صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 22 : فیصلہ
”لیکن روح کا پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، وفاداری، حلم، اور پرہیزگاری ہے۔ ان باتوں کے خلاف کوئی قانون نہیں۔“ گلتیوں 5 : 22۔ 23
اُس زمانے میں متوسط طبقے کے لوگوں کے بیشتر گھروں میں ڈرائنگ روم نام کا کوئی کمرہ نہیں ہوتا تھا جہاں مہمانوں کی خاطر و مدارت کی جا سکے۔ بزرگوں کے مہمانوں کے لیے گھر کے دروازے کے باہر ہی کرسیاں بچھا دی جاتیں اور وہیں چائے بسکٹ پہنچا دیے جاتے۔ اسکول جانے والے بچوں کے مہمان گھر کے سامنے ہی کھڑے ہو کر باتیں کرلیتے اور کالج جانے والے لڑکے نزدیک ترین ایرانی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر لڑکیوں، فلموں اور انقلاب کی باتیں کر لیا کرتے تھے۔
سنا تھا کہ لاہور کی لڑکیاں اتنی ماڈرن ہو گئی ہیں کہ موٹر سائیکلوں پر گھومتی پھرتی ہیں اور ریسٹورنٹوں میں بیٹھتی ہیں، مگر حیدرآباد میں ابھی لڑکیوں نے بغاوت نہیں کی تھی اور ایرانی ریسٹورنٹوں میں خواتین نظر نہیں آتی تھیں۔ ایسے ماحول میں رسالہ روڈ پر کیفے حیات واحد ریسٹورنٹ تھا جہاں اوپر کی منزل پر فیملی کیبن تھے۔ وہاں بال بچے والوں کے علاوہ محبت کے عہد و پیماں کرنے والے جوڑے بھی ڈرتے ڈرتے آتے تھے کہ کہیں کسی جاننے والے کی نظر نہ پڑ جائے۔
چرچ سروس کے بعد پادری پال ہمیشہ دروازے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خدا حافظ کہتے تھے۔ وہ اپنی جماعت کے ہر ممبر اور اس کے بچوں کے نام جانتے تھے اور ہر ایک کا نام لے کر اس کی خیریت پوچھتے۔ مریم اور دانی ایل بھی پادری پال کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑے انتظار کرتے کہ سب لوگوں کے جانے کے بعد وہ صفائی کا کام شروع کریں۔ اس دن مریم نے تجویز پیش کی تھی کہ کیوں نہ واپسی پر راستے میں کیفے حیات پر رُک کر چائے پی جائے۔ دانی ایل کا حال یہ تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اسے تو ان لمحات کی شدت سے تلاش رہتی تھی جو وہ مریم کے ساتھ تنہائی میں گزار سکے چناں چہ اس نے فوراً مریم سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
جب وہ صفائی ختم کر کے باہر نکلے تو آسمان ابر آلود تھا جس کی وجہ سے گرمی میں کمی آ گئی تھی۔ ویسے بھی مون سون کا موسم آ گیا تھا اور کسی دن بھی بارش شروع ہو سکتی تھی۔ دانی ایل نے اپنی اسکوٹر کیفے حیات کے سامنے پارک کردی۔ اس کے برابر ہی ریسٹورنٹ کی اوپری منزل پر جانے کا زینہ تھا جس کے دروازے پر لگے ہوئے بورڈ کے مطابق اس میں صرف فیملی کے داخلے کی اجازت تھی۔ دانی ایل اور مریم کونے کے ایک کیبن میں بیٹھ گئے۔ میز کے کونے پر ایک بٹن لگا ہوا تھا جسے دبانے سے نچلی منزل پر گھنٹی بجتی تھی تو کیبن نمبر روشن ہوجاتا تھا اور جس ویٹر کی ڈیوٹی ہوتی تھی وہ آرڈر لینے کے لیے اوپر آ جاتا تھا۔
” یہاں کی پیٹیز مشہور ہیں،“ دانی ایل نے کہا۔
”نہیں بس میں تو چائے پیوں گی، گھر پر انتظار ہو رہا ہو گا کھانے پر،“ مریم نے جواب دیا۔
”میں بھی صرف چائے پیوں گا۔“
دانی ایل نے ویٹر کو دو چائے کا آرڈر دے دیا۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا جب دانی ایل کو مریم سے تنہائی میں ملنے کا موقع ملتا تھا۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی۔ وہ محسوس کرتا تھا جیسے ساری دنیا رک گئی ہو اور وہ پل ایک جادوئی لمحہ بن گیا ہو جس میں صرف وہ اور مریم موجود ہوں۔ اس کی نظر میں مریم ایک مکمل تصویر ہوتی، جہاں اس کی ہر حرکت، ہر لفظ اور ہر مسکراہٹ اسے مزید پرکشش بنا دیتی۔ دانی ایل کی نظریں مریم پر جمی ہوئی تھیں اور اس پر تنویمی کیفیت طاری تھی جس میں اس کے سامنے صرف مریم کے مسکراتے ہوئے ہونٹ تھے۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور سیڑھیوں پر کسی کے چلنے کی چاپ سے اس کا سحر ٹوٹ گیا۔
مریم نے مسکرا کر پوچھا، ”کیا سوچ رہے تھے؟“
دانی ایل نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اسی لمحے ویٹر چائے کی ٹرے لیے کیبن میں داخل ہوا۔
”آپ کچھ اور منگوانا چاہیں تو گھنٹی بجا دیجیے گا،“ ویٹر نے کہا اور دانی ایل نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ویٹر سر ہلا کر چلا گیا۔
”دراصل میں سوچتا ہوں کہ تمہارے بغیر زندگی کیسے گزار سکتا ہوں،“ دانی ایل نے چائے بناتے ہوئے کہا۔
”دانی، جب میں تمہارے ساتھ ہوتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ایورسٹ پر کھڑی ہوں۔ تمھاری دوستی اور تمہاری محبت میرے لیے بہت قیمتی ہے اور میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ کبھی ایسا بھی ہو گا کہ تم میرے ساتھ نہیں ہوں گے۔“ مریم سر جھکائے سرگوشی میں بول رہی تھی جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہی ہو۔
دانی ایل خاموش رہا۔ اسے مریم کے چہرے پر کرب کی سی کیفیت نظر آئی مگر پھر مسکرا کر اس نے اپنے پرس سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا۔
”میرے پاس بھی تمہارے لیے ایک تحفہ ہے،“ اس نے دانی ایل کے ہاتھ میں وہ ڈبّہ دے دیا۔
دانی ایل نے ڈبّہ کھولا تو اس میں ایک پارکر فاؤنٹین پین تھا۔
”شکریہ، مگر اتنا مہنگا تحفہ تمہیں نہیں خریدنا چاہیے تھا،“ دانی ایل نے مسکرا کر کہا۔
”تم مجھے اتنے عزیز ہو، دانی، کہ میرے لیے تمہارے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔“
”تمہارا بے حد شکریہ۔“
دانی ایل محسوس کر رہا تھا کہ مریم کچھ اور کہنا چاہ رہی ہے۔ بار بار اس کا ہاتھ اپنے پرس پر جاتا مگر وہ اسے پھر کھینچ لیتی۔ آخر کار اس نے اپنے پرس کو اٹھا کر کھولنا شروع کر دیا۔
”دانی، میری تم سے ایک اور درخواست ہے؟“
”بولو۔“
”تم اِس کے بجائے مجھے کوئی اور تحفہ دے دو،“ مریم نے انگوٹھی کی ڈبیہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
دانی ایل کچھ کہے بغیر اس ڈبیہ کو گھورتا رہا پھر بولا، ”کیا میں سمجھوں کہ تم میری پیش کش کو مسترد کر رہی ہو؟“
”یقین کرو دانی، کہ مجھے تمہاری دوستی بے حد عزیز ہے۔“
”مگر تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتیں۔ یہی بات ہے نا؟“
”کاش میں کر سکتی!“
”کیا تم سمجھتی ہو کہ مجھے وجہ جاننے کا حق ہے؟“
”بالکل حق ہے،“ مریم نے جواب دیا، ”دراصل ابھی شادی کرنا میرے پلان میں شامل نہیں ہے۔ اگلے ہفتے یونیورسٹی شروع ہو جائے گی اور ابھی مجھے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔“
”اگر میں تم سے وعدہ کرلوں کہ کبھی تمہارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنوں گا؟“
”تم وعدہ نہیں کر سکتے، اور میں بھی تم سے یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ اگر ہمارے راستے جدا ہوں تو تم اپنا راستہ چھوڑ کر میرے ساتھ چلو۔“
”میں نے تو خواب دیکھنا شروع کر دیے تھے کہ ہم زندگی بھر ساتھ رہیں گے۔“
”میری بھی یہی خواہش ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پھلتا پھولتا دیکھیں۔ میں تمہیں ترقی کے مدارج طے کرتے دیکھ کر خوش ہوں اور تم مجھے دیکھ کر خوش ہو۔ اگر ہم ایک دوسرے کی آزادی پر اثر انداز ہونے لگیں تو دونوں وہیں منجمد ہوجائیں گے۔ “
” مگر ہم ایک دوسرے کی آزادی پر کیوں اثر انداز ہوں گے؟“
” اس لیے کہ ہم دونوں آزاد ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ہماری راہیں ایک ہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم آزادی سے ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔“
”ممکن ہے کہ میں ہی نادان ہوں کہ تمہاری اجازت کے بغیر ہی تمہیں اپنے خوابوں میں شامل کر لیا تھا۔“
”یہ تمہاری نادانی نہیں، میری خوش نصیبی ہے۔ میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے اپنے خوابوں میں شامل کیا۔“
”بہرحال، میں بھی تمہارا بے حد شکر گزار ہوں۔ ہمارا جو وقت ساتھ گزرا اس دوران مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اگر میں زمین پر زور سے پاؤں ماروں تو پانی نکل آئے گا۔“
”مجھے یقین ہے کہ نکل آئے گا۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہماری دوستی اور تمہارے لیے میری محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔“
دانی ایل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مریم بھی سوچ میں ڈوبی میز کو اپنی انگلیوں سے تھپکتی رہی۔ آخر دانی ایل نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا،
”میں بھی بڑا بے وقوف تھا۔ خواہ مخواہ خواب دیکھنے شروع کر دیے تھے کہ ہم اکٹھے زندگی گزاریں گے۔“
”دانی، میں نے تم سے شادی کرنے سے انکار تو نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ جب میں شادی کے لیے تیار ہوں اور تم اس وقت تک شادی شدہ نہ ہو تو میں ہی تمہیں شادی کی پیشکش کردوں۔“
”اور اگر اس وقت میں انکار کردوں تو؟“ دانی ایل نے مسکرا کر کہا۔
”تو میں کسی اور کو تلاش کرلوں گی،“ مریم نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
”ایسا کرو کہ تم یہ انگوٹھی رکھو،“ دانی ایل نے انگوٹھی کی ڈبیہ مریم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ”ہم باغبان جیولرز چلیں گے۔ تم اسے واپس کر کے کچھ اور لے لینا۔“
”مگر یہ بہت قیمتی ہے، دانی۔“
”اتنی قیمتی نہیں جتنی تم میرے لیے ہو،“ دانی ایل نے مریم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے بٹوے سے دو روپے کا نوٹ نکالا اور میز پر رکھ کر اٹھ گیا۔ مریم بھی اٹھی اور وہ زینے سے اتر کر نیچے آ گئے۔ ہلکی ہلکی بوندیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں اور ہوا میں بھی کچھ ٹھنڈک تھی۔
”آؤ چلیں،“ دانی ایل نے اپنی اسکوٹر اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
- صلیبیں اپنی اپنی (31) - 18/01/2025
- صلیبیں اپنی اپنی (30) - 02/01/2025
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 29 : بازگشت - 19/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).