زندہ ہے ”دو قومی نظریہ“ زندہ ہے
16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سرنگوں ہوا تو اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے فخریہ انداز میں کہا کہ ”آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے“ پاکستان اپنے قیام کے 24 سال بعد ہی دولخت ہو گیا بنگلہ بندھو 6 نکات کے ذریعے ملک کو کنفیڈریشن میں تبدیل کرنا چاہتا تھا لیکن اسے بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنانے کا موقع مل گیا۔ پاکستان کے دو لخت ہو جانے کے بعد ان عناصر کو بھی دو قومی نظریہ پر طنز کے تیر چلانے کا موقع مل گیا جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور ریفرنڈم میں قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیا لیکن نصف صدی بعد اسی سرزمین پر جہاں پاکستان کا نام لینا ”جرم“ قرار دے دیا گیا تھا ”پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سے دو قومی نظریہ کے زندہ ہونے کی نوید سنائی دے رہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ کے اواخر اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی جانب سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے شرکا کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں دوقومی نظریہ کے زندہ ہونے کی گونج سنائی دی۔ تقریب کے میزبان اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے روح رواں ظفر بختاوری نے دو قومی نظریہ کے زندہ جاوید ہونے کا خوبصورت الفاظ میں ذکر کیا جس پر شرکاء دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے رہے انہوں نے کہا کہ ”دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے یہ نظریہ تا ابد زندہ رہے گا“ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ”میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف دو قومی نظریہ کو اپنی آئندہ آنے والی نسل کے ذہنوں میں اجاگر کرے بلکہ قیام پاکستان کے مقاصد آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے ہمیشہ قائم رہے گی میڈیا کو پاکستان سے لوگوں کی امیدیں وابستہ رکھنے کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
ظفر بختاوری کا شمار وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی نظریاتی سوچ رکھنے والی شخصیات میں ہوتا ہے جو سیکولر سوچ رکھنے والے عناصر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں وہ پچھلے 50 سال سے بیرونی دنیا کو پاکستان کا خوشنما چہرہ دکھا رہے ہیں، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے موجودہ صدر احسن بختاوری کی جگہ لینے والے ناصر قریشی کی بھی سوچ کاروباری نہیں بلکہ نظریاتی ہے اور وہ پاکستان کو جہاں معاشی طور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں وہاں اس کی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے علمبردار ہیں۔
10، 12 سال قبل کی بات ہے پاکستان کی ایک مقتدر شخصیت کے صاحبزادے نے ملک ایک بزرگ صحافی سے سوال کیا کہ ”انکل آپ بھارت کے اس قدر خلاف کیوں ہیں؟“ تو اس ایک جملہ میں لا جواب کر دیا ”اس سوال کا جواب اپنے دادا سے پوچھ لے تو تمہیں سب کچھ سمجھ آ جائے گا؟“ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب برصغیر میں پہلا مسلمان پیدا ہوا تو قیام پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوؤں نے زخم خوردہ مسلمانوں کے سامنے ”ہندی اردو تنازعہ“ کھڑا کر دیا جسے ”ہندی اردو جھگڑا“ کے نام سے موسوم کیا گیا 1867 میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کی جس کا مقصد اردو کی بجائے ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا اس لسانی تحریک کا ہیڈ کوارٹر الہ آباد بنایا گیا ہندوؤں کی تحریک کو پورے ہندوستان میں ہندوؤں میں پذیرائی حاصل ہوئی اردو کے خلاف یہ تحریک غیر دانشمندانہ تھی کیونکہ اردو زبان کی تر ویج و فروغ میں جتنا مسلمانوں کا کر دار تھا اس میں ہندوؤں کا اس سے کم نہیں تھا لیکن اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے خلاف پھیلائی گئی نفرت نے مسلمانوں میں پہلی بار ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کے احساس کو اجاگر کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور سر سید احمد خان جو کبھی متحدہ قومیت کے حامی تھے دو قومی نظریہ کا علمبردار بننے پر مجبور ہو گئے اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ ہندو کی تنگ نظری نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کے قیام کو یقینی بنایا۔ چونکہ مسلمانوں کا شاندار ماضی اردو زبان میں محفوظ ہے اولیا ء کرام و علما ء عظام، عظیم سپہ سالاروں کے تذکرہ سے دبستان بھرے پڑے ہیں لیکن ہندوؤں کے اندر پائی جانے والی جنونیت کم نہ ہوئی۔
ہندو مسلم ثقافتی تنازعہ نے بڑے پیمانے پر ”ہندو مسلم فسادات“ کو جنم دیا اس صورت حال نے سر سید احمد خان جیسی شخصیت کے خیالات میں انقلاب برپا کر دیا وہ ہندی اردو تنازعہ سے قبل ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھے ان کی سوچ تبدیلی آئی اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا پرچم اٹھا لیا جو بالآخر قیام پاکستان کا باعث بنا۔ سر سید احمد خان کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ وہ آئیڈلسٹ (idealist) تھے لیکن ہندو مسلم اتحاد کے جھوٹے نعرے کی حقانیت نے ان کو حقیقت پسند (realist) بنا دیا۔
بر صغیر میں دو مذاہب اسلام اور ہندومت کے پیروکار صدیوں سے اکٹھے رہنے کے باوجود ایک نہ ہو سکے وہ دریا کے دو کناروں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے تھے لیکن کبھی ایک نہ ہو سکے پھر یہ دو قومی نظریہ کی سوچ ہی 1906 ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کی بنیاد بنی اور پھر ایک صدی سے کچھ زائد ڈھاکہ کے گلی کوچے میں دو قومی نظریے کی گونج سنائی دی۔ 1906 سے لے کر قیام پاکستان تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا محور دو قومی نظریہ ہی تھا 1930 ء میں الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 21 ویں اجلاس میں جہاں علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کو فصاحت کے ساتھ پیش کیا وہاں انہوں نے مسلمانان ہند کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کی نوید سنا دی۔
انہوں نے 1936 سے 1938 کے درمیان قائد اعظم محمد علی جناح کو جتنے مکتوبات بھیجے ان میں دو قومی نظریہ کو ہی اجاگر کیا گیا قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانان ہند کے ذہنوں میں دو قومی نظریہ اجاگر کر دیا علماء دیوبند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت برصغیر میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کے قیام کی راہ میں حائل نہ ہو سکی 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان ہونے والا ”میثاق لکھنو“ ایک ایسی سیاسی دستاویز ہے جس نے بالآخر مسلمانوں کی جدا گانہ حیثیت کو تسلیم کر وا لیا۔
حضرت مجدد الف ثانی برصغیر میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا سید ابو الاعلیٰ اس نظرہ کی آبیاری کی پھر شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان، علامہ اقبال، قائد اعظم اور دیگر رہنماؤں نے دو قومی نظریہ کا پر چار کیا 23 مارچ 1940 ء کو منٹو پارک میں منظور ہونے والی ”قرار داد لاہور“ ہی نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی بعد ازاں اسے ”قرارداد پاکستان“ کا نام دے دیا گیا 76 سال گزرنے کے بعد کچھ لوگوں کی جانب سے دو قومی نظریہ کی حقانیت پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں تو 5 اگست 2024 ء کو بنگلہ دیش میں ”پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ“ کے نعروں کی گونج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے ”زندہ ہے دو قومی نظریہ زندہ ہے“ ۔
- چھبیسویں آئینی ترمیم کا قضیہ - 25/09/2024
- زندہ ہے ”دو قومی نظریہ“ زندہ ہے - 10/09/2024
- جماعت اسلامی کا یوم تاسیس (2) - 03/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).