اختر مینگل کا مستعفی ہونے کا فیصلہ


ہم پاکستانیوں میں سے شاید بہت ہی کم لوگوں کو علم ہو گا کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے حامی نوجوانوں میں سب سے مقبول نعرہ کیا ہے۔ ان کی آسانی کے لئے بتائے دیتا ہوں کہ نعرہ ہے :”جو پارلیمان کا یار ہے- غدارہے-غدار ہے“۔ سادہ ترین پیغام اس نعرہ میں یہ مضمر ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب میں حصہ لینے والے بلوچ اپنی دھرتی کے ”غدار“ ہیں کیونکہ وہ آئین پاکستان کے تحت قائم ہوئے ان جمہوری اداروں کے لئے منتخب ہو کر اس ملک کی بقا اور خوش حالی کے عمل میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔

مذکورہ نعرے کی اہمیت پر غور کئے بغیر آپ محسوس ہی نہیں کرسکتے کہ اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جانے کا فیصلہ بلوچستان میں کس نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ ان کے استعفیٰ پر غور کرتے ہوئے آپ کو یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہو گی کہ ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل 1970 میں باقاعدہ صوبہ تسلیم ہوئے بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ ان کی حکومت کو مگر چند ہی ماہ چلنے دیا گیا۔ اس کے خلاف برطانوی دور سے سرکار کی جی حضوری کے عادی افراد کے گروہوں کو بھڑکایا گیا۔ تاثر یہ پھیلایا کہ جیسے نوزائیدہ صوبائی حکومت بلوچستان میں امن وامان قائم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ مبینہ ”ناکامی“ اس وجہ سے بھی گوارہ نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ 70ء کے انتخابات کے بعد عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل نہیں ہوا تھا۔ اس تناظر میں اختیار کئے لیت ولعل نے بالآخر سقوط ڈھاکہ کی بدولت بنگلہ دیش کے قیام کو یقینی بنایا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھی ”مستقل حکومت“ کو ہمہ وقت یہ خوف لاحق رہتا کہ بنگالیوں کی طرح پشتون اور بلوچ بھی پاکستان سے الگ ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ عطا اللہ مینگل کی حکومت کو لہٰذا برطرف کر دیا گیا۔ اس کی جگہ نواب اکبر بگتی کی قیادت میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ چند ہی ماہ گزرنے کے بعد بگتی صاحب کوبھی فارغ کرنا پڑا۔

بلوچستان میں مینگل کی حکومت برطرف ہوئی تو ان دنوں سرحد کہلاتے صوبے میں مفتی محمود مرحوم کی قیادت میں قائم ہوئی صوبائی حکومت بھی احتجاجاََ مستعفی ہوگئی۔ وہ حکومت ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے اشتراک سے بنائی گئی تھی۔ بلوچستان اور سرحد حکومتوں کی برطرفی اور استعفیٰ نے بنیادی پیغام یہ دیا کہ ان صوبوں میں حکومت ان افراد کے سپرد نہیں کی جا رہی جنہیں پاکستان کی تاریخ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے پہلے اور نسبتاً صاف شفاف انداز میں ہوئے انتخابی عمل کے ذریعے عوام نے منتخب کیا تھا۔ ”مرکز“ اور اس کے چہیتے ہی مذکورہ صوبوں میں ”وائسرائے“ کی خواہش کے مطابق حکومتی بندوبست کے نگہبان ہوں گے۔

اپنے ساتھ ہوئے اس سلوک کے باوجود ”علیحدگی پسندی“ اور ”غداری“ کے طعنے سنتے نیشنل عوامی پارٹی کے رہ نماﺅں نے آئین پاکستان کو متفقہ طورپر منظور کروانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدے کیلئے ہوئے مذاکرات میں بھٹو حکومت کے اختیار کردہ موقف کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ تمام تر زیادیتوں کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں فراہم کردہ تعاون کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی کو بالآخر وطن دشمن ٹھہراتے ہوئے سپریم کورٹ کے ہاتھوں بین کروادیا گیا۔ اس کے رہ نماﺅں پر حیدر آباد جیل میں غداری اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمے چلائے گئے۔ تاریخ کا المیہ یہ بھی ہے کہ 1977ء میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلی تحریک کے نتیجے میں جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو قومی سلامتی کے اجارہ دار ادارے کے سربراہ ہی نے بطور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر حیدر آباد جیل میں گرفتار نیشنل عوامی پارٹی کے رہ نماﺅں کو رہا کر دیا۔ جنرل ضیاء نے ولی خان اور بیگم نسیم ولی خان کو اپنے گھر ایک پرتکلف دعوت کے لئے بھی مدعو کیا۔

جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران ولی خان اور غوث بخش بزنجو پاکستان ہی میں مقیم رہ کر بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ سردار عطا اللہ مینگل مگر دل کے عارضے کی وجہ سے لندن چلے گئے۔ وطن لوٹنے کے بعد تاہم سیاست سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اختر مینگل نے ہمت نہ ہاری۔ اپنی جماعت کو بلوچستان تک محدود رہتے ہوئے منظم کیا اور 1997ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ ان کا اتحاد مگر چند سازشی عناصر کی وجہ سے برقرار نہ رہ پایا۔

اختر مینگل بے تحاشہ تلخ تجربات کے باوجود پاکستان کی جمہوری سیاست میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کے حامی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کی بدولت قومی اسمبلی آئے تو عمران حکومت کے اتحادی ہو گئے۔ انہیں امید تھی کہ ”نیا پاکستان“ بنانے کی دعوے دار حکومت بلوچستان میں بھی کچھ ”نیا“ کرنا چاہے گی۔ بالآخر مایوس ہوکر ان قوتوں کے ساتھ مل گئے جنہوں نے اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروایا۔ 2024ء کے بعد سے وہ شہباز حکومت کی برسرعام تنقید سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ان کی خاموشی کو مگر وقعت نہ ملی۔

بلوچستان کے چند بنیادی مسائل کے بارے میں وہ نپے تلے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے عادی ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے مگر بلوچ نوجوانوں جن میں پڑھی لکھی خواتین کی کثیر تعداد بھی شامل ہے ،اپنے مستقبل کے بارے میں قطعاََ مایوس محسوس کر رہی ہے۔ ان کے دلوں میں پھیلتی ناامیدی کو انتہا پسند علیحدگی پسندوں کا ایک مخصوص گروہ پاکستان دشمن ممالک اور قوتوں کی مدد سے دہشت گردی کی جانب راغب کر رہا ہے۔ ”خود کش حملے“ بلوچ روایت کا حصہ نہیں۔ افغانستان میں بیٹھے چند انتہا پسند مگر نوجوان ذہنوں میں خودکش جذبات ابھارنے کی مہارت کے حامل ہیں اور حال ہی میں ہوئے چند واقعات ان کی اثرپذیری کو دل دہلا دینے کی حد تک عیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نام نہاد مین سٹریم میڈیا میں بلوچستان کے تازہ ترین حالات کی خبر تک دیکھنے کو نہیں ملتی وہاں کے حالات کا تجزیہ تو دور کی بات ہے۔

ریگولر اور سوشل میڈیا چسکہ فروشی سے فرصت پاتا تو ہم دریافت کرچکے ہوتے کہ بلوچستان کے نوجوانوں اور خاص طورپر پڑھی لکھی خواتین کے دلوں میں پاکستان سے بیگانگی کے جذبات توانا تر ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اختر مینگل جیسے رہ نماﺅں کی قومی اسمبلی میں موجودگی کو غنیمت شمار کرنا چاہیے تھا۔ وہ نہ بھی چاہ رہے ہوتے تو حکمران جماعت کو انہیں مجبور کرنا چاہیے تھا کہ ایوان میں کھڑے ہوں اور بلوچستان کے تازہ ترین واقعات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ان کی بات مکمل ہوجاتی اور اس میں واضح جھول یا مبالغہ آرائی نظر آتی تو حکومتی صفوں ہی سے کوئی رکن اسمبلی اٹھ  کر وضاحتیں پیش کرسکتا تھا۔ اختر مینگل نے مگر ازخود ایک نہیں دوبار ایوان میں کھڑے ہو کر بلوچستان کے تازہ ترین واقعات پر تقریر کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے دونوں بار جب وہ تقریر کے لئے اٹھے تو کورم کی نشاندہی کردی گئی۔ دونوں بار کورم مکمل نہیں تھا اور وہ ہمیں بلوچستان کے تازہ ترین حالات کے بارے میں اپنی سوچ سے آگاہ نہ کر پائے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments