بیانیوں کی جنگ اور موسمی بٹیرے


ماضی کے آمروں پر ہم سب جی بھر کر غصہ نکالتے ہیں۔ اپنے نواز شریف صاحب کو ہی لے لیجیے۔ سال 2018 ء سے جو آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ ووٹ کو عزت دو کا جب دور دورہ تھا تو لندن میں بیٹھے ہر ایک سے پوچھتے تھے، ’یہ کون ہے جو منتخب وزرائے اعظم کے خلاف سازشیں کرتا ہے؟ یہ کون ہے جو ملک کو چلنے نہیں دے رہا؟‘ حالات ساز گار ہوئے تو جنہیں کوستے تھے، انہی کے کاندھوں پر سوار ہو کر واپس لوٹے۔ ملک مگر بدل چکا تھا۔ اب جب بھی مائک کے سامنے آتے ہیں تو خود فراموشی کے عالم میں ماضی میں ہی لوٹ جاتے ہیں۔

ایک پاڈ کاسٹ میں نوجوان میزبان نے حالاتِ حاضرہ پر سوال اٹھایا تو چرب زبان اینکرپرسن نے جواب دیا، ’عمران کو ختم کرنا میاں صاحب کے بس کی بات نہیں۔ تم ہی بتاؤ، کیا تم عمران کو ختم کر سکتے ہو؟ کیا میں ختم کر سکتا ہوں؟ تو پھر جو ختم کر سکتے ہیں، انہیں کرنے دو‘ ۔ کیا کہیں اس رویے کو؟ موقع پرستی، کینہ یا کہ فکری افلاس؟ ان صاحب نے کہ مشرف دور میں خبرنامے کے بعد اپنے ’ٹاک شو‘ کا آغاز کیا تھا۔ پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا۔ مکالمے کا مگر ایک نیا اسلوب متعارف کیا۔ چنانچہ ہم جیسے رات گئے ان کا پروگرام باقاعدگی سے دیکھتے۔ برسوں بعد ’پراجیکٹ عمران‘ لانچ ہوا تو اپنے ہی محسنوں پر بگڑنے لگے۔ آج کل مگر ایک بار پھر انہی کی وکالت فرماتے ہیں۔ صرف ایک یہی صاحب نہیں، اور بھی بہت سے دانشور ہیں، کل تک جو سویلین بالا دستی کے ’علمبردار‘ تھے۔ اب جو ہر غیر آئینی اقدام کو جائز سمجھتے ہیں۔

ٹی وی پر لچھے دار گفتگو کا رنگ جمانے والے ایک اور صاحب ہیں۔ چڑیاں اور طوطے جن کے لئے خبریں نکالتے ہیں۔ کل تک سویلین بالا دستی کے وہ بھی ایک بڑے علمبردار تھے۔ ایک دور تھا اشتراکیت کے بھی پیرو کار تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں بلوچ جب پہاڑوں پر چڑھے تو پنجاب کے آسودہ حال خاندانوں سے وابستہ چند اشتراکی نوجوان بلوچ فراریوں کے ساتھ جا ملے۔ کندھے سے کندھا ملا کر جو ریاست سے لڑنا چاہتے تھے۔ لڑتے تو کیا، الٹا سخت کوش بلوچوں کی تفریح طبع کا سامان بن گئے۔ سویت یونین تحلیل ہوا تو ایسے درجنوں سرخے لاوارث ہو گئے۔ حالات مگر بدلے۔ صدی نے کروٹ لی۔ بش کا دور امریکہ میں اور مشرف کا اقتدار ہمارے ہاں تحلیل ہوئے۔ صدارتی امیدوار اوبامہ نے اعلان کیا کہ امریکہ اب اسٹیبلشمنٹ نہیں، پاکستانی عوام کے ساتھ تعلقات استوار کرے گا۔ چنانچہ زرداری حکومت بنی تو یکایک کہیں سے امریکیوں کا ایک وفد کیری لوگر بل اُٹھائے نمودار ہوا۔ بل کیا تھا سویلین بالا دستی سمیت کچھ شرائط پر اربوں ڈالر کی امداد کا وعدہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں این جی اوز برساتی کھمبیوں کی طرح اُگنے لگیں۔ اچانک کہیں سے سول سوسائٹی وجود میں آ گئی۔ قوم پرست تنظیمیں راتوں رات جنم لینے لگیں۔ اور تو اور سرخے بھی اب سرخے نہیں، ’مغربی استعمار‘ کے راتب خور بن گئے۔ ’ذرائع‘ سے خبریں اور فالیں نکالنے والے نت نئے عزیمت پسند ’میڈیا سٹارز‘ کے نام گھر گھرمیں لئے جانے لگے۔ حسین نادم ’وار آف نیریٹوز‘ (بیانیوں کی جنگ) نامی اپنی کتاب کے لئے حقائق کی کھوج لگا رہے تھے تو پتا چلا یو ایس ایڈ کے کروڑوں ڈالرز اس دور میں سینکڑوں غیرمعروف این جی اوز، مخصوص و کلاء تنظیموں، یونیورسٹی اساتذہ، کچھ میڈیا ہاؤسز اور درجنوں صحافیوں میں بانٹے گئے کہ جن کی شناخت کسی کو معلوم نہیں۔

ایک روز اچانک ایک میڈیا پرسن پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ الزام حساس ادارے کے سربراہ پر دھر دیا گیا تھا۔ واحد گواہی اس شخص کی تھی جو حال ہی میں صوبائی نگران وزیر اور مڈل کلاس شہریوں کے لئے دہشت کی علامت رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی ریاست کے اندر ایک ٹی وی چینل چھتیس گھنٹے، بغیر کسی وقفے کے، اپنے ہی ملک کی سلامتی سے وابستہ ایک اہم ریاستی عہدے دار کی تصویر چلاتا اور چیخ چیخ کر نام پکارتا رہا۔ حکومت پہروں سب خاموشی سے دیکھتی رہی۔ پھر مشرف کے خلاف گھیرا تنگ ہونے لگا۔ آئین کی عملداری نہیں، صرف ادارے کی تضحیک مقصود تھی۔ ہم جیسے ہزاروں کو تو ایسا ہی لگا تھا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر منہ پھٹ حواری للکارنے لگے۔ میڈیا سٹارز نے الگ ہیجان برپا کیا ہوا تھا۔ بے چینی زیادہ پھیلی تو سپہ سالار نے جواب دیا، ’ادارے کے وقار کا تحفظ ہر حال میں کیا جائے گا۔‘ یہی وہ پر ُآشوب دور تھا جب عشروں سے ستایا ہوا پاکستانی معاشرہ بھی کروٹ لے رہا تھا۔

برسوں بیت گئے۔ پلوں کے نیچے سے اب بہت سارا پانی بہہ چکا۔ معاشرہ بدل چکا ہے۔ بہت سوں کی خواہش ہو تو ہو، اب جن کو بوتل میں واپس ڈالنا ممکن نہیں۔ صرف ملک کے دیگر حصوں میں ہی نہیں، پنجاب میں بھی معاملات اب بجلی کے بلوں میں رعایت سے بہت آگے جا چکے۔ معاشی تجزیہ کار خرم حسین نے لکھا ہے کہ ایک سابق وزیر عثمان امین الدین سال 2005 ء میں اکبر بگٹی سے مذاکرات کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ تیل اور قدرتی گیس کے معاملات کو سمجھنے والے وزیر کی رائے میں بلوچ سردار بہت کم مانگ رہے تھے۔ مشرف کا تکبر مگر آڑے آیا۔ جھگڑا بڑھتا چلا گیا۔ اکبر بگٹی ہلاک ہو گئے۔ اس وقت سے شروع ہونے والی بلوچوں کی تیسری بغاوت سرداروں سے مڈل کلاس اور اب بلوچ عورتوں کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ تہمتیں، دھمکیاں اور تلوار نہیں، ماہر جراح کا نشتر اور دستِ شفا درکار ہے۔ سلامتی امور کے معروف تجزیہ کار عامر رانا لکھتے ہیں کہ ڈیجیٹل انقلاب حسینہ واجد کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ لیکن اُسی سوشل میڈیا پر جبر اُسے مہنگا پڑا۔ مین سٹریم میڈیا حکومتی کل پرزوں کے تصرف میں تھا۔ عوامی غصے کا توڑ حسینہ واجد نے یہ نکالا کہ سوشل میڈیا پر حکومت مخالف پوسٹ کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا۔

پاکستان اور پاکستان سے باہر ڈھیروں ایسے میڈیا پرسنز، قانون دان اور نام نہاد ’حقوق تنظیموں‘ اور ’سول سوسائٹی‘ کے کارندے پائے جاتے ہیں کہ جو کل تک کسی ایک خاندان، یا امریکی راتب، یا محض ایک شخص کی نفرت پر پل رہے تھے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کا علَم اٹھائے ہوئے تھے۔ اب ایک اور بیانئے کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت مگر اب ان جیسوں کی کوئی جائز بات بھی سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ریاست کا ’بیانیوں کی جنگ‘ میں عوامی حمایت کی بجائے، ماضی گزیدہ سیاستدانوں کے علاوہ ایسے ناقابلِ بھروسا موسمی بٹیروں پر انحصار کرنا، کیا کوئی درست بات ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments