی ساخت اور بیانیہ کا انداز انتہائی موثر کن ہوتا ہے جو ان کی کہانی کے موضوع کو مزید سنوارتا چلا جاتا ہے مثال کے طور پر ”شہرِ ہول“ میں :

” بعض کہانیوں کے تار و پود یوں بکھرے ہوتے ہیں کہ ان کے کسی سرے کو ڈھونڈ نکالنا اور یہ تعین کرنا کہ لمحوں کے لامحدود سلسلے میں سے کون سا لمحہ ابتدائیہ تھا، کون سا اختتامیہ، دشوار بلکہ ناممکن نظر اتا ہے۔ ایسی ہی گنجلک کہانی عاصمہ کی تھی۔“ ”ایک دنیا جمال تھی جو اس کے باہر اور اندر بس رہی تھی۔ اس کی رگوں میں وہ وحدت تھی جو براعظموں کی مسافتوں کو سبک کر دیتی ہے۔“

عطیہ سید کے فن کے چشمے کا ایک انتہائی موثر اور راحت بخش پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بڑی مہارت سے مخصوص قسم کی زبان جو کہ کہانی کے موضوع اور پلاٹ کے عین مطابق ایک خاص ماحول بنا دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ ”پری زاد“ کا اقتباس دیکھیے :

”یہ آمدِ بہار کا ایک دن تھا، ایک ایسا دن جب سردی سے منجمد جسموں کے مسام کھلنے لگتے ہیں اور زندگی کی حرارت شہر کی سلیٹی برفام کو پگھلانے لگتی ہے حتی کہ یہاں کے باسیوں کے برفیلے، بے رنگ، بے جذبات چہروں پر بھی بہار کا گلابی عکس یوں کھل چھلکنے لگتا ہے کہ لمحہ بھر کو یہ گمان باطل ہوتا ہے کہ وہ چلتے پھرتے میکانکی پتلے نہیں بلکہ گوشت پوست کے انسان ہیں۔“

عطیہ سید نے نہ صرف ماحول کی تشکیل چاشنی و پر اثر زبان سے کی ہے بلکہ کرداروں کے خیالات، جذبات و احساسات کو بھی دل موہ لینے والے استعاروں اور تشبیہات کا لباس پہنایا ہے۔ اس کے علاوہ ایک منفرد انداز جو کہ عطیہ سید کا ”دستخطی سٹائل“ کہلایا جا سکتا ہے وہ یہ کہ کرداروں کا اپنی ذات کے حوالے سے ایک تجزیہ یعنی کہ ”خود شناسی“ اکثر ایک باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ افسانے کے اندر ملتا ہے۔ بعض مقامات پر عطیہ سید نے اس سلسلہ ذاتی تجزیہ کو کسی استعارے کی شکل میں بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

” آج تک میں اپنے ہر عمل کو دوسروں کے زاویہ نگاہ سے دیکھتا تھا۔ نتیجتاً میں نے اپنے جذبے، سوچ اور عمل کو دوسروں کا غلام بنا لیا تھا۔ مگر مجھے اس غلامی سے کبھی الجھن یا غیریت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں بڑی ہمواری سے دوسروں کو تجویز کرتا سانچے میں یوں ڈھل گیا تھا جیسے وہ پنجرہ پنجرہ میری فطری آماجگاہ ہو۔“ (افسانہ:داہرہ)

استعارہ ایک ادبی ٹیکنیک ہے جس میں کسی ایک چیز کو دوسری چیز کی طرح بیان کیا جاتا ہے بغیر کسی موازنہ کے یعنی بالواسطہ۔ عطیہ سید کو اگر دل نشین استعاروں کی ”ملکہ“ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادبی فن پاروں میں نہایت ہی تخلیقی انداز میں بے بہا استعاروں کا استعمال کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا انتخاب نہایت ہی مناسب اور موضوع کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یعنی کہ کہانی میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ کرداروں کے جذبات و خیالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا دل آویز افسانہ ”طلسم ِ دلربا“ جو جادوٴئی حقیقت نگاری کی تکنیک پر لکھا گیا سے ایک اقتباس ہے :

” یک دم اس کی نگاہ نے اپنے لباس کا جائزہ لیا اور حیرت زدہ ہو گئی اس کی پوشاک پر برازیل کے گھنے سرسبز جنگل بہار دکھا رہے تھے۔ جو مسلسل بارشوں سے ہرے بھرے اور گنجان تھے جن کے اونچے تناور درختوں کے پاؤں میں خود روح پھولوں کی چادریں بچی تھی اور گلدار بیلیں ان کے لمبے تنوں سے لپٹی تھی۔ کئی قسم کے رنگ تھے اور ہر رنگ کے کئی رنگ تھے اس کے دوپٹے میں دھنک تھی۔“

ان کا حال ہی میں منظر عام پر آنے والا ناول ”اور چاند سرخ ہو گیا“ سے یہ اقتباس دیکھیں جو انتہائی فلسفیانہ گہرائی کو گاڑی کی رفتار کے ساتھ پیش کرتا ہے :

”ہست و بود کا یہ تماشا ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ ہاں۔ وہ جانتی تھی مگر نہ جانے کیوں آہستہ آہستہ اس کے محسوسات عجیب سے ہونے لگے اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے رفتار بڑھ گئی۔ اس گاڑی کی جس میں وہ سوار تھی۔ بس کچھ عجیب ماجرا تھا۔ ہر چیز تیزی سے پیچھے کی طرف جا رہی تھی۔ اور اس کا پورا وجود اس تیزی رفتار کو محسوس کر رہا تھا۔“

عطیہ سید کے اسلوبِ بیان کا مطالعہ کرنے سے قاری کو نہ صرف نغمہ ساز اندازِ اظہار کی چاشنی کا تجربہ ملتا ہے بلکہ علم و حکمت کے موتیوں سے بھی مالا مال ہوتا۔

محمودہ تانیہ اعوان
Latest posts by محمودہ تانیہ اعوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments