ایک سوال ایک جواب: لسانی استعمار؟
سوال : ڈیڈی میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ دیسی لوگ اکثر اپنی گفتگو میں بہت زیادہ انگریزی کا استعمال کرتے ہیں خصوصاً کسی فنکشن یا جہاں ان کے لحاظ سے کوئی ہائی سوشل کلاس ہو یا کیمرے کے سامنے یا جہاں اُن کے لحاظ سے کوئی پولیٹیکل یا سوشل سبجیکٹ پر سیریس ڈائیلوگ ہو؟ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ اردو بولنے والوں کے ساتھ صرف اردو میں بات کیوں نہیں کرتے ہیں جس طرح وہ انگلش بولنے والوں کے ساتھ صرف انگلش میں ہی بات کرتے ہیں؟ ( ایلائنہ بلند)
جواب: بیٹی آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے خاص طور پر آپ جیسی جنریشن جو ویسٹرن ملکوں میں پیدا ہوئی ہے اور اس لحاظ سے اُن کی مادری زبان ہی انگریزی ہو اُن کے ذہنوں میں ایسے سوال کا آنا قطعی فطری ہے کیونکہ وہ ایسے ماں باپ کے بچے ہیں جو خود بھی آدھی اردو اور آدھی انگریزی بول رہے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک بہانہ تو اُن کے والدین کو مل ہی جاتا ہے کہ اُنہیں ایسا اپنے بچوں کے خاطر کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ان بچوں کے ماں باپ واقعی میں ایک تقسیم شدہ نسل ہوتے ہیں جو پیدا تو اردو سوسائٹی میں ہوئے ہوتے ہیں اور زندگی انگریزی سوسائٹی میں گزار رہے ہوتے ہیں مگر بٹیا تم شاید حیران ہوگی کہ یہی سوال آج سے کئی دہائیوں پہلے کسی حد تک ’ایک بیمار طریقے سے‘ میرے سامنے بھی آیا تھا اور آج میں سوچتا ہوں کہ کاش میں اُس وقت اس خیال کی تہہ میں اترتا اور یوں اُس مشکل کا شکار نا ہوتا جس میں، میں کسی حد تک پھنس گیا تھا۔
مجھ یاد ہے میں ہائی اسکول کر کے نیا نیا ڈاؤ میڈیکل کالج میں آیا تھا جہاں میں نے اپنے اردگرد نوٹ کیا تھا کہ طالبعلموں کی ایک مخصوص سوشل کلاس انگریزی میں زیادہ بات کرتی ہے اور اُن کے شعوری یا غیر شعوری سطح پر ایسا کرنے سے ’لسانی بنیادوں پر‘ کسی بھی تعلیمی ادارے میں طالب علم مجموعی طور پر کلاسز میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس خیال کا نا تو کوئی برملا اطہار کرتا تھا اور نا ہی اس طرز سے کسی بھی طالب علم کو عموماً کسی بھی قسم کا اعتراض ہوتا تھا کیونکہ ایک عمومی خیال یہ بھی تھا کہ ’اچھے پڑھنے لکھنے والے بچے‘ اچھی انگریزی بھی بولتے ہیں اور یوں بھی کانونٹ اسکولوں سے پڑھنے والے بچوں کی عمومی تربیت میں انگریزی زبان میں بات چیت شامل ہوتی ہی ہے اس لیے بھی اُن بچوں کے لیے بھی یہ ایک قطعی نارمل سی بات تھی مگر مجھ جیسے بچے جو اردو میڈیم اسکولوں سے پڑھ کر میڈیکل کالج میں پہنچے تھے وہ اب ایک نئے طرز کے ’گلٹ‘ یا سینسٹیوٹی کا شکار ہو گئے تھے کہ جیسے انگریزی میں روانی سے بات چیت کرنے میں مشکل انہیں سوشلی پیچھے دھکیلنے کا سبب بن جائے یا اُن کے حوالے سے ٹیچرز کے لیے ایک اچھے طالب علم کے ہونے پر شبہ سا بن جائے جیسا کہ انگریزی کا فلوئینٹ نا ہونا بھی شاید ذہانت کی کمی کا کوئی معیار ہے؟
مگر ظاہر ہے کہ وہ عمر بہت جوان ہوتی ہے، ارادے پختہ ہوتے ہیں اور اپنے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا ہے تو ایسی کسی بھی بات یا خیال بھی خود کی سیلف ایگو یا اعتماد کے لیے ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو مجھے یاد ہے اس قسم کے کسی بھی منفی احساس سے بچنے کے خاطر ہم جیسے زیادہ اردو بولنے والے طالب علم، زیادہ یا صرف انگلش بولنے والے اسٹوڈنٹس کو ’برگرز‘ کہہ کر چھیڑتے تھے۔
خیر یہ بات تو آج مجھے یونہی یاد آ گئی مگر آپ کے اس سوال کے پس منظر میں جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے بھی واقعی یہ خیال آتا ہے کہ ایک ایسی سوسائٹی یعنی پاکستان یا ہندوستان میں خصوصاً جہاں کروڑوں لوگ صرف اردو بولنے اور سمجھنے والے ہو یا کسی بھی مغربی ملک میں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والی ایک بڑی تعداد کسی محفل میں موجود ہو تو وہاں انگریزی زبان کے بے جا استعمال کی اس قدر کیا ضرورت پڑ جاتی ہے؟
کیا اس کی وجہ محض ہماری ایک عادت ہے کیونکہ صبح و شام کام کے دوران اور بازاروں میں انگریزی زبان میں ہی ہماری گفتگو چل رہی ہوتی ہے؟ یا کسی قریبی دوستوں کی محفل میں یا کسی علمی یا غیر علمی موضوع پر آپس میں گفتگو کے دوران انگریزی زبان ہماری ایک ’نفسیاتی ضرورت‘ بن چکی ہے کہ انگریزی زبان کے استعمال سے ہمیں شعوری طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گفتگو میں کچھ ’علمیت‘ وغیرہ آ گئی ہے؟ یا پھر یہ کہ ہم لاشعوری طور پر اپنے تئیں انگریزی بولنے والی قوموں سے بہت زیادہ مرعوب ہیں؟
یا پھر یہ کہ چارسو برس کی انگریزی یا مغربی قوموں کی حکمرانی نے ہماری ’سیلولر جین‘ کو اس حد تک مجروح یا زخمی کر دیا ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ ہمارے دماغ کے لینگویسٹک سینٹرز نے اب اردو سے زیادہ انگریزی الفاظ ہی پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں؟ یا ہم پولیٹیکل امپیریلزم کے ساتھ کلچرل اور لینگویسٹک امپیریلزم یا بقول ایڈورڈ سعید کے مغربی دنیا کے ڈیزائین کیے ہوئے ’اورینٹیل کلچر‘ کو ہی فطری یا حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں اور کسی حد تک ہم اپنی زبان، ، تہذیب، رسوم و رواج اور شناخت کے ہر ایک پہلو پر اندرون خانہ شرمندہ ہیں؟
یا ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزی تو ایک انٹر نیشنل زبان ہے اور کیونکہ سائنس اور آرٹس کی زیادہ تر ترقی مغربی اقوام کی مرہون منت ہے اور کیونکہ سیاسی یا سماجی وجوہات کی وجہ سے بھی انگریزی دیگر زبانوں پر فوقیت رکھتی ہے اور تہذیبی یا لسانی ارتقائی عمل میں بھی یہ زبان سب سے آگے نکل گئی ہے اس لیے بہتر بھی یہی ہے کہ انگریزی کو ہی میڈیم آف ایکسپریشن بنا دیا جائے؟ کہ اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
بٹیا علائنہ، یہ نفسیاتی و سماجی معاملہ صرف انگریزی امپیریل ازم سے ہی نہیں درآمد ہوا ہے بلکہ یہ ہر دور کی سیاسی غاصبانہ طاقتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں جو انسانی تاریخ میں ہمیں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ دور کیوں جائیں خود ہمارے اپنے ہندوستان کی تاریخ پر ایک غیر جانبدارانہ سی نظر ڈالیں تو ہمیں احساس ہو کہ اردو بولنے والوں کی فارسی اور عربی سے عقیدت یا محبت ممکن ہے صدیاں گرنے کے بعد اب ہمیں بہت ہی فطری سی محسوس ہوتی ہے مگر حقیقت میں تو اس کا تعلق مغلیہ اور اریبک پینی سولا کی ایمپیریل طاقتوں سے ہی ہے بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ فارسی زبان بولتے ہوئے حملہ ور ایرانی مغل بادشاہوں نے اردو زبان کی پیدائش کے دوران فارسی تلفظ کی کھاد میں عربی زبان کے مذہبی بیچ کی آمیزش بھی کردی تھی اور یوں اردو زبان کے شجر میں بیک وقت ایک ’لسانی احساس کمتری‘ بھی شامل ہو گیا اور یوں اس نئی طرز کا لسانی نفسیاتی کامپلکس کم سنی سے ہی اُس کی بلوغت میں اتر گیا کہ فارسی سے نابلد اردو داں طبقے کو ’کم علم‘ اور عربی لفظوں کا مطلب جانے بغیر ہی مقدس سمجھ کر چومنے والوں کو ’محترم‘ سمجھا جانے لگا۔
اچھا بیٹی اگر اس بات کا فرق تم اور بھی سمجھنا چاہتی ہو تو اُن اقوام پر ایک نظر ضرور ڈال لینا جو اپنی تاریخ میں خوش قسمتی سے کسی بھی غاصبانہ پاور سے اس طرح کے تاریخی واقعات سے مغلوب نہیں ہوئیں اور جنہیں تہذیبی یا لسانی بنیادوں پر کسی بھی طرز کے احساس کمتری یا برتری کا سامنا نہیں کرنا پڑا مثلاً انگریزی کے علاوہ ایسی دیگر مغربی اقوام بھی ہیں جو سیاسی حوالوں سے کم زور ہونے کے باوجود بھی اپنی زبان یا تہذیب پر کسی بھی مقام پر کمپرومائز کرتے ہوئے نہیں ملتی ہیں۔
مثلاً فرانسیسی، پولش یا جرمنز حتی کہ خود عرب و عجم کے لوگ انگریزی زبان سے ہمیں اس طرح سے متاثر نہیں ملتے ہیں یا کسی فار ایسٹ اور چائنہ کے فرد کو انگریزی زبان کا نا آنا یا سمجھنا اُن کے لیے کسی بھی کامپلیکس یا نفسیاتی کمی کی نشانی دکھائی دیتا ہے۔ وہ پورے اعتماد سے اپنی محفلوں میں صرف اپنی ہی زبان میں بات کرتے ہیں اور دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی کا گفتگو کے دوران بوجھ ڈھوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
بیٹی، میرا یہاں ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں دوسری زبانیں نہیں سیکھنی یا بولنی چاہیے بلکہ یہ تو علمی اور دیگر سماجی وجوہات کی وجہ سے بے انتہا ضروری ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی مریضانہ حد تک کسی بھی لینگوسٹک پیٹریاٹزم یا نیشنلزم کا خیال ہے بلکہ ہمیں اس بات کا جاننا بہت ضروری ہے کہ ذہانت یا دانش کا تعلق ’علم و شعور‘ جیسی مثبت انسانی انٹلیکٹ سے ہے جبکہ اقتصادی اور سیاسی طاقت کا تعلق ’دنیا کے وسائل پر کنٹرول‘ جیسی منفی انٹلیکٹ سے ہے اور اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ منفی قوتیں اپنی سیاسی اور اقتصادی کامیابیوں کو سماجی کامیابیوں سے مربوط کر کے، مثبت ترین انسانی اقدار کو بھی خود میں کچھ اس طرح سے شامل کر لیتی ہیں کہ مغلوب اقوام کے لوگ اُن منفی اقدار کو مثبت جان کر اپنے تئیں انہیں فخریہ طور پر اپنا لیتے ہیں جیسا کہ لینگوسٹک امپیریلسٹس کے اورئینٹل امیج کے اثرات وغیرہ اور یوں برسہا برس بلکہ کئی بار تو صدیوں کے عرصے میں یہ اثرات اُن کے جینیٹک پول کا ہی حصہ بن جاتے ہیں اور یوں اُن کے لاشعور میں مستقل طور پر شامل ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھیے آپ کے سوال کے جواب کے خاطر مجھے کتنی ہی بار انگریزی الفاظ کا بوجھ اٹھانا پڑ گیا کیونکہ اتفاق سے میرا تعلق بھی ایک تقسیم شدہ نسل سے ہے مگر خیر یہ ایک اہم سماجی اور نفسیاتی نقطہ ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا مجھے امید ہے کہ دوست اس موضوع پر اپنی آرا کا اظہار کریں گے اور کچھ نئے زاویوں سے میرے اور اُپ کے شعور میں اضافہ کریں گے۔
- ایک سوال ایک جواب: لسانی استعمار؟ - 29/08/2024
- ایک سوال ایک جواب: فکری پولرائزیشن - 25/08/2024
- ایک سوال ایک جواب ۔۔ ڈاکٹر بلند اقبال - 22/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).