انتظارِ اقرار: صلیبیں اپنی اپنی (20)


”اور اِس دنیا کے ہم شکل نہ بنو بلکہ اپنے ذہن کی تجدید سے بدلتے جاؤ، تاکہ تم خدا کی رضا کو ، یعنی اُس کے نیک اور پسندیدہ اور کامل ارادہ کو معلوم کر سکو۔“ رومیوں 12 : 2

حالاں کہ ابھی نومبر شروع ہوا تھا اور سوئٹر پہننے کا موسم نہیں آیا تھا مگر اچانک حیدرآباد میں کوئٹہ کی ہوا سردی کی لہر لے آئی۔ عموماً دسمبر سے پہلے یہ ہوائیں نہیں چلتیں مگر معلوم ہوتا تھا کہ اُس سال سردی کچھ جلدی ہی آ گئی تھی۔ انکل شاہد سوئٹر پہنے بیٹھے تھے اور آنٹی نے بھی شال اوڑھ رکھی تھی۔ ویسے اتنی سردی نہیں تھی کہ سوئٹر پہنا جائے، مگر مشتاق احمد یوسفی سے معذرت کے ساتھ حیدرآباد کے لوگ بھی کراچی والوں سے کم نہیں ہیں اور کوئٹہ والوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر سردی مناتے ہیں۔

بچوں نے اس دن جلد ہی اپنا ہوم ورک ختم کر لیا اور میں انہیں چھٹی دے کر باہر آ بیٹھا۔ آنٹی سوئٹر بُننے میں مصروف تھیں اور انکل شاہد اخبار پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ”سر، آپ نے آج کا جنگ پڑھا؟“

” نہیں، کوئی خاص خبر؟“ میں نے پوچھا۔

” کل کراچی میں مادر ملت نے بڑی زوردار تقریر کی ہے،“ انہوں نے دوبارہ اخبار پھیلاتے ہوئے کہا، ”فاطمہ جناح نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ایوب خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔“

” خدا کرے کہ عوام واقعی اٹھ کھڑے ہوں کیوں کہ اب گھٹن کچھ بڑھتی ہی جا رہی ہے،“ میں نے کہا۔
” آپ کا کیا خیال ہے، مادر ملت جیت جائیں گی؟“

” مجھے تو امید نہیں۔ ایوب خان نے یہ بنیادی جمہوریتوں کا جو ڈرامہ رچایا ہے اس میں اسّی ہزار ووٹ خریدنا کیا مشکل ہے۔“

” بہرحال خدا خیر کرے،“ آنٹی نے کہا۔

اتنے میں مریم کمرے سے نکل کر آئی۔ اس نے مٹھی میں کچھ دبا رکھا تھا اور اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔ انکل شاہد اور آنٹی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ مٹھی باندھے اپنا بازو پھیلا کر کھڑی مسکرا رہی تھی۔

” کیا کوئی پہیلی بوجھ رہی ہو؟“ آنٹی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
” ننھے مُنّے بچے، تیری مٹھی میں کیا ہے؟“ مریم نے گاتے ہوئے کہا۔

مجھے اس کی مٹھی کی دراڑ سے سرخ رنگ کی ایک جھلک نظر آئی اور میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ اسی انگوٹھی کی ڈبیہ تھی جو دانی ایل نے باغبان جوئیلرز سے دو ہفتے پہلے خریدی تھی، مگر میں خاموش رہا کیوں کہ میں بتا کر رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ انکل شاہد اور آنٹی اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے رہے۔

”چلو بھئی، اب بتا بھی دو ،“ انکل شاہد نے کہا۔

مریم نے مٹھی کھولی اور ڈبیہ آنٹی کے ہاتھ میں دے دی۔ انہوں نے اسے کھولا اور مسکرا کر ڈبیہ انکل شاہد کی طرف بڑھا دی۔ آنٹی بڑی کم گو تھیں، میں نے کبھی انہیں نہ غصے میں دیکھا اور نہ زور سے ہنستے ہوئے۔ جہاں لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے وہاں ان کا کام ایک مسکراہٹ سے چل جاتا تھا۔

” بڑی قیمتی لگتی ہے۔ کتنے کی لی؟“ انکل شاہد نے پوچھا۔
”نہیں پاپا، میں نے خریدی نہیں، کسی نے دی ہے۔“
”اچھا، کس نے دی ہے؟“ آنٹی نے پوچھا۔
مریم نے انگلی اٹھا کر میری طرف اشارہ کیا اور بولی، ”آپ ہی بتا دیں۔ “

میں اس دوران انجانا بنا رہا کیوں کہ یہ فیملی کے ذاتی لمحات تھے اور میں ان میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”آپ کو اس نے نہیں بتایا؟ آپ تو کہتے تھے کہ آپ اس کے بچپن کے دوست ہیں۔“

”یہ انگوٹھی دانی ایل نے دی ہے؟“ انکل شاہد نے پوچھا۔ میں نے انہیں ایک مرتبہ بتایا تھا کہ میں اور دانی ایل بچپن سے ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

”جی۔“

انکل شاہد نے کھڑے ہو کر مریم کو گلے لگا لیا۔ آنٹی نے بیٹھے بیٹھے اپنا بازو بڑھایا اور مریم کو چمٹا کر پیار کیا۔

”مبارک ہو۔ دانی ایل اچھا لڑکا ہے، شریف اور محنتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایمان دار بھی ہے۔ وہ تمہارے لیے اچھا زندگی کا ساتھی ثابت ہو گا،“ انکل شاہد نے مریم کو انگوٹھی واپس کرتے ہوئے کہا۔

”پاپا، میں نے ابھی دانی ایل کو ہاں نہیں کہا۔ مجھے فیصلہ کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے،“ مریم خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔

”بیٹی، زندگی تمہاری ہے اور تم ہی فیصلہ کرو گی، لیکن اگر تم ہم سے مشورہ کرنے آؤ گی تو ہم یہی کہیں گے کہ دانی ایل اچھا لائف پارٹنر ہو گا،“ انکل شاہد نے کہا اور آنٹی کی طرف ہاتھ اٹھا کر پوچھا، ”آپ بھی تو کچھ کہیں۔“

”بالکل، میں آپ سے متفق ہوں،“ آنٹی نے جواب دیا۔
”میں جو بھی فیصلہ کروں گی، سب سے پہلے آپ دونوں کو ہی بتاؤں گی۔“
”ہم بھی خدا سے دعا کرتے رہیں گے کہ تم اچھا فیصلہ کرو،“ انکل شاہد نے کہا۔
”اچھا انکل، مجھے اجازت دیں،“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”کیوں سر، چل دیے؟“ انکل شاہد نے پوچھا۔

”ذرا ٹھہریں، میں اپنا پرس لے کر آتی ہوں۔ میں بھی آپ کے ساتھ آزاد بُک ڈپو تک چلتی ہوں، اس مہینے کا مِرَر لینا ہے،“ مریم اٹھ کر کمرے میں تیار ہونے کے لیے چلی گئی۔

مِرَر (Mirror) پاکستان کی ہائی سوسائٹی اور فیشن کا ایک انگریزی زبان کا رسالہ تھا جو کراچی سے شائع ہوتا تھا اور اپنے وقت میں اعلیٰ طبقے کے طرزِ زندگی، فیشن، اور سماجی تقریبات کے حوالے سے معروف تھا۔ ہائی سوسائٹی کی بیگمات جب اپنے گھر میں پارٹیاں کرتی تھیں تو مِرَر کی نامہ نگار کو ضرور مدعو کرتی تھیں جو پارٹی کا آنکھوں دیکھا حال مع تصاویر شائع کرتی تھی اور اس کے مضمون میں میزبان خاتون اور مہمان خواتین کے لباس اور میک اپ کو بڑے لچھے دار انداز میں بیان کرتی تھی، اور کھانوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی تھی۔ یہ رسالہ اپنے عروج کے دور میں پاکستان کے اشرافیہ اور سوشل واقعات کی نمایاں اشاعت کرتا تھا اور اس کا شمار ملک کے مقبول سوسائٹی میگزینز میں ہوتا تھا۔

گھر سے باہر نکلتے ہی مریم بولی، ”مجھے حیرت ہے کہ دانی ایل نے آپ کو نہیں بتایا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔“

”مجھے معلوم ہے۔ آپ کی وہ انگوٹھی بھی اسے میں نے ہی خریدوائی تھی۔“
”لیں، مجھے تو حیرت ہوئی جب آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔“

”بھئی مریم، وہ گفتگو آپ کے والدین اور آپ کے درمیان ہو رہی تھی۔ میں اس میں دخل نہیں دینا چاہ رہا تھا۔“

”بڑی پتے کی بات کہی ہے آپ نے،“ مریم نے کچھ سوچ کر ہنستے ہوئے کہا، ”تبھی تو میں آپ کو اتنا عقل مند سمجھتی ہوں۔“

”آپ کی ذرّہ نوازی ہے۔“
”نہیں، میں سنجیدہ ہوں۔“
”اگر اجازت ہو تو میں آپ سے ایک ذاتی سوال کروں۔ “
”آپ مجھے جواب دینے یا نہ دینے کا حق دیں گے؟“
”بالکل، وہ تو آپ کا حق ہے۔“
”پھر تو پوچھ لیں۔“
” یہ بتائیں کہ دانی ایل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ “
”وہ ایک اچھا دوست ہے، میری عزت کرتا ہے، مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں بھی اس سے محبت کرتی ہوں۔“
”تو پھر آپ نے اس کی شادی کی پیشکش کو قبول کیوں نہیں کیا؟“
”اس لیے کہ میں اس پیشکش کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے کا حق استعمال کرنا چاہتی ہوں۔“
”بالکل جائز بات ہے۔“
”شکریہ۔“

دائیں جانب مڑ کر سڑک کی بائیں طرف آزاد بُک ڈپو تھا۔ اس کے دروازے کے سامنے فٹ پاتھ سے تین سیڑھیوں کی اونچائی پر ایک چھوٹا سا چبوترہ تھا جس پر اس کے مالک، کفایت اللہ صاحب، تنگ پاجامہ اور شیروانی میں ملبوس جناح کیپ پہنے دروازے کی ایک طرف کرسی بچھائے بیٹھے رہتے تھے۔ وہ اپنے گاہکوں کو ناموں سے جانتے تھے۔ جو گاہک پہلی مرتبہ ان کی دکان پر آتا تھا اس سے اس کا نام ضرور پوچھتے اور اپنا نام بھی بتاتے۔ اس کے بعد وہ اگلی بار سال دو سال کے بعد بھی آتا تو اسے اس کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔

مجھے دیکھ کر دور ہی سے بولے، ”کیسے مزاج ہیں پرویز میاں۔ زمانے کے بعد ہی ادھر سے گزرے۔“
”میں تو آپ کے پاس ایک نئی گاہک کو چھوڑنے کے لیے آیا ہوں۔“

”نہیں بھئی، میں تو مریم بی بی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بچوں کے رسالے خریدنے آتی تھیں،“ کفایت صاحب نے ہنس کر کہا، ”کہیے، شاہد صاحب کے کیسے مزاج ہیں۔“

”جی انکل، پاپا ٹھیک ہیں،“ مریم نے جواب دیا۔
”مجھے تو اجازت دیں،“ میں نے کہا۔

”اگلی بار ادھر سے گزریں تو کچھ وقت دیجیے گا،“ کفایت صاحب نے اٹھ کر ہاتھ ملایا اور میں وہاں سے مریم کو خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔

میں راستے بھر دانی ایل کی پیشکش کے متعلق سوچتا رہا۔ جس طرح انکل شاہد اور آنٹی نے دانی ایل سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اور جس طرح مریم نے اپنے جذبات کو بیان کیا تھا، اس سے تو صاف ظاہر تھا کہ اُس کا جواب ہاں میں ہی تھا اور وہ صرف دانی ایل کی تڑپ میں اضافہ کرنے کے لیے جواب دینے میں دیر لگا رہی تھی۔ میرا بس چلتا تو اڑ کر دانی ایل تک پہنچتا اور اسے خوش خبری سنا تا۔ میرے دماغ میں وہ جملہ گردش کر رہا تھا جو میں اسے دیکھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہتا، ”کھِلا یار مٹھائی!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).