صورتِ حال: پسندیدہ زِندگی کا عمدہ نمونہ


جہانگیر اے جھوجھا حیاتِ مستعار کی 83 بہاریں دیکھ کر 30 ؍اگست کو اَپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اَپنے پیچھے ایک بھرپور زِندگی کی ایک اچھی مثال چھوڑ گئے۔ اُن کا تعلق وکالت کے پیشے سے تھا جس میں بڑا نام پیدا کیا۔ وہ اَپنی وسیع اور متنوع سرگرمیوں کی بدولت پورے پاکستان میں جانے پہچانے جاتے اور بیرونی ممالک میں بھی اُن کا ایک حلقۂ تعارف موجود تھا۔ اُنہوں نے وکیلوں کی مختلف تنظیموں اور بار کونسلوں کے انتخابات میں بھرپور حصّہ لیا اور اَپنی کمیونٹی کے حقوق اور فلاح کا بہت خیال رکھا۔ اُنہیں مطالعے کا بہت شوق تھا، چنانچہ وہ 1968 میں لاہور بار اَیسوسی ایشن کے لائبریری سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اِس کے بعد اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر وہ لاہور بار اَیسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار اَیسوسی ایشن کے چیئرمین شپ کے اعلیٰ مناصب تک جا پہنچے اور قومی تحریکوں میں نہایت فعال کردار اَدا کرتے رہے۔ اُن کے گرد پُرعزم نوجوان وکلا جمع ہو گئے تھے جو جمہوری قدروں کی نشوونما اور قانون کی بالادستی میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ مارچ 1977 میں وزیرِ اعظم بھٹو کے خلاف انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے خلاف تحریک چلی جو تقریباً تین ماہ جاری رہی۔ اُس کی کامیابی میں زیادہ تر کردار باشعور وکلا کا تھا۔ بھٹو صاحب نے نئے انتخابات کا اعلان کرنے میں بڑی تاخیر کی، تو ملکی نظم و نسق مفلوج ہو گیا اور فوج کو اِقتدار سنبھالنے کا موقع مل گیا۔

چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کو حالات کے جبر نے 1985 میں انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا اور اُنہوں نے پی سی او کے تحت جناب محمد خان جونیجو کو و زیرِ اعظم نامزد کر دیا۔ اُس وقت پنجاب کے و زیرِ اعلیٰ جناب نواز شریف وزیرِ اعظم جونیجو کے سیاسی اثرات کو محدود رَکھنا چاہتے تھے۔ ایک روز خبر شائع ہوئی کہ وزیرِ اعظم جونیجو ٹرین کے ذریعے لاہور آ رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار اَیسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے جناب جہانگیر اے جھوجھا اُن کے استقبال کے لیے پہنچ گئے۔ اُنہیں بار سے خطاب کرنے کی دعوت دی جو اُنہوں نے قبول کر لی۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اُس خطاب کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جھوجھا صاحب اُن کوششوں کے آگے ڈٹ گئے اور وزیر اعظم نے لاہور بار سے ایک پُرمغز خطاب کیا جس کا بڑا چرچا ہوا۔ جھوجھا صاحب نے وکلا کے لیے پانچ سو پلاٹ اور اُن کے دفاتر کے لیے عمارت تعمیر کرنے کی منظوری حاصل کی، مگر خود مراعات سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور اَپنا دامن صاف رکھا۔

وہ اَپنے ہم پیشہ وکیلوں کا بڑا اِحترام کرتے اور اُن کی ہر ممکن مدد کے لیے آمادہ رَہتے۔ اُن کا دفتر وکیل حضرات کے لیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُن کے زیرِ تربیت وکلا آج خاصی تعداد میں سول جج بھی ہیں، سیشن جج بھی اور ایک صاحب سپریم کورٹ کے فاضل جج بھی ہیں۔ وکلا کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کوآپریٹو سوسائٹی قائم ہوئی، تو جھوجھا صاحب اُس کے روحِ رواں تھے۔ اُنہیں پیسوں کی کوئی حرص نہیں تھی اور اَللہ تعالیٰ نے اُنہیں ’دینے والا ہاتھ‘ عطا کیا تھا۔ اُن کے نزدیک اجتماعی معاملات غیرمعمولی اہمیت رکھتے تھے۔ اُن کا دل کھلا اور محبت اور خیرخواہی سے بھرا ہوا تھا۔

اُن کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جس بستی میں رہتے، اُس کے جملہ معاملات میں پوری دلچسپی لیتے، بھائی چارے کو فروغ دیتے اور اُس کے حالات میں بہتری لانے کو اَپنا مقصد بنا لیتے۔ وہ اِچھرے اور فیصل ٹاؤن میں طویل عرصے تک رہے اور اِس دوران دوستیاں اِس قدر پروان چڑھائیں کہ اُس کے بعد وہ جہاں بھی گئے، اُن سے ملنے کے لیے پرانے دوست بڑی تعداد میں آتے رہے۔ وہ غالباً 1997 کے آخر میں جوہر ٹاؤن منتقل ہوئے جہاں مَیں نے بھی اُسی سال اپنا مکان تعمیر کیا تھا۔ بلاک جی تھری میں ہم ایک دوسرے کے ہمسائے تھے۔ مَیں نے اُنہیں لوگوں میں میل ملاپ بڑھاتے اور اِس بلاک کی حالت بہتر بنانے میں شب و روز سرگرداں دیکھا۔ وہ سالہا سال اِس علاقے کے مکینوں کو ہر مہینے ناشتے پر دعوت دیتے رہے تاکہ باہمی تعاون کی فضا قائم ہو۔ اُس وقت وہاں ایک کچا راستہ تھا جو آمدورفت میں بہت رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ جھوجھا صاحب اور رَاقم الحروف ایل ڈی اے کے دفتر گئے جس کے ڈائریکٹر جنرل جناب اقبال قریشی تھے۔ اُنہوں نے نقشہ منگوا کر دیکھا اور معلوم ہوا کہ اُس بستی میں کوئی سڑک فراہم نہیں کی گئی ہے۔ ہم نے اُنہیں جوہر ٹاؤن آنے کی دعوت دی اور اَہلِ محلہ کو جمع کر لیا۔ وہ لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے محکمے کی غلطی تسلیم کی اور فوری طور پر سڑک بنانے کے احکام جاری کر دیے۔ اتفاق سے ٹھیکیدار جھوجھا صاحب کے جاننے والے تھے۔ اُنہوں نے سڑک کی تعمیر دیانت داری سے کی۔ وہ اِس وقت جوہر ٹاؤن کا سب سے خوبصورت بلاک ہے جس میں صفائی ستھرائی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہریالی اور آپس میں محبت کی شادابی پھیلی ہوئی ہے۔

جھوجھا صاحب نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی۔ اُن کے دو بیٹے وکیل ہیں۔ بڑے بیٹے ارشد جھوجھا نے اپنے والد کی پیروی میں لاہور بار اَیسوسی ایشن کا دو بار اِنتخاب لڑا اَور خدمت کا ایک قابلِ رشک ریکارڈ قائم کیا۔ اُن کی صاحبزادی روبینہ نے اپنے والد کی مطالعے کی عادت اپنا لی ہے۔ اخبارات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتیں اور حالاتِ حاضرہ پر پوری گرفت رکھتی ہیں۔ جھوجھا صاحب کے دل موہ لینے والے اوصاف ہی کا یہ کرشمہ تھا کہ اُن کی نمازِ جنازہ میں بڑی تعداد میں اور ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ لوگ شامل ہوئے۔ اُنہیں بامقصد سیر و سیاحت کا بھی غیرمعمولی شوق تھا۔ ہر سال سپریم کورٹ بار اَیسوسی ایشن کے انتظامات کے تحت کسی بیرونی ملک میں وکلا کے وفد کے ساتھ جاتے اور و َہاں کے نظامِ قانون کا گہرائی سے جائزہ لیتے اور پاکستان کا تعارف کراتے۔ وہ اَپنی زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوئے اور اُس میں ہر حاجت مند کو عزت کے ساتھ سہارا دِیا۔ اُن کے گھٹنوں کا آپریشن بڑا کامیاب رہا مگر چند ہی روز بعد کھانسی کا ایسا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بلند مقام عطا فرمائے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments