فیصلہ – فرانز کافکا کا افسانہ


وہ موسم بہار کی ایک اتوار کی صبح تھی اور ایک بیوپاری جارج بیڈیمین اپنے گھر کی پہلی منزل پر اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا گھر ان خستہ حال گھروں میں سے ایک تھا جو دور سے اپنے حجم اور رنگ کی وجہ سے ایک جیسے ہی لگتے تھے۔

جارج اپنے ایک ایسے دوست کو خط لکھ کر فارغ ہوا تھا جو دیار غیر میں جا بسا تھا۔ اس نے بے خیالی میں خط کو لفافے میں ڈالا تھا اور اب وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اسے دور ایک دریا، دریا پر پل اور دریا کی دوسری طرف پہاڑیوں پر سبزہ دکھائی دے رہا تھا۔

جارج اپنے دوست کے بارے میں سوچنے لگا جو چند سال پہلے اپنا ملک چھوڑ کر روس چلا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے ملک کے کاروبار سے مایوس ہو چکا تھا۔

جارج کے دوست نے سینٹ پیٹرزبرگ میں نیا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ شروع میں تو وہ کاروبار ترقی کر رہا تھا لیکن اب اس کاروبار میں مندی کا رجحان آ گیا تھا۔ وہ دوست جب کبھی کبھار اپنی مادر وطن کے پاس آتا اور پرانے دوستوں سے ملتا تو کاروبار کے مندی کے رجحان کی شکایت کرتا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ تھک گیا ہو۔ اس نے داڑھی بھی بڑھا لی تھی۔ وہ داڑھی اس کے چہرے پر تو پردہ ڈال دیتی تھی لیکن اس کے داخلی کرب کو چھپانے میں ناکام رہی تھی۔ اس کی جلد کا رنگ بھی زرد ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی داخلی بیماری کا شکار ہو گیا ہو۔

اس دوست نے جارج کو خود بتایا تھا کہ نہ تو اس نے روس میں نئے دوست بنائے تھے اور نہ ہی وہ اپنے ملک کے مہاجر باسیوں سے راہ و رسم رکھتا تھا۔ وہ نجانے کب سے تجرد کی زندگی گزار رہا تھا۔

جارج نے سوچا کوئی انسان ایسے دوست کو خط میں کیا لکھ سکتا ہے جو تارک الدنیا ہو گیا ہو۔ انسان ایسے انسان سے ہمدردی تو کر سکتا ہے اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔

کیا ہمیں ایسے دوست کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے ملک واپس لوٹ آئے اور پرانے دوستوں سے از سر نو روابط قائم کرے؟

کیا ایسا مشورہ دینے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نئے ملک کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں؟
کیا واپس آنا اعتراف شکست نہ ہو گا؟

کیا ایسا مشورہ دینے کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ ایک ایسے بچے کی طرح ہے جسے اپنے دوستوں کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا وہ یہاں بھی کامیاب ہو گا یا نہیں کیونکہ پچھلے چند سالوں سے دیار غیر میں رہنے کی وجہ سے وہ مقامی مارکیٹ سے قطع تعلق ہو گیا تھا؟

کیا اس سے بہتر نہیں کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اگر وہ لوٹ بھی آئے تو وہ اپنے ملک میں ضرور کامیاب ہو گا۔

جارج کا وہ دوست تین برس سے روس میں قیام پذیر تھا۔ وہ اپنے ملک آنے سے کتراتا تھا اور جواز یہ پیش کرتا تھا کہ روس کے سیاسی حالات غیر یقینی ہیں اس لیے وہ ملک نہیں چھوڑ سکتا۔

ان تین سالوں میں جارج کی زندگی بہت بدل چکی تھی۔ دو سال پیشتر اس کی والدہ فوت ہو گئی تھیں اور جارج اور اس کے والد ایک گھر میں رہنے لگے تھے۔ جارج نے اپنے دوست کو والدہ کی وفات کی خبر سنائی تھی لیکن اس کی تعزیت کے خط میں روکھا پن تھا۔

والدہ کی وفات کے بعد جارج نے والد کے کاروبار میں زیادہ محنت اور مشقت سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ والدہ کی زندگی میں جارج کے والد ایک آمرانہ انداز سے کاروبار کرتے تھے لیکن بیگم کی وفات کے بعد ان کے لہجے میں نرمی آئی تھی۔ خوش قسمتی سے پچھلے دو سالوں میں کاروبار نے اتنی ترقی کی تھی کہ ان کے ملازموں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی اور آئندہ مزید ترقی کی امید بھی تھی۔

جارج کے دوست کو اس ترقی کی بالکل خبر نہ تھی اسی لیے اس نے اپنے تعزیت کے خط میں جارج کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی ہجرت کر کے روس آ جائے۔

جارج اپنے دوست سے سطحی باتیں کرتا تھا۔ ایک خط میں جارج نے لکھا تھا کہ اس کے ایک واقف کار کی کسی دوشیزہ سے منگنی ہو گئی ہے اور جارج کی توقعات کے خلاف اس کے دوست نے اس خبر میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

جارج اپنے دوست کو ادھر ادھر کی غیر ضروری باتیں تو لکھتا لیکن دل کی باتیں کرنے سے کتراتا تھا۔ اس نے دوست کو نہیں بتایا تھا کہ اس نے خود ایک پری چہرہ فریدا سے منگنی کر لی ہے۔

ایک شام جارج اپنی منگیتر سے اپنے دوست کا ذکر کر رہا تھا کہ منگیتر نے پوچھا
کیا تمہارا دوست ہماری شادی کی تقریب میں شرکت کرے گا؟
میں تمہارے سب دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں۔

جارج نے جواب میں کہا کہ اگر میں بلاؤں گا تو وہ ضرور آئے گا لیکن یہ بھی سمجھے گا کہ میں نے اسے زبردستی بلایا ہے۔ اور جب وہ واپس جا رہا ہو گا تو حد سے زیادہ تنہا محسوس کرے گا

کیا تم جانتی ہو کہ احساس تنہائی بہت تکلیف دہ احساس ہے؟

منگیتر نے کہا کہ اگر تم اپنے دوست کو خود نہیں بتاؤ گے تو اسے دوسرے دوستوں سے تمہاری منگنی کی خبر مل جائے گی۔

اسی لیے جارج نے اس صبح اپنے دوست کو طویل خط میں اپنی منگنی کے بارے میں ان الفاظ میں مطلع کیا تھا

میں نے بہترین خبر خط کے آخر کے لیے چھوڑ رکھی تھی۔ میں نے ایک متمول خاندان کی دوشیزہ فریدا سے منگنی کر لی ہے۔ تم اسے نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ملک کے جانے کے بعد اس علاقے میں ہجرت کر کے آئی تھی۔ میں منگنی کے بعد زیادہ خوش رہتا ہوں اس لیے اب تمہارا سنجیدہ دوست ایک خوش مزاج دوست بن گیا ہے۔

میری منگیتر تمہیں اپنی نیک خواہشات بھیج رہی ہے۔

تم اس سے مل کر بہت خوش ہو گے اور وہ تمہاری بھی دوست بن جائے گی۔ ہم دونوں کی خواہش ہے کہ تم ہماری شادی کی تقریب میں شامل ہو لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے شامل نہ ہو پاؤ تو ہم تمہارے فیصلے کا احترام کریں گے۔

جارج اس خط کو اپنے ہاتھوں میں لیے اپنے کمرے میں کافی دیر تک بیٹھا رہا اور کھڑکی سے دریا کا منظر دیکھتا رہا۔ وہ اس منظر میں اتنا مگن تھا کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ اس کے ایک واقف کار نے ہاتھ ہلا کر اسے آداب کہا تھا۔

بالا آخر جارج نے خط اپنی جیب میں ڈالا اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے والد کے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ مہینوں سے نہ گیا تھا۔ اپنے والد کے کمرے میں جانے کی ضرورت اسے اس لیے پیش نہ آئی تھی کیونکہ وہ اپنے والد سے ہر روز دفتر میں ملتا بھی تھا اور ان کے ساتھ لنچ بھی کرتا تھا سوائے ان دنوں کے جب وہ کبھی اپنے دوستوں سے اور کبھی اپنی منگیتر سے لنچ کرنے چلا جاتا تھا۔

جارج جب اپنے والد کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے احساس ہوا کہ باہر سورج کی روشنی ہونے کے باوجود کمرہ تاریک تھا۔ جارج کے والد کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے جہاں جارج کی مرحوم والدہ کی تصویریں تھیں جارج کے والد صبح کا اخبار پڑھ رہے تھے۔ ان کے سامنے میز پر ناشتے کا ٹرے رکھا تھا لیکن انہوں نے بہت کم ناشتہ کھایا تھا اور باقی چھوڑ دیا تھا۔

صبح بخیر جارج
اس کے والد نے اٹھ کر جارج کا استقبال کیا۔
’میرے والد ایک دراز قد انسان ہیں‘ جارج نے سوچا
آپ کے کمرے میں تاریکی ہے اور آپ نے کھڑکی بھی بند کر رکھی ہے
مجھے ایسا ہی اچھا لگتا ہے
والد نے جواب دیا
باہر موسم خوشگوار ہے
یہ کہہ کر جارج کرسی پر بیٹھ گیا
جارج کے والد نے اپنے ناشتے کا ٹرے دور ہٹایا اور جارج کے پاس ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔

جارج نے کہا
میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اپنے دوست کو جو سینٹ پیٹرزبرگ میں رہتا ہے اپنی منگنی کی خبر بھیج رہا ہوں۔

جارج نے جیب سے خط نکالا اور پھر اسے واپس جیب میں رکھ دیا۔
سینٹ پیٹرزبرگ۔ جارج کے والد نے حیرت سے کہا
ہاں یہ خط اپنے دوست کو بھیج رہا ہوں جو پیٹرزبرگ میں رہتا ہے۔ پہلے میں نے سوچا اسے نہ بتاؤں کیونکہ وہ ایک عجیب و غریب انسان ہے پھر سوچا میں خود ہی اسے یہ خبر دے دوں اس سے پہلے کہ وہ یہ خبر اوروں سے سنے۔

تو تم نے اپنی رائے بدل لی ہے۔ جارج کے والد نے کہا

جی ہاں رائے بدل لی ہے وہ میرا اچھا دوست ہے۔ خبر سن کر خوش ہو گا۔ لیکن دوست کو بتانے سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتا تھا۔

جارج اچھا کیا تم نے مجھے یہ خبر سنائی لیکن تم جانتے ہے کہ ہمیں چند ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے جو اس سے زیادہ اہم ہیں۔ جب سے تمہاری والدہ کا انتقال ہوا ہے کچھ ایسی باتیں ہوئی ہیں جو درست نہیں ہیں۔

تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہاری والدہ کی وفات نے مجھے تم سے کہیں زیادہ افسردہ اور دکھی کیا ہے۔
اب تم مجھے سچ سچ بتاؤ کہ کیا واقعی سینٹ پیٹرزبرگ میں تمہارا کوئی دوست ہے؟
جارج پریشان ہو کر اٹھا اور کہنے لگا

آپ میرے دوستوں کو چھوڑیں آپ مجھے دوستوں سے ہزار گنا زیادہ عزیز ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنا خیال نہیں رکھتے۔ شاید یہ بڑھاپے کا اثر ہے۔ اگر کاروبار آپ کی صحت کو منفی انداز سے متاثر کر رہا ہے تو ہم اسے کسی بھی وقت بند کر سکتے ہیں۔

مسئلہ آپ کے طرز حیات کا بھی ہے۔ آپ اپنے کمرے میں اندھیرے میں بیٹھے رہتے ہیں کھڑکی بھی نہیں کھولتے اور ناشتہ بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتے۔

ہم آپ کو دوسرے کمرے میں منتقل کر سکتے ہیں جہاں سورج کی روشنی زیادہ ہوگی۔
جارج میرا نہیں خیال تمہارا کوئی سینٹ پیٹرزبرگ میں دوست ہے۔

کیا تم میرے ساتھ کوئی مذاق کر رہے ہو؟
جارج نے کہا

اس دوست کو یہاں سے گئے تین سال ہو گئے ہیں آپ شاید اسے بھول رہے ہیں۔ آپ اس دوست سے مل بھی چکے ہیں آپ شروع میں اسے پسند نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں ایک دفعہ آپ کا اس سے مکالمہ بھی ہوا تھا۔ آپ نے اس سے سوال بھی پوچھے تھے اور اس نے روس کے بارے میں آپ کو عجیب و غریب واقعات بھی سنائے تھے۔

پھر جارج نے اپنے والد کو گود میں اٹھایا اور بستر پر جا کر لٹایا اور ان پر چادر بھی ڈال دی۔
پھر جارج کے والد کو اس کا دوست یاد آیا اور انہوں نے جارج سے پوچھا
کیا تمہارے دوست کا اتنی دور جا کر بسنا ضروری تھَا؟
پھر جارج کے والد بڑبڑانے لگے جیسے ان پر ایک ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی ہو کہنے لگے

اس نے اپنی سکرٹ اٹھا دی تھی ایسا کرنے سے اس نے تمہاری مرحوم ماں کی یاد کی بھی اور تمہاری بھی توہین کی تھی

جارج کے والد بے تکا بولتے چلے گئے اخر میں کہنے لگے
جارج کیا تم ایک مسخرے ہو؟
تم اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہو لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ میں اس عمر میں بھی تم سے زیادہ مضبوط ہوں
تم یہ بھی نہیں جانتے کہ تمہارا دوست سب کچھ جانتا ہے
تم کسی شیطان سے کم نہیں تمہیں تو کہیں ڈوب مرنا چاہیے

جارج یہ سن کر اپنے والد کے کمرے سے نکلا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتا نیچے چلا گیا اور دریا کی طرف قدم بڑھانے لگا

وہ جلد ہی دریا کے پل پر پہنچ گیا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور جب اس کے قریب سے ایک بس گزر رہی تھی اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی

جب وہ پانی میں ڈوب رہا تھا اس وقت پل کے اوپر سے بھاری ٹریفک گزر رہی تھی
بھاری ٹریفک کے شور میں اس کے ڈوبنے کی آواز ڈوب گئی۔
۔ ۔
نوٹ
فرانز کافکا کے افسانے
JUDGEMENT
کا ترجمہ اور تلخیص

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 734 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments