قرۃ العین حیدر اور تقسیم کی افسانوی تعبیر


اردو ادب کی عظیم ترین فکشن نگار کہلائی جانے والی قرۃ العین حیدر نے جہاں زندگی کے دیگر گوناگوں موضوعات پر قلم اٹھایا وہیں تقسیم ہند کے موضوع پر نہایت فکر انگیز ناول اور افسانے لکھ کر اردو ادب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تحریریں تقسیم ہند کے حوالے سے شناخت کے مسئلے اور تاریخ کے نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی اثرات کی نہایت باریک عکاسی پیش کرتی ہیں۔ اپنے ناولوں اور کہانیوں کے ذریعے وہ انسانی حالات کی ایک ایسی پیچیدہ تصویر پیش کرتی ہیں جو جنوبی ایشیاء کی تاریخ کے اس سنگین اور فیصلہ کن واقعے کا نتیجہ تھی۔ اس مضمون میں راقم نے ان کے فکشن کے تناظر میں تقسیم کی افسانوی تعبیر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

قرۃ العین حیدر کا شاہکار مانے جانے والے ناول ”آگ کا دریا“ میں تقسیم کو محض ایک الگ واقعہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع تاریخی تسلسل کے حصے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ناول کی کہانی ڈھائی ہزار سال پر محیط ہے، جس کا آغاز بدھ مت کے دور سے ہوتا ہے اور مختلف تاریخی ادوار جیسے سلطنت مغلیہ اور برطانوی نوآبادیاتی دور سے ہوتی ہوئی یہ کہانی 1947 ء کی تقسیم تک پہنچتی ہے۔ اس وسیع بیانیے کے ذریعے، قرۃ العین حیدر نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ تقسیم ہند کے فسادات اور اس کی تباہ کاریاں برصغیر کی طویل تاریخ کے تازہ مظاہر ہیں۔

آگ کا دریا دراصل ہندوستانی شعور کے ارتقا کو موضوع بناتا ہے۔ ناول کا ڈھانچہ بذات خود تاریخ کے بکھراؤ اور اس کی متنوع حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کردار مختلف تاریخی پس منظر میں دوبارہ نمودار ہوتے ہیں، اور اسی جدوجہد اور انہی وجودی سوالات کا ہر بار سامنا کرتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے، قرۃ العین حیدر مختلف ادوار کے درمیان متوازی خطوط کھینچتی نظر آتی ہیں، وہ ہمیں دکھاتی ہیں کہ تقسیم کے بیج بہت پہلے بو دیے گئے تھے۔ جیسا کہ ناول کے ایک کردار کا کہنا ہے : ”تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، پہلے المیہ کے طور پر ، پھر تمسخر کے طور پر “ ۔ یہ جملہ برصغیر کی تاریخ میں ہونے والے فسادات اور بے دخلی کے دورانیے کی گردش کو سمجھنے کے لیے ایک زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔

”آگ کا دریا“ میں قرۃ العین حیدر کا تاریخی شعور اور تجزیہ اردو میں لکھی جانے والی دیگر تقسیم کی کہانیوں کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ یہ اس زمانے کے، اور شاید آج کے بھی، مقبول عام بیانیے سے بالکل الگ ہے۔ وہ اسے ایک ایسے عمل کے طور پر پیش کرتی ہیں جو تاریخی ارتقاء کا حصہ ہے، جہاں شناختیں اور سرحدیں ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے وہ ظلم اور مظلومیت کی سادہ بائنری تقسیم کی کہانیوں کے بجائے، ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔

”آگ کا دریا“ میں، مرکزی کردار کمال، ایک نوجوان دانشور ہے جو فرقہ ورانہ فسادات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی سے گہرا متاثر ہوتا ہے۔ ناول اس کے اندرونی انتشار کو پیش کرتا ہے جب وہ اپنے وطن کے کھو جانے اور اس مشترکہ ثقافت کی ٹوٹ پھوٹ سے گزرتا ہے جو اس کی شناخت کا بنیادی حصہ تھی۔ قرۃ العین حیدر کمال کی محبت کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم دکھاتی ہیں، جس سے وہ بڑی الجھن میں مبتلا رہتا ہے۔

ناول کے ایک انتہائی حساس منظر میں، جب کمال گنگا کے کنارے کھڑا ہوتا ہے، تو وہ سوچتا ہے : ”کیا یہ ممکن ہے کہ یہ دریا جو میرے سامنے پرسکون بہہ رہا ہے، جلد ہی ایک سرحد بن جائے گا، دلوں اور زمینوں کو تقسیم کر دے گا؟“ یہ لمحہ تقسیم کی غیر یقینی صورتحال اور ناقابل فہم ہونے کا عکس ہے۔ دریا، جو استمراری زندگی کا نشان ہے، سیاسی حدود کے مقابل کھڑا ہے، جو کہ تقسیم کی غیر منطقیت کو نمایاں کرتا ہے۔

”آگ کا دریا“ میں گوتم نیلمبر کا کردار، جو ایک برہمن ہے اور ایک مسلمان عورت سے محبت کرتا ہے، یہ اس مشترکہ ثقافت کی علامت ہے جسے قرۃ العین حیدر نے عزیز رکھا تھا۔ گوتم اور چمپا کا رشتہ، جو مذہبی حدود کو پار کرتا دکھائی دیتا ہے، تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کے مشترکہ ثقافت کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، ان کی محبت کی کہانی بالآخر ناکامی سے دوچار ہوتی ہے، جس کا عکس ان کی مشترکہ ثقافت کے انجام میں ملتا ہے۔

اسی طرح، اس ناول کے مرکزی کردار کمال کی اندرونی کشمکش اس گہری وابستگی سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے جو اس کے آبائی وطن کی مشترکہ ثقافت تھی۔ یہ نہ صرف جسمانی نقل مکانی کا احساس ہے بلکہ اس ثقافتی شناخت کا نقصان بھی ہے جو تنوع اور بقائے باہمی پر مبنی تھی۔ قرۃ العین حیدر اس نقصان کی نشاندہی کمال کے خیالات کے ذریعے کرتی ہیں : ”وہ ہندوستان جس سے میں محبت کرتا تھا، اب نہیں رہا۔ اس کی جگہ ایک نئی، اجنبی زمین نے لے لی ہے جہاں نفرت اور تعصب نے جڑ پکڑ لی ہے۔“

قرۃ العین حیدر کے ہاں یادوں کا بیان محض ذاتی یادوں پر مبنی نہیں بلکہ یہ اجتماعی یادداشت دکھائی دیتا ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ اس اجتماعی یادداشت کی نوعیت کو اجاگر کرتی ہیں اور یہ دکھاتی ہیں کہ کیسے کچھ واقعات اور تجربات یاد رکھے جاتے ہیں جبکہ دوسروں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ یہ منتخب یادداشت اکثر سیاسی اور نظریاتی ایجنڈوں کے زیر اثر ہوتی ہے جس میں جو ماضی کوایک مخصوص بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ”آگ کا دریا“ میں قرۃ العین حیدر اس بات پر تنقید کرتی ہیں کہ پاکستان کا قوم پرستانہ بیانیہ کیسے ہندوستان کے ساتھ اپنے مشترکہ ماضی کی یادوں کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کمال، جس نے تقسیم کا تجربہ کیا ہے، اس قوم پرستانہ عمل سے گہرا متاثر ہوتا ہے اور نتیجے میں نئے ملک میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اس کے ماضی کی یادیں، جو سرکاری بیانیے کے برخلاف ہیں، اس کی باطن میں بے چینی کا سبب بنتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر قوم پرستانہ نظریات پر تنقید کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح یہ نظریات ماضی کی مخصوص اور مسخ شدہ یادوں کو استعمال کرتے ہوئے تقسیم جیسے عمل کو جائز قرار دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس، ان کے کردار، جو اپنی یادوں سے مسلسل نبردآزما ہیں، ماضی کے ساتھ ایک زیادہ پیچیدہ اور مبہم تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسا تعلق جو مقبول عام بیانیے کے مخالف ہے اور تاریخ کے تضادات کو قبول کرتا ہے۔ مثلاً ”آگ کا دریا“ میں، کمال الدین اپنے وطن کے کھو جانے کے صدمے کو برداشت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کی اس کی یادیں نوستالجیا سے لبریز ہیں، اور وہ ماضی کو یاد کرتا رہتا ہے۔ تاہم، قرۃ العین حیدر اس نوستالجیا کو یہ دکھاتے ہوئے مزید پیچیدہ بناتی ہیں کہ یادیں سکون کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا بھاری بوجھ بھی ہوتی ہیں ہے۔ کمال الدین کی یادیں، جہاں ایک استمراری احساس فراہم کرتی ہیں، وہیں اسے پاکستان میں اپنی نئی شناخت کو پوری طرح قبول کرنے سے روکتی ہیں۔

اسی طرح اپنے پہلے ناول ”میرے بھی صنم خانے“ میں، قرۃ العین حیدر نے متحدہ ہندوستان کی سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ تقسیم کے نتیجے میں بعض متمول خاندانوں کے زوال کی کہانی پیش کی۔ اس ناول کے کردار تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی ماحول سے وابستہ ہیں، اور ہر کردار اپنی شناخت، محبت، اور وابستگی کے مسائل سے دوچار ہے۔ مرکزی کردار ایک حساس اور فکر مند نوجوان ہے جو ایک جدید اور مغربی طرز زندگی کی حامل خاتون سے محبت کرتا ہے۔

یہاں محبت اور اپنے آبائی وطن کی روایات اور ثقافت سے گہری وابستگی کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف خاتون کا کردار معاشرے کے بدلتے ہوئے چہرے کی نمائندگی کرتا ہے، جو جدیدیت سے وابستگی اور ماضی سے ایک انقطاع کی علامت ہے، لیکن وہ بھی اپنی خواہشات اور معاشرتی توقعات کے درمیان کشمکش کا شکار ہے، غفران منزل کے کردار اس وقت کے ہندوستانی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے، قرۃ العین حیدر ثقافتی انتشار، روایتی اور جدیدیت کے درمیان تصادم، اور ایک تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں جینے کے ذاتی مسائل کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ ناول کا ماجرا غیر منقسم ہندوستان کی جنگ آزادی کے آخری دور سے تقسیم ہند کے فوراً بعد آزادی کے اولین دور تک کے ماحول پر مشتمل ہے اور اس نسل کے احوال و کیفیات کا آئینہ دار ہے جو ناول کے سن تحریر 1947ءمیں موجود تھی۔

قرة العین حیدر جو کہ خود براہ راست تقسیم کے المیے سے دو چار ہوئیں، اپنے بیشتر ناولوں میں تقسیم ہند کو موضوع بناتی رہیں۔ تقسیم سے متعلق ان کے فکشن میں ایک اہم موضوع اُس مشترکہ ثقافت کا ، جو تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کی خصوصیت تھی، کھو جانا ہے۔ یہ ثقافت، جس میں ہندو، مسلمان اور دیگر قومیتیں ساتھ رہتی تھیں، فرقہ ورانہ تشدد کی وجہ سے بکھر گئی۔ قرۃ العین حیدر، جو خود اس مشترکہ ثقافت کی پیداوار تھیں، اپنی تحریروں میں اس کے زوال پر افسوس کرتی ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ باب ان کے ناولوں میں ایک غم ناک مرحلے کی شکل میں ابھرتا ہے۔

غور کریں تو یادوں کی بازیافت اور نوستالجیا قرۃ العین حیدر کی تقسیم کی کہانیوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار ماضی کی یادوں سے دوچار ہیں، جنہیں وہ موجودہ حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یادداشت اور حقیقت کے درمیان یہ کشمکش قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں بار بار ظاہر ہونے والا موضوع ہے، جو تقسیم کی وجہ سے ہونے والی بے دخلی کے وسیع تجربے کی عکاسی کرتا ہے۔ بے دخلی پر مجھے قرۃ العین حیدر کا طویل افسانہ ”جلا وطن“ یاد آتا ہے۔

جس میں قرۃ لعین حیدر نے ذہن، دل، جذبوں اور احساس کی انفرادی سطحوں کو جلاوطن دکھایا ہے۔ آپس کا میل جول، بھائی چارہ، ساجھی معاشرت، مشترک تہذیب، مذہبی تکثیریت میں وحدت کی روح کی اجتماعی سطح، سب جلا وطنی سہنے پر مجبور ہیں۔ یہاں لفظ ”جلا وطن“ فقط دیس نکالے کے مفہوم کا حامل نہیں ہے، بلکہ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاشرت کی گم شدگی سے پیدا ہونے والے خلا کا استعارہ بن جاتا ہے۔

اوپر میں نے نئی شناخت کی بات کی۔ اس نئی شناخت کی جھلکیاں قرۃ العین حیدر کے افسانے ”پت جھڑ کی آواز“ میں پیش کیے گئے سماج میں بڑی واضح نظر آتی ہیں، وہ سماج جو تقسیمِ ملک کے المیے سے دو چار تھا، اس میں آزادی سے فوراً قبل ہندوستان اور آزادی کے فوراً بعد کے ہند و پاک کی معاشرتی اتھل پتھل اور بے قراری کی عکاسی کی گئی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے دو ملکوں کی تہذیبوں اور ان کی بدلتی اقدار کو بہت گہرے طور سے محسوس کیا، اور ان کے رسم و رواج اور طور طریقے کو اپنے اس افسانے میں بہت سلیقے سے برتا ہے۔ انھوں نے اپنا مطمحِ نظر پیش کرنے کی بھی بھر پور کوشش کی ہے اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔

یہاں مجھے قرۃ العین حیدر کا ایک اور ناولٹ ”سیتا ہرن“ یاد آتا ہے۔ اختصار کے باوجود یہ ناولٹ ایسا پھیلاؤ رکھتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے تمام پسندیدہ موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ناولٹ میں تقسیم ہند، فسادات، نقل مکانی، ہجرت، مشترکہ تہذیب و ثقافت کی عکاسی، گہرا تاریخی شعور، اساطیری اور ہندو دیو مالائی عناصر کی فراوانی سے لے کر انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی، قدروں کی شکست و ریخت اور معاصر ادبی ڈسکورس کے تانیثی اثرات سب کی جھلکیاں نظر آ جاتی ہیں۔

سیتا جو ناولٹ کی مرکزی کردار اور اس کی ہیروئن ہے زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزار کر ایک المناک انجام کو پہنچتی ہے۔ یہ انجام خود اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جس کا ذمہ دار خود اس کی اپنی ذات کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ سوال یہ ہے سیتا جو ایک اعلی تعلیم یافتہ اور ماڈرن لڑکی ہے آخر وہ یہ سب کچھ کیوں کرتی ہے؟ وہ کیا عوامل اور محرکات ہیں جو سیتا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سب کچھ کرواتے ہیں جن سے اس کی زندگی ایک المناک انجام کے راستے پر چل پڑتی ہے؟

وہ ایک کے بعد ایک غلطی کیے جاتی ہے اور کہیں بھی اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان سے باز آ جائے۔ ذکیہ مشہدی نے اس ناولٹ کو نفسیات کی روشنی میں سمجھانے اور درجہ بالا سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ”سیتا نے جو کچھ کیا وہ دراصل شدید احساس کمتری، محرومی ذلت اور تنگدستی کی وجہ سے کیا، اور عدم تحفظ کے احساس سے جو تقسیم کی وجہ سے اس کی نفسیات پراثر پڑ گیا تھا، اس کے بیشتر اعمال اور رد عمل اسی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔“

اگر ان کے آخری ناول ”چاندنی بیگم“ پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ ملکیت اور زمین اس پہلو دار ناول کا اساسی استعارہ ہے جو باب اول کے تعارف سے لے کر آخری صفحے تک موجود ہے، اور یہ استعارہ بالواسطہ تقسیم ہند کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کہانی کی شروعات لکھنو کے نو آبادیاتی دور سے ہوتی ہے۔ شیخ اظہر علی ایک خوش مزاج مقبول اور دولت مند بیرسٹر ہیں۔ ان کی کوٹھی لبِ دریا ہے جس سے متصل ایک باغ ہے جس کے کونے میں چھوٹی سی مسجد اور دوسرے کونے میں پیپل کا درخت ہے جس کی جڑ میں کسی زمانے میں کسی نے ایک گول پتھر رکھ دیا تھا جہاں منشی بھوانی شنکر سوختہ اور دو ملازم بھگوان دین اور پھٹکو پوجا پاٹ کرتے ہیں۔

مسجد مندر کا یہ خوش گوار سنگم ایک مخصوص سماج اور اس کی اقدار کی نشاندہی کرتا ہے۔ آگے چل کر یہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے مسئلے کی طرف علامتی اشارہ کرتا ہے اور دوسرے مخصوص سماج اور اقدار کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ پھر وہ دکھاتی ہیں کہ کیسے دھیرے دھیرے یہ مشترکہ تہذیبی خصوصیات زائل ہوئیں اور ناخوشگوار حالات ابھر کر سامنے آئے۔ اس ناول میں قیام پاکستان کے باعث متروکہ جائیدادوں کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ناول میں قیام پاکستان کے بعد اعلی طبقے کی مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیوں کا جو مسئلہ ابھرا اس پر بھی واضح تبصرہ ملتا ہے۔

قرۃ العین حیدر کا تقسیم سے متعلق فکشن گہرائی اور پیچیدگی کا حامل ہے اور علمی سطح پر منفرد شناخت رکھتا ہے۔ دوسرے اردو ادیبوں نے بھی تقسیم کے موضوع پر اہم تحریریں لکھیں، لیکن قرۃالعین حیدر کے کام کی خصوصیت اس کے تاریخی تناظر، فلسفیانہ گہرائی اور کرداروں کی پیچیدہ تصویر کشی میں پنہاں ہے۔ ان کے یہ ناول اور افسانے اس اہم ترین تاریخی واقعے کی منفرد اور بیش قیمت تفہیم فراہم کرتے ہیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف ہمیں تاریخ، یادوں اور شناخت کے متعلق ہمارے مفروضوں پر از سر نو غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہیں کہ تقسیم کا زخم آج بھی ہرا ہے، اور اس کا درد آج کے دور میں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments